اٹھارویں ترمیم سے پہلے انیس سو تہتر کے دستور کے مطابق تعلیم کا شمار ان شعبوں میں ہوتا تھا جن پر وفاق اور صوبے بیک وقت قانون سازی کرسکتے تھے۔دستور کی روشنی میں عملی طور پر جو رواج تشکیل پایا وہ یہ تھا کہ سکول اور کالج مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں رہے جبکہ یونیورسٹی کی سطح پر وفاقی حکومت کو بالا دست تسلیم کیا جاتا تھا۔ یوں بھی اعلیٰ تعلیم کے ذیل میں دوسرے ملکوں سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے اس لیے یہ اصول طے پاگیا کہ تعلیم کے اس حصے کو وفاق ہی دیکھتا رہے۔ دوہزار دو میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کرکے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا کردیا۔ اس ادارے نے غیرمعمولی رفتار سے پانچ سال کے اندر اندر پاکستانی یونیورسٹیوں کو زمانے کے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اتنی مستحکم بنیادوں پر استوار کیا تھا کہ دوہزار آٹھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور یہ ادارہ مسلسل کام کرتا رہا۔ اس ادارے کی ثابت قدمی کو داد دینا پڑے گی کہ ملک کی وہ سرکاری یونیورسٹیاں جہاں سے بغیر پڑھے بھی ڈگری جاری ہوجاتی تھی، بہت کم عرصے میں خود کو سدھارنے پر آمادہ ہوگئیں۔اساتذہ کی تربیت، طلبہ کے لیے وظائف، یونیورسٹیوں میں بہتر انتظامیہ کا تقرر ایسے اقدامات ہیں جن کی بنیاد پر امید ہوچلی تھی کہ پاکستان جلد ہی جنوبی ایشیا میں جدید علمی مرکز بن کر ابھرے گا۔
جیسے ہی اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی تو وہ صوبے جو ہسپتال اور پرائمری سکول تک ٹھیک نہیں چلا سکتے ، یونیورسٹیوں کی نگرانی کا دعویٰ لے کر ہائیرایجوکیشن کمیشن آن براجے۔ سندھ اور پنجاب تو اس معاملے میں اتنے اتاولے ہوئے کہ انہوں نے اپنے اپنے ہائیرایجوکیشن کمیشن بھی بنا ڈالے ۔ جب یہ صوبائی ہائیرایجوکیشن کمیشن بن چکے تو معلوم ہوا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو چلانے کے لیے تجربہ موجود ہے نہ دنیا میں ان ننھے منے کمیشنو ں کو کوئی تسلیم کرتا ہے۔ دنیا پاکستان سے حاصل کردہ صرف اسی ڈگری کو اصلی مانتی ہے جس پر اصلی والے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی مہر لگی ہو۔ یہ صورتحال سامنے آئی تو خداجانے وہ کون سے اللہ کے نیک بندے تھے جنہوں نے وفاقی حکومت کو سمجھایا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو برباد ہی کرنا ہے تو یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں کیاجائے۔ معاملہ جب مشترکہ مفادات کی کونسل میں گیا تو بغیر کوئی اعلان کیے یہ طے کرلیا گیا کہ فی الحال اصلی والے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو نہ چھیڑا جائے، پس اس کمیشن نے اپنا کام جاری رکھا، لیکن سندھ اور پنجاب کے کمیشن بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، یعنی چٹھیاں لکھتے رہتے ہیں اور چٹھیاں پڑھتے رہتے ہیں۔ سندھ کے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم حسین تو فی الحال نیب کی تحویل میں اپنے ماضی کا حساب دے رہے ہیں اس لیے پنجاب کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہی ہے جو بظاہر کچھ کرنے کی پوزیشن میںہے۔ حالت اس کی بھی یہ ہے کہ اس کے پاس یونیورسٹیوں کو دینے کے لیے فنڈز ہیں نہ ان کی پڑتال کی
صلاحیت، اوپر سے پنجاب کا ہی ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اس کمیشن کے ہاتھ مارتا رہتا ہے۔ اس کمیشن کی سب سے بڑی طاقت اس کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تعلیمی میدان میں مہارت مسلمہ ہے اور یونیورسٹی آف گجرات ان کی عملیت پسندی کا ثبوت ہے۔ اگر پنجاب حکومت نے واقعی ان سے کوئی کام لینا ہے تو پھر ان سے ہائیر ایجوکیشن کا پہیہ دوبارہ ایجاد کرانے سے بہتر ہے کہ صوبے کے تباہ حال سرکاری کالجوں کی بہتری کا کام ان کے سپرد کردیا جائے۔
پنجاب میں تقریبا سات سو سرکاری کالج کام کررہے ہیں۔ ان کالجوں کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس میں اساتذہ کی تعداد ضرورت کے مطابق ہو۔ اس کے علاوہ اکثر کی عمارتیں بھی دیکھ بھال کی کمی کا واضح شکار نظر آتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری کالجوں کے لیے
فنڈز فراہم نہیں کررہی، حقیقت یہ ہے کہ سیکرٹریوں کے ماتحت چلنے والے دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم پوری طرح خرچ ہی نہیں ہو پاتی۔ گزشتہ چھے سالوں میں بدقسمتی سے ایک بار بھی ایسا نہیں ہوسکا کہ پنجاب کا ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ تمام کی تمام مہیا کردہ رقم خرچ کر سکا ہو۔ مزید بر آںجو رقم خرچ ہوتی ہے وہ بھی محل نظر ہے، مثلاََنئے کالجوں کے لیے عمارتیں تو بنتی جاتی ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان میں پڑھانے والے کہاں سے آئیں گے۔ رواں مالی سال کے لیے پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا بجٹ ستائیس ارب روپے ہے جبکہ سینتیس نئے کالج اور تین نئی یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ نئے کالج کیوں بنائے جارہے ہیں، نئی یونیورسٹیاں ضروت کے تحت بن رہی ہیں یا سیاسی دباؤ پر، ان میں کیا پڑھایا جائے گاکوئی کچھ نہیں جانتا۔
اگر سرکاری کالجوں میں پڑھائے جانے والے کورسوں اور نصاب پر سرسری سی نظر بھی ڈالی جائے تو یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تو دنیا کے ساتھ چلنے کی اپنی سی کوشش کررہی ہیں لیکن کالج اب تک انگریز دور سے باہر نہیں آسکے۔تصور کریں کہ پنجاب جو اپنی زرعی پیدوار کے لیے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے، اس کے کالجوں میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پرزراعت کا کوئی کورس موجود نہیں۔ کالجوں میں سائنس آج تک انگریزی زبان میں پڑھائی جاتی ہے جسے پڑھنے والے سمجھ پاتے ہیں نہ پڑھانے والے۔انہی کالجوں سے نکل کربچوں نے یونیورسٹیوں میں پہنچنا ہے یا عملی زندگی میں قدم رکھنا ہے۔ سرکار نے اپنے ان اہم اداروں کو اس حد تک نظر انداز کردیا ہے کہ اب سرکاری کالج میں پڑھنے والا طالب علم نجی کالج کے طالب علم سے تعلیمی سطح پر تو مقابلے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔کالجوں کے اساتذہ کی حالت بھی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی اپنے اپنے مضامین میں ہونے والی جدید تحقیق سے نابلد ہیں۔ جب کبھی حکومت نیم دلی سے اساتذہ کی تربیت کا کوئی پروگرام بناتی ہے تو اس کا معیار اتنا پست ہوتا ہے کہ اساتذہ محض مجبوری سے اس میں شرکت کرتے ہیں۔ سرکاری کالجوں کی عبرت ناک صورتحال کو سامنے رکھیں اور تصور کریں کہ وہ صوبائی حکومت جو کالج تک تو ٹھیک سے چلا نہیں سکتی ، اب یونیورسٹیاں چلانے کی تیاری کررہی ہے۔ انجام گلستاں کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں۔
اٹھارویں ترمیم سے ملنے والے اختیارات اپنی جگہ لیکن بہتری اسی میں ہے کہ صوبے شکریہ کے ساتھ یہ اختیارات وفاق کو واپس کرکے اپنے کالجوں کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ کالجوں کے مسائل اور ان کی نوعیت ایسی ہے کہ اصلاح احوال کی یہ کوشش کسی ڈی ایم جی سیکرٹری کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے ڈاکٹر نظام الدین جیسے مردانِ کار کی ضرورت ہے، جو نہ صرف دنیا کے جدید ترین رجحانات سے باخبر ہوں بلکہ انہیں اپنی ملکی ضروریات کے مطابق ڈھال بھی سکیں۔ اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کرکے دیکھ لیں۔