رانا اشرف کی زندگی بھر کا اثاثہ پلاسٹک فیکٹری تھی جو اس نے بڑے چاؤ سے لاہور کی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں بنائی تھی۔ محنتی کاروباری کی طرح وہ روز صبح اپنی فیکٹری جاتا اور وہیں بنے ہوئے اپنے دفتر میں بیٹھا کام کرتا رہتا۔ دن میں ایک دو بار دفتر سے نکل کر فیکٹری کا چکر لگاتا تاکہ وہاں بننے والے مال کی کوالٹی کو خود چیک کرسکے۔ اس کا یہ معمول سات سال تک جاری رہا اور 4 نومبر2015ء کو اس وقت ٹوٹا جب وہ فیکٹری کا چکر لگا رہا تھا۔ اچانک فیکٹری کی ایک چھت ٹوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری ملبے کا ڈھیر ہوگئی۔ رانا اشرف اور تریپن مزدور اس ملبے کے نیچے دب کر ہلاک ہوگئے۔ واقعہ اندوہناک تھا، اس لیے پنجاب کی سرکاری مشینری نے دن رات کی محنت سے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں اس حادثے کو اقدام قتل قرار دے کر ساری ذمہ داری آرام سے رانا اشرف پر ڈال دی ، کیونکہ وہی ایک آدمی تھا جو اپنا دفاع کرنے کے لیے زندہ نہیں بچا تھا۔ یوں بھی پنجاب حکومت کی لغت میں حادثہ یا سانحہ جیسے الفاظ ہی موجود نہیں اس لیے بھی ہر واقعہ سازش ہے یا سوچا سمجھا جرم؛ چنانچہ رانا اشرف مرحوم کے ساتھ منسلک آرکیٹیکٹ ، انجینیر اور نہ جانے کس کس کے نام شامل کرکے ایف آئی آر وضع کر لی گئی؛ تاہم اتنی احتیاط ضروری تھی کہ پنجاب کے شعبہ ہائے صنعت، لیبر ، سوشل سکیورٹی یا کسی اور سرکاری ملازم کا نام نہ آنے پائے۔ گویا ایف آئی آر سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوگیا کہ
حکومت کا تو ہر محکمہ بالکل ٹھیک کام کررہا ہے بس ایک رانا اشرف ہی نے لاہور میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ افسوس کوئی ایسا نہ ہوا جو سرکار کو سجھاتا کہ اگر رانا اشرف کو ہی ماخوذ کرنا ہے تو پھر اس پر خود کش حملے کا ہی الزام لگا دیں کیونکہ اپنے مزدوروں کے ساتھ مرجانے سے زیادہ خود کش حملے کا اور کیا ثبوت ہوگا۔فیکٹری دوبارہ کیسے تعمیر ہوگی، دوبارہ لوگوں کو کیسے روزگار ملے گا ان باریکیوں میں حکومتیں کہاں پڑتی ہیں سو سب کچھ اجڑ گیا ۔
میجر(ر) الطاف چیمہ کا جرم بھی رانا اشرف والا تھا ۔ ان کی فیکٹری میں لگا ہوا بوائلر اچانک پھٹ گیا جس کی زد میں آکر آٹھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ حکومت کے پاس ایسے لوگ اور محکمے ہیں جن کا کام ہی فیکٹریوں کے بوائلرز کی جانچ پڑتال کرتے رہنا ہے تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔ اس کے باوجودپاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں بوائلر کے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ الطاف چیمہ کی فیکٹری میں بھی یہ ایک حادثہ تھا اور مرنے والوں کے لواحقین بھی اسے حادثہ ہی سمجھتے تھے لیکن ہماری پیاری پنجاب حکومت ایک بار پھر کود پڑی اور الطاف چیمہ کو کے بیٹے سمیت جیل میں بند کر دیا، آخرکار جب معاملہ عدالت تک پہنچا تو حکومت
کے آہنی پنجوں سے ان باپ بیٹوں کی جان خلاصی ہوئی۔
حادثوں کی صورت میں کاروباری لوگوں پر قتل کے مقدموں کی یہ محض دومثالیں ہیں ورنہ دانائی و توانائی سے بھرپور وزیراعلیٰ پنجاب نے حادثات پر قتل کے مقدمے قائم کرنے کا جوسلسلہ شروع کیا ہے اس کی زد میں بے شمار معززین آچکے ہیں۔اگر بوائلر پھٹنے، گیس لیک ہونے یا چھت گرنے کے مقدمات کارخانہ داروں پر ہی بننے ہیں تو پھر یہ سلسلہ آگے کیوں نہ بڑھایا جائے کہ چور، ڈکیتی، قتل کے مقدمات متعلقہ اضلا ع کے ڈی پی او، آئی جی پولیس پر یا براہ راست ان پر کاٹے جائیں جو صوبے یا ملک میں امن و امان کے ذمہ دار ہیں۔پھر ڈاکٹروں اور وکیلوں پر بھی قتل کے مقدمات کیوں قائم نہ کیے جائیں کہ کبھی علاج کے باوجود مریض مرجاتا ہے اوربہترین وکالت کے بعد بھی مؤکل پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ پنجاب کی دیکھا دیکھی اب وفاقی حکومت نے بھی یہ روش پکڑ لی ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کو اس قدر رسوا کیا جائے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ جھوٹی سچی خبروں پر مقدموں کا اندراج، پھر معزز لوگوں کی تھانوں میں طلبی، میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ملک کی بہترین کمپنیوں کے دفتروں میں چھاپو ں کا سوائے اس کے کیا مطلب لیا جائے کہ سرکار کا کوئی منصب دار یا کوئی سرکاری ادارہ ان لوگوں کو ذلیل کرکے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔ آخرجو کام سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن یا سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کرنا چاہیے وہ ایف آئی اے اور نیب کیوں کررہے ہیں؟
یادش بخیر پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز جب وزیر خزانہ تھے تو ایک دن کہنے لگے ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کاروباری لوگوں کو میڈیا سے لے کر عدالت تک ہر جگہ ذلیل کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ لوگ دن رات محنت کرکے لوگوں کو روزگار دیتے ہیں، ملک کی معیشت چلاتے ہیں، انہی کی وجہ سے ریاست کو گلی نالی سے لے کر موٹروے بنانے تک کے لیے وسائل مہیا ہوتے ہیں اور یہی لوگ چھوٹے چھوٹے سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں خوار ہوتے ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ کی سوا کروڑ آبادی وہاں کی صرف انچاس کمپنیوں میں ملازمت کرتی ہے اس لیے وہاں کسی بڑے کاروباری ادارے کے مالکان یا افسران پرکوئی الزام بھی اسی وقت لگایا جاتا ہے جب اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت مل چکے ہوں۔ یہی صورت دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کی ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنے کاروباری اداروں کی نہ صرف عزت کرتی ہیں بلکہ خارجہ پالیسی تک میں ملکی کمپنیوں کا مفاد پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ شوکت عزیز کے ساتھ یہ بات کوئی بارہ تیرہ سال پہلے ہوئی تھی، اس وقت سے لے کر اب تک تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب کاروباری آدمی کو بے عزت کرنے کے لیے صرف چھوٹے ہی نہیں بڑے بڑے حکومتی منصب دار وں نے بھی کمر کس لی ہے۔ اگر کسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب کی ایف آئی آروں سے بچ نکلیں تو چودھری نثار کی ایف آئی اے کی زد میں آجائیں گے، اگر ایف آئی اے انہیں کیفر کردار تک نہ پہنچاسکے تو نیب کی ٹکٹکی پر کس لیے جائیں گے اور اگر یہاں سے جان چھوٹ گئی، ہم اہل صحافت کہ جو سکینڈل سپیشلسٹ ہیں نا ، سرکاری ردّی میں سے ان کی بدنامی کا سامان کرلیں گے۔ میاں منشاء، عقیل کریم ڈھیڈی، حسین داؤد، اپنے مزدوروں کے ساتھ مرنے والا رانا اشرف، میجر الطاف چیمہ اور ان جیسے لوگوں نے چند لاکھ لوگوں کو روزگار ہی تو دے رکھا ہے ، چندسو ارب روپے ٹیکس ہی تو دیتے ہیں نا یہ لوگ، بھلا یہ بھی کوئی ملک کی خدمت ہے؟ ملک کی خدمت فقط حکمران کرتے ہیں یا ان کے چیلے چانٹے باقی تو سب مجرم ہیں۔