لاہور اور اوکاڑہ کے ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سن سکتا ہے، دیکھ سکتا ہے، بول سکتا ہے‘ نہ کچھ کرسکتا ہے۔ اگر وہ دیکھ سکتا تو ان دونوں شہروں میں ضمنی انتخاب کے حلقوں کی سڑکوں پر لگے ہوئے بینروں کی تعداد کو دیکھتا، اگر وہ سن سکتا تو میڈیا پر اٹھنے والی آوازوں کو سنتا، اگر بول سکتا تو علیم خان اور ریاض الحق جج سے یہ تو پوچھتا کہ جنابِ عالی آپ کے بارے میں ووٹوں کی خریداری کی جو کہانیاں بکھری ہیں ان کی وضاحت تو فرما دیں، اگر کچھ کرسکتا تو ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اس حلقے میں ہونے والے اخراجات کی اصل رقم کا سراغ لگاتا اور ذمہ دارامیدواروں کو مستقل نہ سہی کم ازکم دو قومی الیکشنوں کے لیے تو نااہل قرار دیتا۔کہنے کو تو قومی اسمبلی کے ان دو حلقوں میں ایاز صادق ن لیگ کے امیدوار کے طور پر اور ریاض الحق جج آزاد حیثیت میں جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ لاہور میں تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان اور اوکاڑہ میں آزاد امیدوار ریاض الحق جج نے مل کر کسی اور کو نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو ہرا دیا ہے۔
اگرعلیم خان کی فتح پر شک گزرے تو الیکشن کمیشن کا جاری کردہ وہ ضابطۂ اخلاق دیکھ لیں جس میں قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ پندرہ لاکھ روپے سے زیادہ انتخابی مہم پر خرچ نہیں کرے گا۔ علیم خان نے اپنی مہم میں جتنے پیسے
خرچ کیے ان کے مقابلے میں پندرہ لاکھ روپے کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی پندرہ لاکھ کے مقابلے میں پندرہ روپے کی۔ ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے جو نقرئی حربے انہوں نے استعمال کیے ان کی محیر العقول تفصیلات ملک بھر میں پھیل چکیں۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی وہ بلا خوفِ احتساب پھریں، یہ فتح نہیں تو اورکیا ہے! اسی طرح ریاض الحق جج اپنے بے پناہ پیسے کے زور پر مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو روند کر قومی اسمبلی میں جا براجے۔ انہوںنے اوکاڑہ میں جمہوریت اور انتخابی ضابطوں پر اپنی دولت سے جو ضربیں لگائیں وہ میڈیا کی توجہ تو نہ کھینچ سکیں لیکن ان کی ٹیسیں آئندہ کئی سال تک اس ملک کے جمہوریت پسندوں کو تڑپاتی رہیں گی۔
ان دوحلقوں کے انتخاب نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ہمارے نظام انتخاب میں سیاسی جماعت اورجمہوری خدمات بے معنی الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں، اگر کوئی فیصلہ کن عامل ہے تو بس پیسہ ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اس رجحان کی بیخ کنی کے لیے فوری طور پر سامنے نہیں آتا تو پھر آئندہ انتخاب میں فیصلہ کن عامل لوگوں کی آزادانہ رائے نہیں بلکہ ان کی خریدی یا بیچی ہوئی رائے ہوگی۔ جب یہ سلسلہ چل پڑے گا تو ایک وقت ایسا بھی آ جائے گا جب بیرونِ ملک سے آنے والا پیسہ ہماری سیاست کی تشکیل کر رہا ہو گا۔ اس کے بعد بطور ملک و قوم ہم کہاں کھڑے ہوں گے، اس کے بارے میں ہر اندازہ حقیقت سے کہیں کم خوفناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں پیسے کے سیاسی اثرات سے کیسے نمٹا جائے؟
اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل تو یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میںامیدواروں کے لیے ضابطۂ اخلاق ایسا بنایا جائے جس کی خلاف ورزی کو جانچنے کے لیے الیکشن کمیشن کی لیاقت کے علاوہ عقلِ سلیم بھی کافی ہو۔ مثلاً ہرحلقے کے لیے کچھ جگہیں مخصوص کردی
جائیں جہاں امیدوار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں اپنا تشہیری مواد لوگوں کے سامنے لا سکیں اور ان جگہوں کے علاوہ تشہیر قابل سزا جرم قرار دی جائے۔ تشہیری مواد کے علاوہ جلسوں کے لیے بھی مقامات اور وقت کا تعین کردیا جائے۔ الیکشن مہم کا سب سے بڑا خرچ انتخابی دفاتر پر اٹھتا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن ہر امیدوارکو پابند کر دے کہ وہ پہلے سے بتائی ہوئی ایک جگہ کے سوا کہیں اور دفتر نہیں کھول سکے گا تو اس پر ہر امیدوار آسانی سے تیار ہو جائے گا۔ اس طرح کے انتظامات سکنڈے نیویا کے ملکوں میں کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں سیاست امیرآدمی کے مشغلے کی بجائے عام آدمی کی ضرورت بن گئی ہے۔ پیسے کے محدود کردار کی وجہ سے عام آدمی سیاست میں حصہ بھی لے سکتا ہے اور بڑی تیزی سے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ جاتا ہے۔ انہی انتظامات کی دین ہے کہ آپ کو ان ملکوں میں وزیر اعظم سائیکل چلاتے، صدر سینما کے دوسرے درجے میں بیٹھ کر فلم دیکھتے اور وزراء بغیر کسی گارڈ کے سبزی خریدتے نظر آتے ہیں۔ ان انتظامات کی خوبی یہ ہے کہ پھر امیدواروں کی نگرانی کے لیے الیکشن کمیشن کو کچھ نہیں کرنا پڑتا بلکہ میڈیا اور مخالف امیدوار چھوٹی سے چھوٹی قانون شکنی سامنے لے آتا ہے۔ ہمارا الیکشن کمیشن اگر یہ کام کرگزرتا ہے تو یہ جمہوریت پر ایک بڑا احسان ہوگا اور ہماری سیاسی جماعتیں جلسہ گاہیں بھرنے جیسے پاگل پن سے باہر نکل کر صاف ستھری سیاست کرنے کی طرف راغب ہوںگی۔
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کے بے جا جوش و جذبے کی وجہ سے پورے ملک کا نظام بالعموم اور الیکشن کمیشن بالخصوص تناؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس دباؤ کا مقابلہ ایک کونے میں سمٹ کر کرنے کی کوشش کی ہے جو اب تک بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ حکومت کے کسان پیکیج پر یہ بلا وجہ بھڑک اٹھا جبکہ لاہور اور اوکاڑہ میں اپنے ضابطوں کی پامالی پر خاموش رہا۔ یہ رویہ کسی بھی قومی ادارے کے شایانِ شان نہیں اور ایسے ادارے کو تو بالکل زیب نہیں دیتا جسے چلانے والے حضرات سابق جج صاحبان ہوں۔ ان حضرات کا فرض ہے کہ وہ لاہور اور اوکاڑہ کے دو نوں حلقوں کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس میں ہونے والی ہر بے ضابطگی قوم کے سامنے لائیں۔ اب تک الیکشن کمیشن نے ہمیشہ جیتے ہوئے امیدواروں کے خلاف ہارے ہوئے امیدواروں کی شکایات سنی ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہارنے جیتنے کی تمیز کیے بغیر ہر اس امیدوار سے پوچھ تاچھ کی جائے جس کے بارے میں یہ گمان ہوکہ اس نے الیکشن لڑنے کی نہیں بلکہ خریدنے کی کوشش کی ہے۔