کچھ عرصہ پہلے کوئٹہ میں ایک سیمینار ہوا جس کی آخری نشست کے مہمانِ خصوصی جنرل راحیل شریف تھے۔ وہاں ضربِ عضب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک لڑیں گے جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا‘‘۔ یہ جملہ مکمل کرکے وہ ایک لمحے کے لیے رکے، حاضرین کی طرف دیکھا اور پھر اپنی گمبھیر آواز میں گویا ہوئے، ''یہ کہنا بہت آسا ن ہے اور کرنا بہت مشکل، جب میں یہ کہتا ہوں تو مجھے ان مشکلات کا بھی اندازہ ہے جو اس راستے میں ہیں‘‘۔ بظاہر یہ سادہ سا فقرہ تھا لیکن جب سپہ سالار کی زبان سے نکلا تو اس نے معنی کے کئی لباس پہن لیے۔ ہال میں موجود ہر شخص نے اس کی داد زور و شور سے تالیاں بجا کر دی۔ سیمینار کے بعد جب شرکا چائے پی رہے تھے تو وہاں بھی یہی ایک فقرہ تھا جو حاصل تقریر قرار پا کر موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔ سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ جنرل راحیل امید دلاتے ہیں، سیاستدانوں کی طرح ہوا میں قلعے بنا کر ان کی فتح کا اعلان نہیں کرتے پھرتے۔ یوں بھی جب ایسا شخص امید دلا رہا ہو جو ہر روز اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتا محاذوں پر نظر آئے تو اس کے معنویت ہما شما کے کہے سے بدرجہا بڑھ جاتی ہے۔ قول و فعل میں آہنگ ہو تو سادہ اطوار مجاہد کی تکبیر پر جبینوں میں سجدے تڑپنے لگتے ہیں، یہ آہنگ ہی نہ رہے تو لحنِ داؤدی میں دی ہوئی اذاں بھی شہر کے در و دیوار سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل راحیل کا معمول رہا ہے کہ انہوں نے جو کہا کرکے دکھایا بلکہ پہلے کرکے دکھایا پھر
اس کا اعلان کیا، اسی طرح کوہاٹ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے ملک میں کرپشن کے خلاف ہمہ گیر تحقیقات و احتساب کی حمایت کا جو اعلان کیا‘ ان کے گزشتہ معمول سے ہٹ کر نہیں ہے۔ انہوں نے جو دعویٰ کیا اس کی دلیل کے طور پر اگلے ہی روز کئی اعلیٰ فوجی افسروں کو کرپشن کے الزام میں برطرف بھی کیا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دفاعی اداروں میں اندرونی احتساب کی روایت بڑی طاقتور ہے، ہمارے ہاں فوج کے جنرل، بحریہ کے ایڈمرل اور فضائیہ کے ایئر مارشل تک اپنے کیے کی سزا پاتے رہے ہیں۔ مسئلہ وہاںپیدا ہوتا ہے جہاں کوئی سابق آرمی چیف کسی معاملے میں ملوث ہو۔ مثال کے طور پر سابق سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کے برادران نے جو کچھ کیا اس کی تفتیش شروع ہوئی لیکن جیسے ہی بات ڈی ایچ اے کے افسروں سے پوچھ تاچھ تک پہنچی، اس معاملے پر مصلحت کا قالین ڈال دیا گیا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کا معاملہ ہے، جیسے ہی ان پر دستور شکنی کا مقدمہ چلنا شروع ہوا سول ملٹری تعلقات میں بال آ گیا۔ درجن بھر فوجی افسروں کو سزا اور اس کی تشہیر بلاشبہ قابلِ تحسین ہے لیکن فوج کی خود احتسابی کا اصل امتحان اشفاق پرویز کیانی اور پرویز مشرف پر اٹھنے والے سوالات کی صورت میں ابھی باقی ہے۔
پاناما کاغذات میں وزیر اعظم کے بچوں کے نام آنے کے بعد احتساب ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کا ہدف بذات خود وزیر اعظم تھے۔ ایک سیاستدان ہونے کے ناتے وزیر اعظم جوابی سیاست بھی کر رہے تھے اور اپوزیشن کو کھلانے کے موڈ میں نظر آرہے تھے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں فوج کی طرف سے خود احتسابی کی ایک مثال سامنے آ جانے کے بعد وزیر اعظم کے لیے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی حربوں کے استعمال کی گنجائش ان کے لیے کم ہوتی جائے گی۔ اس لیے ان کے پاس اب سوائے اس کے کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا کہ وہ چیف جسٹس کو ایک تحقیقاتی کمیشن کے لیے خط لکھ دیں‘ اور اپنے بچوں کو اس کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیں۔ کمیشن کے قیام کے ساتھ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے قوانین کا خاتمہ کرے جو ٹیکس کے لیے پاکستانیوں کو رہائشی اور غیر رہائشی میں کے خانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اگر غیر رہائشی پاکستانیوں کو ٹیکس میں رعایت دینا ہی مقصود ہے تو ضرور دیں لیکن ان کو ٹیکس ریٹرن اور اثاثوں کی فہرست جمع کرانے کا پابند ضرور کریں۔
احتساب کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ مسلسل عمل ہے جسے کسی بھی ریاست میں ہروقت جاری رہنا چاہیے، لیکن احتساب کے نام پر ملک میں سیاسی اور کاروباری طبقے کو دھمکانے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ سیاستدان تو پھر بھی چند دن کے لیے یہ کھیل برداشت کر لیں گے لیکن کاروباری طبقہ احتساب کا دباؤ برداشت نہیں کر پائے گا۔ پاکستان جو پہلے بھی کبھی سرمایہ کاری کے لیے کارباری طبقے کی ترجیح نہیں رہا، احتساب کی نئی اننگ شروع ہونے کے بعد طویل عرصے کے لیے اپنے موجودہ ناقابلِ رشک مقام سے بھی گر جائے گا۔ اس کا نتیجہ ملک کے اندر پیداوار میں کمی اور بے روزگاری کی صورت میں نکلے گا۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ یہاں جارحانہ احتساب بھی جاری رہے اور کاروبار بھی چلتا رہے۔ اس کے لیے پاکستان کے اربابِ حل و عقد کو مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنا ہو گا کہ کسی طرح اپنی معیشیت کو احتساب کے نرغے سے بچا کر رکھنا ہے۔
پاکستان میں لفظِ احتساب سے جڑے سیاسی معنی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ نوے کی دہائی میں جتنی بھی سیاسی حکومتیں ختم ہوئیں ان کی رخصتی کے عنوان ہمیشہ کرپشن اور احتساب ہی رہے۔ کرپشن اور احتساب کا چکر ہمارے ملک میں اتنی بار چل چکا ہے کہ اب لوگوں کو اس پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ اس بار بھی دستاویزاتِ پاناما کے ظہور کے بعد کے واقعات کی ترتیب یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس معاملے میں فریق صرف وہی نہیں ہیں جو سامنے نظر آرہے ہیں۔ پھر تحریک انصاف کے قائد عمران خان نواز شریف پر نریندر مودی کے ساتھ تعلقات اور بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر ان کی خاموشی کی دہائی دیتے ہوئے اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی طاقت کے علاوہ کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے بل پر وہ اس حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔ اگر سلسلہ واقعات میں کوئی پراسرار ترتیب آئندہ بھی نظر آتی ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ پاکستان کو ایک مستحکم ملک بنانے کے خواب کی تعبیر مزید کچھ دور چلی گئی ہے۔
موسمِ احتساب کے بارے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر اس کا آغاز آج سے ہو گا یا ماضی کی کسی تاریخ سے کیا جائے گا۔ اگر اس کا آغاز پانامہ کاغذات سے کیا جائے تو ملک کی سب سے بڑی جماعت یعنی مسلم لیگ ن امتیازی سلوک کا شور مچا دے گی۔ اگر 2008ء سے کیا جائے گا تو پھر پیپلز پارٹی بھی شور مچانے میں شامل ہو جائے گی۔ 1985ء سے شروع کر لیں تو بھی یہی دو جماعتیں کسی نہ کسی طرح شکنجے میں آئیں گی۔ 1958ء سے شروع کرلیں تو یہ بات ان دونوں سیاسی جماعتوں کو بڑی اچھی لگے گی مگر اس طرح خود فوج کو بحیثیت ادارہ جواب دینا پڑیں گے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کے واحد شخص ہوں گے جو احتساب کی ہر ممکنہ صورت سے بچ نکلیں گے۔