محمود خان اچکزئی کا شمار پاکستان کے ان چند سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کی عزت میں قومی اسمبلی کی ممبری کوئی بڑا اضافہ نہیں کرتی بلکہ ان کی اسمبلی میں موجودگی اسمبلی کی وقعت بڑھا دیتی ہے۔ان کے اندازِ فکر سے اختلاف کے ہزارہا پہلوہیں، سیاسی مفادات کے حوالے سے اعتراض کا اس سے بڑا نکتہ کیا ہوگا کہ ان کے خاندان کے اکثر بالغ لوگ کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے مخالفین ان پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ کوئٹہ میں شراب سازی کی ایک پرانی فیکٹری کی زمین پر انہوں نے حیلے بہانوں سے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ بات بھی صداقت سے خالی نہیں کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کا معاملہ انہی کی وجہ سے پیچیدہ ہوا ہے۔ یہ مہاجرین کی نہ صرف پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ انہیں خاموشی سے مقامی آبادی میں ضم کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اس اقدام پر سب سے زیادہ تنقید بلوچ کرتے ہیں جن کے خیال میں مہاجرین کی موجودگی کے باعث صوبے کی بلوچ آبادی اقلیت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ان کے دستِ راست اور بلوچستان کے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال کے بارے میں بھی خلقِ خدا بتاتی ہے کہ ہرنائی میں کوئلے کی کانوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر ایف سی آڑے آگئی، اس لیے ا ن کے لہجے میں تلخی کچھ سوا رہتی ہے ۔ اس طرح کے تمام الزامات اور بدگمانیوں کے باوجود محمود خان اچکزئی کو بلوچستان کے پشتون اپنا 'مشر‘ (بزرگ) کہتے ہیں۔ وہ الیکشن ہاریں یا جیتیں ، ان کی حیثیت میں کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔
کوئٹہ شہر محمود خان اچکزئی کے حلقے این اے 259میں پڑتا ہے۔ اس شہر میں ان کی قدرو قیمت کا اندازہ یوں لگالیں کہ دوہزار دو میں جب پاکستان کے پشتون علاقوں میں متحدہ مجلس عمل کا طوطی بول رہا تھا، اس وقت بھی وہ اس حلقے سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے تھے۔دوہزار آٹھ میں انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور دوہزار تیرہ میں ایک بار پھر وہ اسی آب و تاب سے منتخب ہوکراسلام آباد پہنچ گئے۔ کوئٹہ دھماکے کے اگلے دن جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کو سپیکر نے بولنے کی اجازت دی تو انہوں نے اٹھارہ منٹ انیس سیکنڈ کی تقریر میں جو کچھ کہا اس میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جو اس سے پہلے وہ مختلف مواقع پر زیادہ شدت کے ساتھ نہیں کہہ چکے۔یہ ضرور تھا کہ اب وہ جس دھماکے کو اپنا موضوع بنائے ہوئے تھے وہ ان کے حلقہء انتخاب میں ہوا تھا اس لیے دو تین بار تو یوں لگا کہ اپنے اعصاب پر مثالی قابو رکھنے والا یہ پشتون رہنما پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔ یہ جذباتی کیفیت ایک محمود خان اچکزئی ہی کی نہیں تھی بلکہ ملک بھر میں ہر آدمی انہیں خطوط پر سوچ رہا تھا۔اچکزئی کا رونا تو یہ بھی تھا کہ شہید ہونے والے انہی کے حلقے کے رہنے والے تھے اس لیے ان کا آنسو بہانا یا دہشت گردوں کے مقابلے پر متحدہوجانے کی بات کرنا ان کا فرض تھا۔
یہ درست ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کے ججوں کے چال چلن پر گفتگو نہیں کرسکتے۔ ہمارے دستور میںان دونوں اداروں کوتنقید سے تحفظ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تقدس برقرار رہے لیکن ان دفعات سے یہ مطلب نکالنا کہ ان پر سرے سے بات ہی نہ ہو، عقلِ سلیم اور دستور کی منشا ، دونوں کے خلاف ہے۔ خاص طور پر ایسے معاملات میں ان دونوں اداروں کا کردار زیرِ بحث ضرور آئے گا، جن کو سلجھانے کے لیے ملک میں دوسرے ادارے بھی موجود ہوں۔ فوج جب خاص طور پر ملک کے اندرونی معاملات میں سول مشینری کی مدد کررہی ہوگی تو اس پر ذرا احتیاط کے ساتھ وہی حکم لگے گا جو دیگر سول اداروں پر لگتا ہے کیونکہ اس صورت میں معاملے کے اہم ترین فریق ہمارے اپنے لوگ ہوتے ہیں جن کے مفادات کی نگرانی پارلیمنٹ کو کرنا ہوتی ہے۔ جب معاملہ اپنے لوگوں کے مفادات کا آئے گا تو پھر پارلیمنٹ میں مخالفانہ و موافقانہ باتیں ہوں گی، جن کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ خدا نخواستہ کوئی اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دشمن ہے۔ ان باتوں پر جزبز ہونے کی بجائے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قومی اسمبلی کے ہر ممبر نے اس ملک سے وفاداری اور اس کی سا لمیت کی حفاظت کاوہ حلف اٹھا رکھا ہے جو دستور کے چوتھے شیڈول میں در ج ہے۔ ایسا جامع حلف اٹھانے والے کے بارے میں بدگمانیوں سے گریز ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئٹہ میں امن و امان کا بنیادی کام وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی کمان میں آنے والی ایف سی کا ہے۔ایف سی ہی شہر بھر میں ناکے لگاتی ہے، آتے جاتے لوگوں کو چیک کرتی ہے اور خفیہ ایجنسیوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر آپریشن کرتی ہے۔ پاک فوج بلوچستان میں بالکل اسی طرح اپنی چھاؤنی میں رہتی ہے جیسے لاہور ، ملتان یا گوجرانوالہ میں ۔ ایف سی ، فوج سے الگ رینجرز کی طرح کی ایک فورس ہے جس کا سربراہ فوجی ہونے کے باوجود جی ایچ کیو کو جوابدہ نہیں ہوتا بلکہ وزارت داخلہ سے رابطے میں رہتا ہے، اس لیے اسے پیراملٹری فورس تو کہا جاسکتا ہے ، فوج ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ بنیادی طور پر ایک سول فورس ہونے کی وجہ سے ایف سی کو تنقیدکے خلاف وہ دستوری تحفظ بھی حاصل نہیں رہتا جو فوج کو حاصل ہے۔ اب جو کوئٹہ میں دھماکا ہوا اور ایف سی کی کارکردگی کے بارے میں محمود خان اچکزئی نے سوال اٹھایا تو چودھری نثار علی خان نے خود پر اٹھنے والے اس سوال کو بڑی ہنرمندی سے پہلے تو فوج کی طرف موڑ ا اور پھر خود ہی فوج کا دفاع کرنے کے لیے 'مذمت ‘ کا ہتھیار لے کر پارلیمنٹ میں اپنی فصاحت کے زور پرشور مچانے پہنچ گئے۔ اس شور میں ایف سی یا ایف سی کے کمانڈر انچیف یعنی وزیرداخلہ کا جو احتساب ہونا تھا وہ رک گیا اور محمود خان کی حب الوطنی مشکوک قرار پائی۔
ہمارے ہاں حب الوطنی کو کسوٹی پر کس کر اس کے جعلی یا ملاوٹ شدہ ہونے کا فیصلہ دینا کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ پاکستان بنتے ہی شروع ہوگیا تھا اور حب الوطنی کے نام پر ہم نے ملک کے ہر سرکشیدہ کو رینگنے پر مجبور کیا۔اگر کسی نے چھوٹے صوبے کے حقوق کی بات کی تو، مارشل لاء کی مخالفت کی تو سکیورٹی رسک، امن و امان کے لیے جاری آپریشن کی تفصیلات پوچھ لیں تو مجرموں کا ساتھی، اپنے ساتھ ظلم پر رودیا تو دشمن کا ایجنٹ اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ چودھری نثار کی وزارت کے تحت آنے والے کسی ادارے پر تنقیدبھی کردی توزبان بندی کی سزا۔ یہ کونسی جمہوریت ہے کہ پارلیمنٹ کا سپیکر جو اس کا نگہبان ہوتا ہے، اپنے ایک ممبر کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھیج رہا ہے کہ آپ تقریر نہ کریں کیونکہ پھر چودھری نثار بھی کریں گے۔ معذرت کے ساتھ یہ حرکت سپیکر سردار ایاز صادق کے شایانِ شان نہیں کہ کسی ممبر کو اس لیے نہ بولنے دیں کہ اپنی انا کے مارے کسی وزیر کی پیشانی پر شکن آجاتی ہے۔