"HAC" (space) message & send to 7575

پنجاب حکومت اور رینجرز

پولیس کے ایلیٹ ٹریننگ سکول کے پنڈال میں پنجاب بھر کے اعلیٰ پولیس افسران بیٹھے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا انتظار کررہے تھے۔ چہروں پر تناؤ اتنا تھا کہ چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ ایک پولیس افسر سے ماحول پر چھائی تلخی کی وجہ جاننا چاہی تھی تو وہ چٹخ کر بولا ، ''ابھی صاحب بہادر تشریف لائیں گے اور میڈیا اور ماتحتوں کے سامنے ہماری بے عزتی کی جائے گی اور ہم کچھ نہیں کہہ پائیں گے‘‘۔ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوئیں اورصاحب بہادر یعنی وزیراعلیٰ آگئے ۔صوبے کے آئی جی مشتاق سکھیرا نے کشیدہ اعصاب کے ساتھ خوش آمدید کے کچھ کلمات کہے اور یہ بھی بتا دیا کہ پولیس کا یہ اجتماع وزیراعلیٰ کی فرمائش پر منعقد کیا جارہا ہے۔ فرمائشی پروگرام کا سن کر پولیس والوں کے چہرے کچھ زیادہ کھنچ گئے ، بیشتر نے گہری سانس لے کر گویا تلخ باتیں سننے کا حوصلہ پکڑ لیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر شروع کی تو چند منٹ میں ہی ماحول خوشگوار ہوگیا کیونکہ شہباز شریف تلخ باتیں کرنے کی بجائے پولیس کے افسروں اور جوانوں کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ اپنا زور بیان صرف ایک نکتے پر صرف کررہے تھے کہ ، ''جس پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور صوبے میں امن و امان کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا اس کے لیے یہ مشکل نہیں کہ دہشت گردوں کے سہولت کار اگر کہیں صوبے میں موجود ہیں تو ان کو پکڑ کر بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردے‘‘۔ تقریر ختم ہوئی تو دیکھا کہ تمام پولیس افسروں کے چہرے بشاشت سے کھلے پڑ رہے ہیں۔ ایک سینئر افسر سے اس سرخوشی کی وجہ پوچھی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے ، ''وزیراعلیٰ نے آج کی تقریر میں یہ 
واضح کردیا ہے کہ پنجاب میں رینجرز تعینات نہیں ہوں گے‘‘۔ میں ایک لمحے کو حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ وزیراعلیٰ نے تو اپنی تقریر میں اس موضوع پر سرے سے کچھ کہا ہی نہیں۔ میں نے یہ حیرت ایک سوال کی صورت میں اس افسر کے سامنے رکھی تو فرمانے لگے ، ''آج ہمیں جھاڑ جھپاڑ کے علاوہ دواعلانات کی توقع تھی۔ جھاڑ جھپاڑ ہوئی نہیں، پولیس کے جوانوں کے سکیل بڑھانے سے متعلق اعلان ہوگیااور صوبے میں رینجرز کی تعیناتی کے متعلق اعلان وزیراعلیٰ نے خاموش رہ کرکر دیا‘‘۔ یہ خوش گمانی ایک انہی صاحب تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس اجتماع میں جس کسی سے بھی بات ہوئی اسے پنجاب میں رینجرز کی مستقل بنیادوں پر تعیناتی کے خلاف ہی پایا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پولیس کے اندر اس بات پر اجماع ہے کہ صوبے میں رینجرز کو کسی بھی قسم کا اختیار دینا ایک فاش غلطی ہوگی جس کا خمیازہ پولیس کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ 
پنجاب پولیس کے علاوہ خود صوبائی حکومت میںبھی ایسا کوئی عنصر موجود نہیں جو پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کی حمایت کرتا ہو۔ اس مخالفت کی دلیل سندھ میں رینجرز کی تعیناتی کا تجربہ ہے جس کے نتیجے میں پولیس تباہ ہوگئی اور سیاسی حکومت چور قرار پائی۔ اس رائے میں بعض وزراء تو اتنے متشدد ہیں کہ جب رینجرز کی مدد حاصل کرنے کے لیے سمری کی تیاری کے لیے جو اجلاس بلایا گیا توانہوں نے اس میں شرکت سے بھی انکار کردیا۔ اس مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں امن وامان کی صوبائی کمیٹی نے جو سمری تیار کی اس میںصرف سول انتظامیہ کے ماتحت محض رینجرز کی افرادی قوت کے وقتاً فوقتاً استعمال کی بات کی گئی۔ ایک معاون فورس کے طور پر رینجرز کے استعمال کی مخالفت پولیس کی صفوں سے جو آئی سو آئی ، اس پر رینجرز کے اعلیٰ حکام نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیابلکہ نرم لفظوں میں انکار ہی کردیا کہ ان شرائط پر رینجرز کی تعیناتی انہیں گوارا نہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کوشش کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف سے اپنی دوستی کا فائدہ اٹھا کر رینجرز کے اطمینان کے مطابق کوئی حل نکال لیں، لیکن شہباز شریف پنجاب کے طاقتور وزیراعلٰی ہونے کے باوجود یہ بھاری پتھر وزیراعظم کی رضامندی کے بغیر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پنجاب میں رینجرزکی تعیناتی کی تجویز بنیادی طور پردو سال پہلے پاک فوج کی طرف سے وفاقی حکومت کو آئی تھی۔ تجویز دینے والوں کو اس کی بلا تردد قبولیت کا اتنایقین تھا کہ پنجاب رینجرز کے منتخب دستوں کی شہری اہداف پر کارروائی کرنے کی تربیت بھی شروع کردی گئی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس تجویز کو دفتری کارروائی میں ڈال کر پہلے تو ملتوی کیا اور پھر تیزی سے پنجاب پولیس میں انسداد دہشت گردی کا شعبہ مضبوط بنایا، تفتیش کو بہتر بنانے کے لیے ہزاروں نئے لوگ بھرتی کیے، پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے ایک نئی فورس بنانا شروع کردی ، پولیس کی تنخواہیں بہتر بنائیں اور ترکی کو ماڈل بنا کرانہی خطوط پر کام شروع کردیا۔ یہ تمام کام اگرچہ حکومت پنجاب نے کیے لیکن اس کی نگرانی وزیراعظم نے اپنے پاس رکھی۔ وزیراعظم کے کہنے پر ہی پنجاب حکومت نے پولیس کی تربیت کا کام پاک فوج کے سپرد کردیا تاکہ فوج کو براہِ راست پنجاب پولیس کی کارکردگی کا علم ہو۔ ان سارے کاموں کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ پنجاب پولیس پہلے سے کہیں زیادہ متحر ک ہو گئی اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد میں جب وزارت داخلہ پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے فیوض و برکات پر بات کرتی ہے تو اسے پولیس کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے بارے میں معلومات دے کر پوچھا جاتا ہے کہ کیا رینجرز اس سے زیادہ کچھ کرسکتے ہیں؟
پاکستا ن کے مخصوص حالات میں یہ تو ممکن نہیں کہ فوج کی طرف سے آنے والی کسی بھی تجویز کو نظر انداز کردیا جائے لیکن ایک سیاسی حکومت کے لیے یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی تجویز کو حالات کے مطابق ڈھالنے کے نام پر اس کو بے اثر بنا دے سو یہی کام رینجرز والے قضیے میں وفاقی حکومت کرگزری ہے۔ اب حکومتی دعوے کے مطابق پنجاب پولیس اتنی ہی باصلاحیت ہے جتنا اسے جرائم کی بیخ کنی اور انسداد دہشت گردی کے لیے ہونا چاہیے۔ اپنے دعوے پر حکومت کو اتنا یقین ہے کہ وفاقی سطح پر الیکٹرونک میڈیا کے لیے ذریعے پولیس کی صلاحیتوں کے بارے میں بالکل فوج کے انداز میں ہی اشتہاری مہم کا بھی آغاز ہوچکا ہے جس میں پولیس کے جوانوں کو دہشت گردوں کی سرکوبی اور عوام کی مدد کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی تبع میں حکومت پنجاب بھی امن و امان کے بارے میں اپنی مہم چلا رہی ہے جسے 'پرامن ، پرامید پنجاب ‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں نیشنل ایکشن پلان کو بنیاد بنا کر صوبے میں ہونے والے اقدامات بتائے جارہے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ خیال بھی جڑ پکڑ رہا ہے کہ بھارت نے اپنی سات ریاستوں میں فوج یا اس سے متعلق اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف صف آراء کیا تو وہاں سول ڈھانچہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بحال نہ ہوسکا، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رینجرز کی مدد حاصل کی گئی تو سول حکومت کو ضعف پہنچا، سوات کے فوجی آپریشن کے بعد اب تک وہاں معاملات نارمل انداز میں نہیں چلائے جاسکے، بلوچستان میں ایف سی نے مسائل تو بڑی حد تک حل کرلیے لیکن اب وہاں ایسا کوئی سول ادارہ اس قابل نہیں رہا جو اس کی جگہ لے سکے، لہذا مجبوری میں ایف سی بلوچستان کی افرادی قوت میں معتدبہ اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں سول حکومت کا کردار اتنا ہی بچا ہے جتنا کالم نویسوں کا دن رات کے آنے جانے میں ہے۔اس منطق کی رو سے پاکستان مسلم لیگ ن نے فیصلہ کررکھا ہے کہ اپنی سیاسی طاقت کے مرکز یعنی پنجاب میں کسی بھی فوجی ادارے کو کوئی بڑا کردار نہیں سونپا جائے گا۔ ایک سیاسی جماعت کتنی دیر تک اپنے اس فیصلے پر قائم رہتی ہے یہ سمجھنے کے لیے دس بارہ ہفتوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں