پاک افغان سرحد کی مجموعی لمبائی دوہزار چار سو تین کلو میٹر ہے۔ ایک سو تئیس برس پہلے سر مورٹی مار ڈیورنڈ نامی ایک انگریز افسر کی کھینچی ہوئی یہ سرحدی لکیر پاکستان کی طرف چترال کے برف پوش پہاڑوں سے شروع ہوکر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہوتی ہوئی بلوچستان کے علاقے چاغی کے ریگزاروں تک چلی جاتی ہے۔اپنی تشکیل سے لے کر آج تک یہ سرحد دونوں ملکوں کی سیاسی حد بندی تو کرتی رہی ہے لیکن اسے کبھی بھی دونوں ملکوں کے رہنے والوں کی ناکہ بندی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ برطانیہ نے اتنی طویل سرحد کے ساتھ کہیں کہیں چوکیاں ضرور بنائیں مگر عام لوگوں کی آمد ورفت پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ پاکستان بننے کے بعد جب اس سرحد کے دونوں طرف مسلمان حکومتیں قائم ہوگئیں تو سرحدی چوکیوں کا تکلف بھی تقریباً ختم ہوگیا اور لوگ ایک طرف سے دوسری طرف آزادانہ آتے جاتے رہے۔ سرحدی پابندیاں اس لکیر پر اتنی نرم تھیں کہ بلوچستان میں کئی ایسے گاؤں آج بھی موجود ہیں جہاں کی مسجدوں میں نماز کے وقت امام پاکستان میں کھڑا ہوتا ہے اور مقتدی افغانستان میں۔ مرنے والے کا جنازہ پاکستان کی سرحدی حدود میں ہوتا ہے اور اس کی تدفین افغانستان میں، حتیٰ کہ ایک ہی گھر کا زنان خانہ افغانستان میں واقع ہے اور مردوں کے لیے حجرہ پاکستان میں بنایا گیا ہے۔ان سرحدی دیہات میں وہ بزرگ بھی رہتے ہیں جو پاکستانی ہیں لیکن افغان حکومت قومی مسائل پر ہونے والے ہر جرگے میں انہیں مدعو کرتی رہی ہے۔غرض یہ کہ اس سرحد کے دونوں طرف پچاس پچاس کلو میٹر تک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح گندھے ہوئے ہیں کہ سوا صدی کے دوران، برطانوی و روسی رقابت، افغانستان میں روسی جارحیت، طالبان حکومت ، امریکہ کا افغانستان پر حملہ اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی انہیں الگ نہیں کرسکی۔حیرت انگیز طور پر اس خطے میں صدیوں سے جاری جنگیں رشتے داریوں، خانقاہوں کی مشترک ارادتوں، مذہبی رشتوں اور تجارتی بندھنوں پر غالب نہیں آسکیں۔
افغانستان سے جرائم پیشہ افراد یا دہشت گردوں کی آمد کوئی نیا مسئلہ نہیں،یہ مسئلہ ہر اس قوت کا رہا ہے جس کی حکومت وادیٔ سندھ اور پنجاب پر رہی ہے۔ان دہشت گردوں کو روکنا گزشتہ کئی صدیوں سے ہر حکومت کا مسئلہ رہا ہے لیکن کبھی کسی افلاطون کے دماغ میں یہ نادر نسخہ نہیں آیا کہ مٹھی بھر شر پسندوں کو روکنے کے لیے صدیوں پرانی گزرگاہوں کو بند کر دیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انتظامی حربہ اس ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد کو گزشتہ ڈھائی ہزار سال میں بندکرنے کے لیے کارگر نہیں ہوسکا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھے شہ دماغوں کو اس بنیادی حقیقت کا بھی علم نہیں کہ افغانستان سے وارد ہونے والے شورش پسندوں کے سد باب کے لیے پچھلے پانچ سو برس میں صرف اور صرف انٹیلی جنس کا ہتھیار ہی کامیاب رہا ہے۔پاکستان میں چونکہ تاریخ، سیاسیات اور سماج جیسے الفاظ سرکاری پالیسی سازوں کے لیے ہمیشہ سے بے معنی رہے ہیں اس لیے پاک افغان سرحد کوبند کرنے کا ایک غیر حقیقی مقصد سامنے رکھ کر گزشتہ دس سال سے ملک و قوم کی توانائیاں ضائع کی جارہی ہیں۔ اس نازک معاملے پر ہماری پالیسی کا شاہکار یہ ہے کہ ہم نے اپنی سادگی میں انگور اڈا جیسی اہم پوسٹ ''تحفے ‘‘ میں افغانستان کو دینے کے بعد بھی طورخم پر اپنا ایک میجر شہید کرا لیا اور اس کے عوض ہمیں کیا ملا، اپنے ہی علاقے میں ایک دروازہ تعمیر کرنے کی آزادیـ اور پاک افغان تعلقات میں مزید تلخی!
پاک افغان سرحد بلوچستان میں جس جگہ ختم ہوتی ہے وہاں سے بحیرہ عرب کی طرف نو سو نو کلومیٹر طویل پاک ایران سرحد ہے۔ اس سرحد کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کئی گاؤں آباد ہیں جن کے باشندے اپنی بنیادی ضروریات کے لیے سرحد کے آرپار جاتے آتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی قبائل کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ ان کے لیے پاک ایران سرحد پر ایرانی حکومت کی سختی شاق گزرتی ہے۔ اس سرحد کے قریب وہی پاکستانی قصبہ ماش خیل ہے جہاں کچھ عرصہ قبل ایک شدید زلزلے نے سب کچھ تباہ کردیا تھا۔ دنیا ٹی وی کوئٹہ کے بیوروچیف عرفان سعید جب اس زلزلے کی کوریج کے لیے کوئٹہ سے چھتیس گھنٹے سفر کرکے وہا ں گئے اور لوگوں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں تو جواب ملا، ''ایران والوں سے بات کرکے سرحد کھلوا دو، ہماری زندگی سکون میں آجائے گی‘‘۔ اسی طرح گوادر ، تربت اور سومیانی تو اپنی اسی فیصد ضروریات کا سامان ایران سے منگواتے ہیں۔ اپنے لوگوں کی انہی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ِ پاکستان نے ایران سے بات چیت کرکے ایک ماحول بنایا کہ سرحد پر آمدو رفت کے لیے کچھ مزید راستے کھولے جائیں اور ان راستوں پر مشترکہ سرحدی بازار بنائے جائیں جہاں دونوں ملکوں کے بارڈر کے قریب رہنے والے لوگ اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے تجارت کر سکیں۔ خیال یہ تھا کہ ایران کے صدر پاکستا ن آئیں گے توہمارے وزیراعظم ان سے بات کرکے جلد از جلد یہ دونوں کام کروالیں گے۔ جب ایرانی صدر پاکستان آئے تو ساتھ ایرانی سرزمین پر کام کرنے والے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادو کا معاملہ سامنے آگیا۔ ملکی وقار کے نام پر اودھم مچانے والوں میں سے کسی کو یہ ہمت تو نہ ہوئی کہ وہ ایرانی صدر سے اس موضوع پر بات کرے مگرجواب دو ، حساب دو کے اس شور وغل میں پاک ایران تعلقات کو نقصان پہنچا۔ ایرانی جو پہلے ہی پاکستان کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں بھارت کے ساتھ مزید بغل گیر ہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ ہماری یہ سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔
پاکستان کا تیسرا ہمسایہ بھارت ہے جس کے ساتھ ہماری سرحد کی لمبائی تین ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ اپنے اس ہمسائے سے ہمیں کبھی بھی خیر کی توقع نہیں رہی اس لیے اس کے ساتھ ہمارا تعلق صرف دشمنی پر مبنی ہے۔ بھارت نے اپنے شہریوں کو بھوک ننگ دے کر جو فوج پالی ہے ، اس کا مقصد صرف پاکستان کو تباہ کرناہے ۔ دوسری طرف پاکستانیوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر دنیا کی بہترین فوج صرف اس لیے تیار کی ہے کہ وقت پڑنے پر بھارت کے دانت کھٹے کرسکے۔ ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں مرنے مارنے اور فوجی شکست و فتح کا رنگ اتنا چوکھا ہے کہ ابھی تک دونوں طرف کے سیاستدانوں کو کوئی ایسا موقع نہیں مل سکا جس سے فائدہ اٹھا کر وہ باہمی بقا اور پائیدار امن کی بنیاد یں رکھ سکیں۔ہماری یہ سرحد اتنی غیر محفوظ ہے کہ سیاچین کے برف زاروں ، تھر کے صحراؤں اور سمندر کے پانیوں میں ہمارے فوجی بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے ہیں۔
ہمارا چوتھا ہمسایہ چین ہے جس کے ساتھ ہماری پانچ سو تئیس کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ آج کی تاریخ میں یہ پاکستان کا واحد ہمسایہ ہے جس کے ساتھ ہمارا کوئی تنازع نہیں۔ پاکستان کی 6ہزار774 کلومیٹر طویل زمینی سرحدوں میں سے یہ واحد پانچ سو تئیس کلومیٹر ہیں جہاں سے ہمیں کسی دہشت گردی کا خطرہ ہے نہ جنگ کا۔ اسی سرحد سے پھوٹنے والی شاہراہ قراقرم اب پاک چین تجارتی راہداری کے روپ میں ڈھل کر گوادر تک پہنچے گی جہاں کی بندر گاہ سے چینی مصنوعات بحیرہ عرب سے ہوکر مشرقِ وسطیٰ اور یورپ تک پہنچیں گی۔ چین نے ہمارے ساتھ جب اس راہداری کا سمجھوتہ کیا تھا ہمیں ایک بات بھی سمجھائی تھی کہ اس راہداری کی تکمیل اور کامیابی تبھی ممکن ہے اگر ہم دنیا کے ساتھ تنازعات کو دفاعی عینک سے دیکھنے کی عادت چھوڑیں گے۔ چینیوں نے یہ بات اپنے مخصوص انداز میں پاکستان میں طاقت کے ہر مرکز کو سمجھانے کی کوشش کی ، مگر افسوس ہم نہیں سمجھے۔ ہم نے امریکہ ، افغانستان اور ایران کے معاملات بھی بھارت کے ساتھ نتھی کرکے انہیں فوجی رنگ دے دیا۔ بین الاقوامی سیاست اور سفارتکاری ہمارے لیے بے معنی الفاظ ہیں۔ کیا خارجہ پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کی طرف بندوقیں تانے رہیں اور وہ ہمیں نشانے پر رکھیں!