''سعودی عرب اور آسٹریلیا میں بائیس برس گزارنے کے بعد میں پانچ ہزار ڈالر لے کر پاکستان آگیا۔ دسمبر 1995ء میں دفتر کی تلاش شروع کردی۔آفس شروع کیا تو میں بہت پرجوش تھا۔ وہ دن مزیدار تھے۔ میں نے آفس کے لیے ہرشے خود خریدی، آفس کو ڈیزائن بھی خود ہی کیا۔ میرے بھائی نے میری صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے بیس لاکھ روپے دیے تھے ، مجھے اسی بیس لاکھ سے کاروبار کا رسک لینا تھا۔میرے پاس دو سوٹ تھے اور میں روز صبح ایک سوٹ پہن کر آفس چلا جاتا۔ میں اپنی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو بھی تھا، آفس بوائے بھی اور کافی میکر بھی۔ شروع کے دن بڑے پر جوش تھے۔ میں نے ہر جاننے والے کو کال کرنا شروع کردیا اور بتانے لگا کہ میں نے لاہور میںسافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور نیٹ ورک کا کام شروع کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جلد ہی لوگ لائنیں لگا کر کھڑے ہو جائیں گے لیکن کچھ ہی دن میں یہ خود اعتمادی ہوا ہوگئی۔ اس وقت پاکستان میں تجارتی ادارے کمپیوٹر کی بجائے ہاتھ سے لکھے ہوئے کھاتوں پر یقین رکھتے تھے۔ میں اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہا تھا۔ میں روزانہ کاروباری لوگوں سے ملاقاتیں کرتا، انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت پر قائل کرتا، مگر جواب ملتا کہ چھوڑیں جی، جیسے کام چل رہا ہے، ٹھیک چل رہا ہے۔ کئی مہینے گزر گئے، بھرپور محنت کے باوجود کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ میں آفس میں بیٹھا ہوں اور فون کی گھنٹی بجے اور کوئی مجھ سے میرے کام کے بارے میں دریافت کرے۔ مگر وہ دن نہیں آرہا تھا، فون کی گھنٹی سننے کو کان ترس گئے تھے۔ ایک دن بیگم سے کہا کہ دن میں دو دفعہ لازمی آفس کے فون پر کال کیا کرو۔ بیگم نے حیران ہو کر پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ میں نے کہا کہ آفس کا فون خاموش رہتا ہے، تمہاری کال سے آفس میں کوئی جان محسوس ہوگی۔ چنانچہ بیگم نے روزانہ فون کرنا شروع کردیا۔ فون کی ہر گھنٹی کے ساتھ ایک نئی امید پیدا ہوتی کہ شاید یہ وہ کال ہو جس کا مجھے انتظار تھا۔
کئی مہینوں کے بعد آخر وہ کال آہی گئی جس کو پہلی بزنس کال کہا جاسکتا ہے۔ اس کال نے میری خالی کمپنی کو کام سے بھر دیا۔ کال کرنے والا میرا بھائی تھا جو مرسڈیز بینز کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اس کی کمپنی کو اس زمانے کے جدید کمپیوٹر پر کام کرنے کے چار آدمیوں کی ضرورت تھی جو بنکاک میں کام کرسکیں۔ میں نے وہ چار آدمی پاکستان بھر سے کس طرح اکٹھے کیے یہ ایک الگ داستان ہے۔ خیر جب میں ان لوگوں کو وہاں لے گیا توان چاروں نے اپنی محنت سے نہ صرف میری بلکہ پاکستان کی عزت بڑھا دی ۔ وہ کمپنی جسے پاکستان میں کوئی کام نہیںدے رہا تھا، نجانے کس طرح دنیا کے ایک بڑے موٹر ساز ادارے کو خدمات مہیا کررہی تھی۔ اس کے بعد میرے لیے دنیا بدلنے لگی۔ میں نے اپنے پہلے گاہک کو چھوڑا نہیں بلکہ ہر ہفتے بنکاک جاتا اور اس کے دفتر کے سامنے کھڑا ہوجاتا۔ جیسے ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تو میں اس
کمپنی کے اعلیٰ افسر کے سامنے جاکر کھڑا ہوجاتااور اسے لنچ کی دعوت دیتا۔ کھانے کے دوران اس سے مزید کام دینے کی درخواست کرتا اور شام کو واپسی کے لیے جہاز پر بیٹھ جاتا، کیونکہ میں بنکاک میں کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے ایک سال تک اپناکام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اس ایک شخص کے ساتھ ہر ہفتے کھانا کھایا اور آخر ایک دن آگیا جب اس نے میرے دفتر کال کی اور مجھے ایک سافٹ وئیر بنانے کا آرڈر دے دیا۔ جب وہ باقاعدہ معاہدے کے لیے لاہور آیا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے یہاںلوڈ شیڈنگ کے بارے میں پتا چلے ۔ میں نے تین دن کے لیے ایک بڑا جنریٹر کرائے پر لیااور اپنے دفتر میں بجلی کے نظام کویوں ترتیب دیا کہ انہیں معلوم ہی نہ ہوسکا کہ کب بجلی گئی اور کب آئی۔دوسرا کام میں نے یہ کیا کہ اپنے دفتر کو بڑا دکھانے کے لیے اپنے نوجوان بھتیجے ، بھانجوں اور ان کے دوستوں کو پیزا کی لالچ دے کر اس کام پر تیار کر لیا کہ تین دن کے لیے وہ سب میرے دفتر میں کمپیوٹروں پر بیٹھے کام کرتے نظر آئیں گے۔ مرسڈیز والوں کی ٹیم تین دن میرے ساتھ مذاکرات کرتی رہی اور آخرکار آرڈر دے کر چلی گئی۔ اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، میر ے کاروبار کو پر لگ گئے۔ میری کمپنی پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ کی سٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہوکر گویا ایک ملٹی نیشنل کمپنی بن گئی۔ اور اب ماشااللہ میری کمپنی میںڈیڑھ ہزار نوجوان بہترین تنخواہوں پر کام کررہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر دنیا کے بڑے بڑے ادارے پورے اعتماد سے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے پیسہ بھی بنا لیا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میں اپنے ملک میں کام کرتا ہوں۔ یہ میرا پاکستان ہے، جہاں محنت کاپھل ملتا ہے، جہاں کے لوگ دنیا بھر میں اپنی ذہانت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں‘‘۔
امید اور مایوسی سے گزرتی یہ کہانی پاکستان کے ایک کامیاب بزنس مین سلیم غوری نے لکھی ہے جو اب ایک کتاب کی صورت میں چھپ چکی ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی انکشاف نہیں، کوئی تہلکہ خیزی نہیں اور نہ کوئی الٹی سیدھی بات کرکے اسے مقبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک سادہ سے کاروباری شخص کی محنت کی داستان ہے جسے اپنے ملک پر اعتماد ہے، جسے خود پر اعتماد ہے، جسے اللہ پر بھروسہ ہے ، جو ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر اپنا کاروبار شروع کرتا ہے اورحالات سے لڑتا ہوا اتنی ترقی کرتا ہے کہ آج پاکستان کا بل گیٹس کہلاتا ہے۔
سلیم غوری پاکستان کے اکیلے بزنس مین نہیں جنہوں نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، ہمارے بے شمار کاروباری افراد نے زندگی کا آغاز صفر سے کیا اور اپنی محنت و لیاقت کے بل پر بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ کسی نے چھوٹی سی دکان سے آغاز کیا اور سٹورز کی چین کا مالک بنا۔ کسی نے خرادمشین کے ساتھ اپنی ورکشاپ کھولی اور کئی فیکٹریاں بنا لیں، کسی نے چھوٹی سی ٹھیکیداری سے کام شروع کیا اور ملک کا سب سے بڑا ڈویلپر بن کا ابھرا۔ یہ کہانیاں ہمارے معاشرے کا حسن ہیں، ہمارے لوگوں کے جذبوں کی صداقت کی شہادت ہیں۔سلیم غوری بھی انہی میں سے ایک ہے، اس نے اپنا تجربہ کتاب کی صورت میں نئی نسل کے حوالے کردیا ہے۔اپنی کہانی پوری سچائی کے ساتھ، بغیر نمک مرچ ملائے بیان کردینا وہ فرض ہے جو پاکستان کے ہر کامیاب کاروباری شخص کو ادا کرنا ہے تاکہ شک و شبہے میں مبتلا رہنے والی، ہر کامیابی کو بد دیانتی سمجھنے والی اوراپنی محنت سے پیسہ کمانے والے کو چور سمجھنے والی پاکستانی قوم کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو سمجھ آئے کہ کامیاب لوگ اپنی محنت کے ''شارٹ کٹ ‘‘ سے گزر کر ہی بڑے بنے ہیں۔ سلیم غوری نے ''کچھ نہیں سے سب کچھ‘‘ لکھ کر اپنا یہ فرض خوبصورتی سے ادا کردیا ہے۔