"HAC" (space) message & send to 7575

ملا اختر منصور کون تھے؟

آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے جہاں افغان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے سخت پیغام دیا وہیں پردے کے پیچھے افغان طالبان کے ایک وفد کو بھی راولپنڈی بلا کر ان پر واضح کر دیا کہ ان کی صفوں میں کسی ایسے شخص کی موجودگی دوستی کے منافی سمجھی جائے گی جو کسی بھی طرح پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہو۔ طالبا ن نے یہ پیغام نہ صرف پوری طرح سمجھ لیا بلکہ یقین بھی دلایا کہ ان کے زیر نگیں علاقے میں اگر کوئی ایسا شخص پایا گیا تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو افغان اپنے دشمنوں سے کرتے ہیں۔ طالبان کا مثبت رویہ دیکھ کر اس ملاقات میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ایک افسر نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ذکر بھی کر ڈالا۔ اس پر طالبان وفد کے سینئر رکن نے کچھ تلخ لہجے میں جواب دیا کہ'' افغان طالبان پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہر تقاضا پورا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن نوکر کی طرح ہر بات ماننے کے لیے انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔اس تلخی کے باوجود طالبان نے وعدے کا پاس کرتے ہوئے اپنی صفوں میں فرقہ پرست دہشت گردوں کی تلاش شروع کردی اور انہیں چن چن کر خود سے الگ کرنا شروع کردیا۔طالبا ن نے جب اس کارروائی کا آغاز کیا تو خود ان کی صفوں میں بھی اضطراب پھیلنے لگا، کیونکہ پاکستا ن میں دہشت گردی کرنے والوں نے افغان طالبا ن کے ساتھ انفرادی دوستیاں اور رشتے داریاں بھی قائم کر رکھی تھیں۔ایک وقت میں تو معاملہ اتنا بڑھا 
کہ طالبان کے بعض ذمہ داروں کو یہ خیال بھی گزراکہ کہیں اس کے ردعمل میں ان کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے لگے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اپنی شور یٰ میں بھی کیا لیکن طالبان کے امیر ملا اختر منصور نے واضح کردیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے کبھی طالبان کے دوست نہیں ہوسکتے۔ ان کی تمام تر کوشش کے باوجود یہ خیال بڑی تیزی سے خدشہ اور پھر پچھلے سال کے وسط میں حقیقت بن گیا ۔ دہشت گردوں نے داعش کا تنظیمی نام اختیار کرکے طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں اورافغانستان کے چند وسطی اضلاع پر قبضہ بھی جما لیا۔جواب میں طالبان نے اپنی پوری توجہ داعش سے نمٹنے پر مرکوز کردی اور ان کے ٹھکانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تباہ کیے۔ اسی طرح کی ایک کارروائی کے دوران سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر بھی ان کے ہاتھ لگے جنہیں طالبان نے خود پاکستان تک پہنچایا۔ 
ملا اختر منصور نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو افغانستان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ یہ حکم بھی جاری کردیا کہ طالبا ن پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے درمیان پناہ لینے والے دہشت گردوں کو بھی تلا ش کریں۔ اس حکم کے نتیجے میں کئی ایسے دہشت گرد جو خود کو طالبان کہہ کر کوئٹہ یا پشاور میں پناہ حاصل کرلیتے تھے، بے دست و پا ہوکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہتھے چڑھ گئے ۔ کوئٹہ جو کبھی فرقہ پرستوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا ، امن کی طرف لوٹنے لگا۔افغانستان کے تناظر میں فرقہ پرستی کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ وہاں مسلکی اور نسلی منافرت ایک دوسرے میں اتنی پیوست ہیں کہ مذہبی شناخت رکھنے والے کسی بھی لیڈر کے لیے ان سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ملا عمر کی دورِ امارت میں افغان طالبان پر بھی متشدد سنّی ہونے کا رنگ غالب رہا۔ ملا اختر منصور نے بڑی دانائی کے ساتھ طالبان کی شناخت مذہبی تو رہنے دی لیکن فرقہ پرستی کی چھاپ بڑی حد تک مٹا ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دوبارہ حکومت حاصل کرنے سے پہلے انہیں ملک کے تمام طبقات کے لیے خود کو قابل قبول بھی بنانا چاہیے۔ دنیا کے بدلے ہوئے حالات کے پیشِ نظر ان کا خیال تھا کہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے آئندہ طالبان حکومت کی ترجمانی کا فریضہ کسی خاتون کو سونپا جائے ۔ اسی طرح انہوں نے اپنے دورِ امارت میں قاضی القضاۃ مولانا ہیبت اللہ اخوندزادہ (طالبان کے نئے امیر) کو ٹیلی ویژن اور اخبار میں تصویر کی اشاعت پر بھی رضامند کرنے کی کوشش کی۔مولا نااخوند زادہ نے جو اس معاملے میں بڑی متشدد رائے رکھتے تھے آخرکار ان کی رائے کی اصابت کے قائل ہوگئے اور انہوں نے سخت شرائط کے ساتھ اجازت دے دی۔ جب ملا ہیبت اللہ نے تصویر کی اجازت دی تو اختر منصور نے انہیں مزاحََا کہا کہ اب طالبان کا اپنا ٹی وی ہوگا اور شیخ الحدیث مولاناہیبت اللہ اس پر درسِ حدیث دیا کریں گے، اس پر ہیبت اللہ بولے ، ''ہاں اطاعتِ امیر میں یہ تو کرنا ہوگا لیکن عمامہ سر پر رکھنے کی بجائے چہرے پر لپیٹ لیا کروں گا‘‘۔ 
ملا اخترمنصور کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات سے گریزاں تھے، ایک بے معنی بات ہے۔ وہ افغان طالبان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے قطر میں طالبان کا دفتر کھول کر بات چیت کا عندیہ دیا۔ ہر جنگجو رہنما کی طرح ان کا خیال تھا کہ ان کے ملک پر قابض فوجیں پہلے انہیں افغانستان میں ایک ذمہ دار فریق تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھیوں کوآزادانہ آمدورفت کی سہولیات مہیا کریں تو مذاکرات کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں انہیں پاکستان سے یہ شکوہ پیدا ہوگیا تھا کہ راولپنڈی سے مذاکرات کے لیے ان پر جو دباؤ ڈالا جاتا ہے وہ دوستانہ نہیں بلکہ حاکمانہ ہے۔ انہی کی تحریک پر پچھلے دنوںطالبان کے قطر دفتر سے ایک وفد کراچی آیا تاکہ پاکستان کو مذاکرات میں حائل رکاوٹوں اور اپنی مجبوریوں سے آگاہ کرے۔ اس وفد نے جب متعلقہ لوگوں سے بات کی تو ہماری طرف سے کہا گیا کہ ہم افغان مہاجرین کو پاکستان میں رکھ کر آپ لوگوں کی مدد کررہے ہیں، اگر آپ اس مدد کا تسلسل چاہتے ہیں تو آپ کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ یہ دوٹوک بات سن کر وفد نے خاموشی سے اپنا بوریا بستر باندھا اور واپس قطر روانہ ہوگیا۔ اس وفد کی روانگی کے بعد طالبان کی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی تو پھر کچھ ایسے افغان شہریوں سے رابطہ کیا گیا جو بغرضِ علاج پاکستان میں مقیم تھے اور کسی نہ کسی طرح طالبان سے رابطے میں تھے۔ رابطے بحال کرنے کی کوششیں ابھی جاری تھیں کہ ملا اختر منصور پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے کا شکار ہوگئے۔ 
ملا اختر منصور ہمارے معیار کے مطابق قطعی طور پر روشن خیال نہیں تھے لیکن طالبان انہیں وہی سمجھتے تھے جو ہم نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک جنگ میدان ِ سیاست میں استعمال ہونے والا ایک حربہ تھی، فی نفسہ کوئی مقصد نہیں تھی۔وہ زندہ رہتے تو شاید بہتری کی کوئی صورت آئندہ چھ مہینے میں نکل آتی ، ان کی موت نے امن کی منزل محال نہیں کی تو دور ضرور کردی ہے۔افغانستان میں امن کے خواہشمندوں کو اب مولانا ہیبت اللہ سے واسطہ پڑے گاجن کے نزدیک جنگ جہاد کی وہ شکل ہے جو قیامت تک قائم رہے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں