اگر کوئی متحدہ قومی موومنٹ میں آنے والی تبدیلیوں کو الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد کا فوری ردّعمل قرار دیناچاہے تو اس کی مرضی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تبدیلیوں پرانیس مئی دوہزار تیرہ کے بعد سے غوروخوض جاری تھا۔ یہ وہی تاریخ ہے جب متحدہ کے مرکز نائن زیرو میں بلائے گئے ایک اجلاس میں الطاف حسین کی ٹیلیفونک ہدایت پر کارکنوں نے منتخب نمائندوں اور پارٹی کے ذمہ داروں کی ٹھکائی کر دی تھی۔ اس واقعے نے پارٹی ؛منتخب اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور رابطہ کمیٹی کے اراکین میںیہ احساس شدت سے جگا دیا کہ ان کی قیادت کراچی سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر زمینی حقائق کا درست اندازہ کرسکتی ہے نہ یہ سمجھ سکتی ہے کہ وہ کارکن جو پچیس برس پہلے جذباتی نوجوان تھے آج سفید بالوں کے ساتھ ملک کے قانون ساز اداروں کے رکن ہیں اور ملکی سیاست میں انہیںعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس احساس نے منتخب اراکین رابطہ کمیٹی کے تقریباََ تمام اعضاء کو ایک دوسرے کے قریب کردیا اور ان میں سے کچھ لوگ فاروق ستار کے پاس گئے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کریں۔ فاروق ستار نے حسبِ عادت اپنی طرف سے کچھ کرنے کا وعدہ کرلیا اور ان ناراض اراکین کو واپس بھیج دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ فاروق ستار فوری طور پر کچھ کریں گے، ایسا نہ ہو سکا تو تو ناراض لوگوں نے ایک ایک کرکے خود کو تنظیم سے الگ کرنا شروع کردیا۔ مصطفٰی کمال غائب ہوئے ، انیس قائم خانی، حماد صدیقی، بابر غوری، حیدرعباس رضوی نے پہلے خاموشی اختیار کی اور پھر پس منظر میں چلے گئے۔اسی دوران کراچی آپریشن شروع ہوگیا جس کی مخالفت اور موافقت پر پارٹی میں گہری تقسیم تھی۔ لند ن کی رائے یہ تھی اس کی ہر قیمت پر مزاحمت کی جائے ، کراچی کا خیال یہ تھا کہ اب اسے روکا نہیں جاسکتابلکہ کراچی رابطہ کمیٹی اور کچھ منتخب اراکین تو اس آپریشن کی شدو مد سے حمایت بھی کررہے تھے۔ آخرکار کراچی کی رائے غالب آئی اور آپریشن کی حمایت کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس فیصلے کو لندن پر کراچی کی پہلی فتح بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
آپریشن کا رخ جب ایم کیو ایم کی طرف مڑا تو صورتحال میں ڈرامائی تبدیلیاں آنے لگیں۔ رینجرز کی یکے بعد دیگرے جاری ہونے والی پریس ریلیزوں سے یہ محسوس ہونے لگا کہ آپریشن کا اصل ہدف صرف ایم کیو ایم ہے ۔چند ماہ کے اندر اندرایسا ماحول بن گیا کہ کراچی میں اردو بولنے والا ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت اثرورسوخ رکھتا تھا، ایم کیو ایم پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنانے لگا۔ ایک سابق فوجی افسرنے تو لوگوں سے مشورے شروع کردیے تھے کہ جب وہ ایم کیو ایم کے راہنما بن جائیں گے تو انہیں کراچی کے لیے کیا کیا کرنا ہے۔ اور تو اور سندھ پولیس کا ایک ڈی آئی جی اور ایک ایس ایس پی بھی اپنے ملنے جلنے والوں میں سے موزوں لوگ تلاش کررہے تھے جو متحدہ قومی موومنٹ کی راہنمائی کے قابل ہوں۔ پھر ایک دھماکہ خیز اتفاق یہ ہوا کہ سید مصطفی کمال نئی پارٹی کے ساتھ کراچی وارد ہوئے اور چند دن بعد متحدہ کے مرکز پر رینجرز نے
چھاپہ مار ا۔ اس ماحول اور ان دو واقعات نے پارٹی کے بہت سے کارکنوں کے اعصاب توڑ دیے۔ کچھ جذباتی لوگوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف انتہائی اقدام کا بھی سوچا مگر کراچی کی رابطہ کمیٹی کسی صورت بھی سیاسی جدوجہدکے سوال کچھ کرنے کے خلاف رہی۔
ان واقعات کے ساتھ ساتھ لندن میں عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کے الزامات نے متحدہ کے لندن میں قائدین کو پریشان کردیا۔ اس پریشانی اور ذہنی دباؤ کے اثرات ان کی تقاریر میں بھی نظر آنے لگے۔ وہاں صورت یہ بن گئی کہ ندیم نصرت ماحول کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے اور پاکستانی سیاست سے نابلد محمد انور ماضی کی تلخیوں کو اجاگر کرکے حال میں تلخی بڑھاتے رہتے۔ لندن کی رابطہ کمیٹی میں اس اختلاف نے ندیم نصرت کو تجزیے کی حد تک کراچی کی رابطہ کمیٹی کے قریب کردیا۔لندن کے چائے خانوں ، پارکوں اور کچھ دوستوں کے گھروں میں ہونے والی ملاقاتیں بامعنی ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں جو اصول طے ہوا وہ یہ تھا کہ اب کراچی کی رابطہ کمیٹی کے پاس پارٹی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ یہ اصول طے تو ہوگیا لیکن جب بھی اس پر عمل کرنے کی نوبت آتی تو مخالف گروپ ایسے حالات پیدا کردیتا کہ بات رک جاتی۔ پچھلی سردیوں میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس سال جون یا جولائی میں کراچی کی رابطہ کمیٹی کو مکمل آزادی دے دی جائے گی مگر ملکی سیاست میں پاناما پیپرز کا معاملہ اتنی شدت سے ابھرا کہ اس کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔تاہم حالات اور الطاف حسین کی صحت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اختیار فاروق ستار سمیت کراچی کے کچھ لوگوں کو دے دیا گیا کہ وہ کسی بحران میں اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہیں تو کر گزریںاور اس بارے میں مناسب ہدایات بھی زبانی طور پر نیچے تک پہنچا دی گئی تھیں۔
اگرچہ الطاف حسین اس منصوبے کے بنیادی خدوخال سے آگاہ تھے اور کسی حد تک متفق بھی تھے مگر وہ لندن کی رابطہ کمیٹی کا کردار کم کرنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہورہے تھے۔ عین ممکن ہے کہ ان کی تقریروں میں در آنے والی تلخی کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان کی اپنی بنائی ہوئی پارٹی میں ان کے کردار کو کم کرنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن وہ اپنی خرابیء صحت اور ذہنی دباؤ کے باوجود یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ جس کراچی کو انہوں نے چوبیس برس پہلے چھوڑا تھا اب بد ل رہا ہے۔ کراچی کی رابطہ کمیٹی نے تقریباً ہر سطح پر لوگوں کو اعتماد میں لے لیا تھا اور منصوبہ عمل میں آنے کے لیے تیار تھا۔ حالات نارمل رہتے تو کراچی کے مئیر کے الیکشن کے بعد بالکل وہی ہوتا جیسے چند دن پہلے ہوا مگر الطاف حسین کی اپنے بھوک ہڑتالی کیمپ سے کیے گئے خطاب نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ وہ منصوبہ جس پر تقریباتی انداز میں عمل درآمد ہوتا اس پر ناگہانی طور چند دن پہلے عمل کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم کے ذمہ داروں کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ملک کی ایک بڑی جماعت میں تبدیلی کا پیچیدہ مسٗلہ جمہوریت کے راستے پر چلے ہوئے طے کرلیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ میں آنے والی تبدیلیاں یہ ثابت کررہی ہیں کہ اس جماعت کے اندر جمہوری انداز فکر اتنا راسخ ہے کہ فردواحد خواہ وہ بانی و قائد ہی کیوں نہ ہو ہر فیصلہ تنہا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی یہ دوسری جماعت ہے جس نے اپنی قیادت و فیصلہ سازی کے طریق کار میں یہ بنیادی تبدیلیاں کردیں اور اس ہموار انداز میں کیں کہ ان تمام لوگوں کو انگلیاں دانتوںمیں دابنا پڑگئیں جو اس جماعت کے ٹکڑوں میں بٹ جانے کے فتوے دیا کرتے تھے۔ مافیا ااور نجانے کیا کیا کچھ کہلانے والی جماعت نے خالصتََا جمہوری طریقے سے اپنے بانی قائد کو فیصلہ سازی سے ہٹادیا اور اختیار ان لوگوں کو دے دیا جن میں سے کوئی ایک بانی قائد الطاف حسین کا خونی یا نسبتی رشتہ دار نہیں ہے۔ پاکستان میںیہ مثال قائم کرنے والی پہلی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی تھی کہ اس کے یکے بعد دیگرے آنے والے پانچ امراء میں سے کوئی بھی آپس میں رشتہ دار نہیں اور اب متحدہ قومی موومنٹ بھی اسی راستے پر چل پڑی ہے۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے بانی قائدین اردو بولنے والے مہاجر تھے؟