بلوچستان میں اگر کوئی جنگ تھی تو پاکستان جیت چکا، خفیہ ہاتھ تھے تو ٹوٹ چکے۔ امن کا قافلہ منزل کے قریب پہنچ کر پیچھے رہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑا ہے، کوئی دوڑ کر آن ملا تو ٹھیک ورنہ چند قدم بڑھ کر عافیت کی شہر پناہ میں داخل ہوجائے گا۔ جو نہ پہنچ سکا ہمیشہ کے لیے بلوچستان کی سیاست اور سماج سے بارہ پتھر باہر کھڑا رہے گا، خواہ وہ بگڑا ہوا بندوق بردارسردار زادہ ہو یا خود کوئی ناراض خان۔ اب جسے ملنا ہے وہ خود آئے، قافلے والے اسے لینے کے لیے نہیں پلٹیں گے۔ جنرل پرویز مشرف کی بے رحمی اور نواب اسلم رئیسانی کی بے حکمتی سے سرزمینِ بلوچستان میں جو کانٹے بکھرے تھے، انہیں سابق کمانڈر سدرن کمان جنرل ناصر جنجوعہ، آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے پلکوں سے چن لیے ہیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ اور جنرل شیر افگن نے فوج کو حلقۂ یاراں کے لیے ابریشم اور دہشت گردوں کے لیے فولاد بنا کر صوبے کے عوام کے دل جیتے اور ڈاکٹر مالک نے بلوچستان کے لوگوں کو بتایا کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، اگر امن نہ ہوا تو پھر کچھ بھی نہ رہے گا۔ ان تین مردانِ کار کی دن رات محنت کا نتیجہ مستحکم اور پر سکون ہوتے ہوئے بلوچستان کی صورت میں پاکستانیوں کے سامنے ہے۔ کوئٹہ کی رونق لوٹ آئی ہے، خضدار کی شامیں پھر سے آباد ہونے لگی ہیں، اواران کے سناٹے میںشیریں فرہاد کی داستان پھر سے سنائی دیتی ہے۔ تربت کے سکولوں میں بچے ہر صبح قومی ترانہ پڑھتے ہیں اور کوئی انہیں روکتا نہیں۔ بالیچہ میں دہشت گردوں
کے حامی ایف سی کے خلاف جلسہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں کی عورتیں ان دہشت پسندوں کے خلاف باہر نکل آتی ہیں۔ ڈھائی سال پہلے ڈاکٹر مالک نے جس بلوچستان کی قیادت سنبھالی تھی وہ بدگمانیوں کا شکار ایک ایسا مریض تھا جو ہر وقت اپنے زخموں پر کھرونچے مارتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر نے اس مریض کو محبت کو دوا دی اور اسے مایوسی سے نکال کر قومی دھارے میں ڈال دیا۔ جب ڈاکٹر صاحب یہ نازک کام کر رہے تھے، نواب ثناء اللہ زہری ان کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔ کبھی وہ کابینہ کے اجلاس میں رکاوٹ بن جاتے اور کبھی معمولی سی بات پر کوئی اور ہنگامہ کھڑا کر دیتے۔ ان کی مخالفت کے باوجود ڈاکٹر مالک نے جلتے ہوئے بلوچستان کو ٹھنڈا کیا۔ تنہا انہی کا کارنامہ ہے کہ 2013ء میں اواران کے زلزلہ زدگان بلوچ، ایف سی کے ہاتھ سے امداد لینا گوارا نہیں کرتا تھا، آج اسے امن کی ضمانت سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر مالک نے خوشی خوشی یہ ہنستا مسکراتا بلوچستان اب نواب ثناء اللہ زہری کو سونپ دیا ہے۔ جب نواب ثناء اللہ زہری نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا تھا تو میں اسمبلی میں صحافیوں کی گیلری میں بیٹھا ڈاکٹر مالک کو دیکھ رہا تھا، ان کے چہرے پر وہ اطمینان تھا جو خوش نیتی سے پھوٹتا ہے۔ جب نواب ثناء اللہ زہری قائد ایوان منتخب ہوچکے تو ڈاکٹر مالک اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ''نواب صاحب ، میں اور میرے ساتھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ جو حکم دیں گے اسے پورا کرنے کے لیے ہم جان لڑا دیں گے‘‘۔ انہوں نے اپنے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں ان کی پیدا کردہ تلخیوں کا کوئی ذکرکیا نہ اپنی تعریف میں کوئی نغمہ گایا، ایسے لہجے میں اپنے تعاون کا یقین دلایا جس کی صداقت پر فوراً یقین آجائے۔
نواب ثناء اللہ زہری کو اندازہ ہے کہ ان کے پاس ہنی مون گزارنے کا وقت نہیں ۔ ان کی جماعت وفاق اور پنجاب میں پہلے سے برسرِ اقتدار ہے، اس لیے انہیں وہ رعایتیں نہیں ملیں گے جو ان کے پیشرو کو میسر تھیں۔ ان کے پاس حکومت کے صرف ڈھائی سال اور کرنے کے تین بڑے کام ہیں۔۔۔۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تیزی سے تعمیر و تکمیل، امن و امان میں آنے والی بہتری کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنا اور صوبائی حکومت کی زنگ آلود مشینری کو حرکت میں لاکر عام آدمی کی زندگی آسان بنانا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے تو وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس معاملے میں ان کا تحرک اتنا زیادہ ہے کہ انہوں نے کابینہ کی تشکیل کے معاملے کو بھی التوا میں ڈال کر اپنی ساری توانائی ژوب میں راہداری کے ایک حصے کی افتتاحی تقریب کے لیے مختص کردی جہاں وزیراعظم نے آنا تھا۔ بلوچستان میں امن و امان کے معاملات میں فوج اور ایف سی کا کردار بہت وسیع ہے اور یہ دونوں ادارے وزیراعلیٰ کی کپتانی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا کام بڑی عمدگی سے کر رہے ہیں۔ دن رات کی محنت سے یہ ماحول بن چکا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو صوبے میں بنیادی قسم کی اصلاحات متعارف کراسکتی ہے، مثلًا صوبے کے بی ایریا کو بتدریج اے ایریا میں تبدیل کرکے پولیس کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں نے ایک متفقہ حکمت عملی بھی ترتیب دے رکھی ہے جو نفاذ کے لیے وزیراعلیٰ کی منظوری کی منتظر ہے۔ چونکہ خود نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے دو بڑے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ان کی سیاست میں بھی قبائلی رنگ بڑا گہرا ہے، اس لیے ان سے یہ توقع تو نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ قبائلی سرداروں کی اہمیت و اختیار میں کمی کرنے والی کوئی اصلاحات نافذ کرسکیں گے، لیکن یہ امید ضرور ہے کہ مسلم لیگ ن کا حصہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم کا دباؤ ان پر زیادہ کارگر ہوسکے گا۔ میری معلومات کے مطابق اسلام آباد میں تین وفاقی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی ان سے مسلسل رابطے میں رہے گی اور انہیں گھیر گھار کر تھوڑی بہت اصلاحات کی طرف لے آئے گی جس میں لیویز کے لیے الگ سیکرٹریٹ کا قیام اور چند اضلاع کو اے ایریا قرار دینا بھی شامل ہے۔
رہ گئی بات صوبائی مشینری کو حرکت میں لانے کی تو اس کے لیے نواب صاحب کو اراکینِ اسمبلی کی مدد درکار ہوگی کیونکہ صوبائی حکومت میں کام کرنے والا ہر سرکاری ملازم درحقیقت ایک سیاسی کارکن ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی ملازمت کی بقا سرکاری فرائض ادا کرنے میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنے میں ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ یوں لگائیے کہ صوبے کے نوے فیصد ڈاکٹر تنخواہ تو بلوچستان سے لیتے ہیں مگر کام کراچی کے نجی ہسپتالوں میں کرتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا عالم یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت نے اس سکول یا کالج کی شکل نہیں دیکھ رکھی جس میں انہیں پڑھانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ کوئٹہ ایسے سرکاری ملازموں سے بھرا پڑا ہے جو بغیر کوئی کام کیے باقاعدگی سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ صوبائی انتظامیہ کو جمود سے حرکت میں لانے کے لیے وزیراعلیٰ کو ایک وسیع سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا تاکہ سرکاری ملازمین کے غیر سرکاری آقاؤں کو معلوم ہو جائے کہ اب حالات بدل چکے ہیں، اس کے بغیر ان کا ہر حکم ، ہر نوٹیفکیشن اور فیصلہ سرکاری فائلوں سے باہر نہیں نکل پائے گا۔