''تحریک انصاف میں تنظیمی عہدیداروں کے الیکشن کا پہلا تجربہ بے شک تلخ رہا لیکن امید کے سہارے ہم دوبارہ وہی تجربہ کرنے جا رہے ہیں‘‘ عمران خان ایک لمحے کو خاموش ہوئے، ان کی آنکھوں میں شرارت کی ایک چمک سی آئی اور پھر ہنس کر بولے: ''ویسے بھی دوسری شادی تجربے پر امید کی فتح ہی تو ہے‘‘۔ عمران خان نے یہ جملہ میرے سامنے اس وقت کہا جب ہارون الرشید اور میں ان کے ٹی وی انٹرویو سے پہلے ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو کر رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ اپنی دوسری شادی کی ناکامی کے پس منظر میں یہ جملہ انہوں نے خوشدلی سے دوستوں کی مجلس میں تو کہہ دیا ہے لیکن انٹرویو میں اس طرح کی بات نہیں کریں گے کیونکہ اس کے بعد ایک صحافی کو اگلا سوال خان صاحب کی تیسری شادی کا ہی کرنا چاہیے۔ جب انٹرویو کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو ان سے میرا پہلا سوال ہی تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جواب میں عمران خان نے بات کا آغاز ہی اسی نازک فقرے سے کیا۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے اگلا سوال یہی کرنا پڑا کہ ''آپ کی ذاتی زندگی میں امید تجربے پر تیسری بار کب غالب آ رہی ہے؟‘‘ انہوں نے مدد طلب نظروں سے ہارون الرشید صاحب کو دیکھا‘ اور ہارون صاحب نے بات کا رخ بدل دیا۔ بریک کے دوران میں نے خان صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ نے میرے سوال کا جواب تو دیا نہیں۔ انہو ں نے کچھ بوجھل سے لہجے میں کہا، 'یار اس کو چھوڑ
دیں، جب کچھ ہے ہی نہیں تو میں کیا بات کروں اس پر‘‘۔ ان کے کہنے پر میں نے اپنے سوال پر اصرار تو نہیں کیا‘ لیکن ان کے گھر میں ان کے ساتھ گزرے کچھ وقت اور اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بنی گالہ کی پہاڑی پر بنے اس وسیع، سادہ اور خوبصورت گھر میں عمران خان زیادہ دیر تک اکیلے نہیں رہیں گے۔ شادی کے بارے میں ان کے تجربات تلخ سہی لیکن ان کی امید قائم ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ تحریک انصاف کے اندر الیکشن کے نقصان دہ تجربے سے گزرنے کے بعد ایک بار پھر نئے الیکشن کے لیے پُرامید ہیں۔
عمران خان پوری دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اسی وقت تبدیلی کی نقیب بنے گی‘ جب چیئرمین سے لے کر یونین کونسل کی سطح تک اس کا ہر عہدیدار کارکنوں کے ووٹ لے کر آئے گا‘ اور منتخب عہدیدار مل کر ہی مناسب امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ الاٹ کریں گے۔ انہیں یقین ہے کہ اس بار ان کی پارٹی کا الیکشن کمیشن کچھ ایسا طریق کار وضع کر لے گا کہ پارٹی الیکشن میں کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہو کر ابھرے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت سے ان کا لگاؤ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن کروانے کے معاملے پر پارٹی کا کوئی بھی قابل ذکر پارٹی رہنما ان کے ساتھ نہیں ہے۔ پہلے پارٹی انتخابات، ان کے
نتائج، جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی طرف سے ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام، سرکردہ اراکین کے پارٹی سے اخراج کے تقاضے اور میڈیا پر ہونے والی جگ ہنسائی کی وجہ سے تحریک انصاف کے لوگ انٹرا پارٹی الیکشن سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ چند دن پہلے خان صاحب نے بنی گالہ میں اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو مشورے کے لیے مدعو کیا‘ تو انہوں نے خان صاحب کے پاس جانے سے پہلے خود ایک اجلاس منعقد کیا‘ جس میں فیصلہ کر لیا گیا کہ اپنے قائد کو پارٹی الیکشن سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اس اجلاس اور فیصلے کی خبر کسی طرح خان صاحب کو ان رہنماؤں کے بنی گالہ پہنچنے سے پہلے ہی مل گئی۔ اب جیسے ہی خان صاحب کی صدارت میں پارٹی کا اجلاس شروع ہوا‘ تو انہوں نے کسی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا کہ ''پارٹی میں الیکشن تو ہوں گے‘ لہٰذا اس پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں الیکشن کے طریق کار پر کوئی بات کرنا چاہے تو میں سنوں گا‘‘۔ ان کی ضد کے سامنے ان تمام لوگوں نے وقتی طور پر تو سر جھکا دیے‘ لیکن اجلاس سے باہر آ کر انہوں نے نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا‘ جس کے تحت پارٹی کے اندر بڑے پیمانے پر مفاہمت کو فروغ دیا جائے گا۔ سکیم کچھ اس طرح ہے کہ جب پارٹی میں عہدے دار بننے کے خواہش مند خواتین و حضرات کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے‘ تو پھر ان کے درمیان پنچایتی طریقِ کار کے مطابق اتفاق رائے سے عہدے تقسیم کر دیے جائیں گے۔ اس طرح جمہوریت کا بھرم بھی رہ جائے گا‘ اور پارٹی بھی ایک بے فائدہ الیکشن سے بچ جائے گی۔
عمران خان آہستہ آہستہ اپنی جماعت کو 2018ء کے انتخابات کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ 2013ء میں انہیں اپنے ارد گرد موجود ناتجربہ کار ہجوم کے ذریعے راستہ بنانا تھا، مگر اب ان کے پاس تجربہ کار سیاسی کارکنوں کی ایسی کھیپ موجود ہے جو انتخابی سیاست کو اپنے حریفوں سے بہتر انداز میں سمجھنے کی دعویدار ہے۔ 2013ء میں جن کارکنوں کو اپنے حلقوں کی حدود کا بھی علم نہیں تھا، آج ہر قومی و صوبائی حلقے میں برادریاں، اہم افراد اور مقامی دھڑے بندیوں کی تفصیل ان کی انگلیوں پر ہے۔ انہی کارکنوں کا دباؤ ہے کہ پارٹی میں ان لوگوں کا وزن کم ہو گیا ہے‘ جو یورپ اور امریکہ کی مثالیںدے دے کر قیادت سے الٹے سیدھے فیصلے کرا لیتے تھے۔ پارٹی پالیسی کی تشکیل سے لے کر آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم تک کے فیصلے کرنے کے لیے خان صاحب نے ایک متوازی نظام تشکیل دے لیا ہے‘ جس کے ذریعے زمینی حقائق کی صحیح تصویر ان تک نہ بھی پہنچے تو وہ کچھ بامعنی سوالات اٹھانے کے ضرور قابل ہو جائیں گے۔
تحریک انصاف میں بہت سے نئے لوگ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن خان صاحب کے گرد موجود لوگ ان باصلاحیت لوگوں کو ان تک پہنچنے کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ اس صورتحال پر ایک منجھے ہوئے کارکن کا تبصرہ تھا کہ ''خان صاحب اب کرکٹ کے کپتان نہیں ہیں‘ جس کے پاس صرف گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں، وہ سیاستدان ہیں جس کی ٹیم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے‘‘۔ پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کی کوریج کے لیے مجھے خود بھی صوبے کے ہر ضلعے میں جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کی سب سے کمزور کڑی اس کی ضلعی قیادت ہے‘ جسے خان صاحب نے کبھی فون کیا ہے نہ مشورے کے لیے بلایا ہے۔ ضلعی قیادت کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ہر جگہ چھوٹے چھوٹے گروپ بن چکے ہیں‘ جو ہر الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کی جان کا عذاب بن جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے برعکس پاکستان مسلم لیگ ن کی ضلعی قیادت کو اپنے قائدین سے ایسا کوئی شکوہ سننے میں نہیں آتا۔ اگر قیادت کے رویے کا یہ فرق عام انتخابات میں جیت یا ہار کا واحد پیمانہ سمجھا جائے تو مسلم لیگ ن کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہ فرق آج بھی قائم ہے۔