پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب کی میزبانی میں پاکستان اور بھارت سے آئے ہوئے سیاستدان ، صحافی اور دانشور دبئی کے ایک ہوٹل میں اس لیے اکٹھے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے اسباب تلاش کرکے حالات ٹھیک کرنے کی کوئی راہ سوچیں۔ بات شروع ہوئی تو سوال اٹھا کہ پاک بھارت تعلقات پر دونوں ملکوں کے عوام کیا سوچتے ہیں تو اس پر مسلم لیگ ن کے طلال چودھری بھارتی وفد کو مخاطب کرکے بولے،''میں دوہزار دو سے سیاست میں ہوں اور دوبار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوچکا ہوں لیکن کسی ایک الیکشن میں مجھ سے میرے ووٹر نے یہ نہیں پوچھا کہ بھارت سے جنگ یا امن کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو، جبکہ ہندوستان میںبلدیاتی الیکشن کے امیدواروں سے لے کر نریندر مودی تک ہر سیاستدان پاکستا ن کو گالی دے کر حکومت میں آنے کی کوشش کرتا ہے، اب آپ بتائیے کہ جنوبی ایشیا کے عوام کو کون دشمنی کے راستے پر ڈال رہا ہے، بھارت یا پاکستان؟‘‘۔ یہ سوال سن کر بھارت سے آئے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو گویا چپ لگ گئی۔ پھر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے رکن مراد راس نے بھی طلال چودھری کی تائید کی تو یہ چپ اور بھی گہری ہوگئی۔ پاکستانی وفد کے ارکان بھارتی وفد کے قائد مانی شنکر آئیر(سابق سفارتکار اور بھارت کے سابق مرکزی وزیر) کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اب وہ اس سوال کا جواب خود دیں گے یا اپنے وفد میں سے کسی کو کہیں گے۔ تھوڑے توقف کے بعد انہوں نے عام آدمی پارٹی کے ایک نوجوان رکنِ اسمبلی سے جواب دینے کو کہا تو وہ بولا، ''میں اعتراف کرتا ہو ں کہ
ہندوستان کے ہر شخص کے دل و دماغ میں یہ خیال بٹھا دیا گیا ہے کہ روئے زمین پر ان کا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے، میں بھی اسی خیال کے ساتھ بڑا ہوا ہوں ‘‘۔ اس نوجوان کے بعد راجستھان اسمبلی کے ایک رکن بولے، '' ہم نے پاکستان کو بھارت کا دشمن نمبر ایک بنا کر پیش کیا لیکن عجیب بات ہے کہ میرے لوگوں نے جب یہ سنا کہ میں ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں پاکستان کے لوگ بھی آئیں گے تو انہوں نے مجھے امن کی کوشش کا حصہ بننے کی مبارک دی‘‘۔ اس پر مانی شنکر آئیر نے گرہ لگائی کہ پاکستان کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ بھارت کا ٹھیکہ صرف مودی نے لے رکھا ہے بلکہ وہاں ہم جیسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ امن کی خاطر آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔ میرے ساتھ بیٹھے بھارتی صحافی جیوتی کمل نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہامیں بھی مانی شنکر آئیر کے ساتھ ہوں۔
مانی شنکر آئیر پہلے شخص نہیں جوپاک بھارت امن کے لیے بھارت کو ایک قدم آگے بڑھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ان سے بہت پہلے گاندھی نے انیس سو سینتالیس میں بھارتی حکومت کو مرن برت کی دھمکی دے کر مجبور کردیا تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کو اس کے اثاثے منتقل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے مگر دونوں ملکوں کے درمیان امن کے اس پرچارک کو صرف تین ماہ بعد قتل کردیا گیا۔ اس طرح پاکستان میں قائد اعظم نے پاک بھارت تعلقات کو کینیڈا اور امریکہ کے
تعلقات سے تشبیہ دے کر واضح کردیا کہ ان کے ذہن میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا کیا نقشہ ہے۔ قائد اعظم کی اسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے لیاقت علی خان نے نئی دہلی جا کر بھارتی وزیراعظم کے ساتھ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے تحفظ کا معاہدہ کیا جسے لیاقت نہرو پیکٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے مہاجرین کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ جب چاہیں پاکستان یا بھارت جا کر اپنی جائیدادوںکا انتظام کرسکیں۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان میں اور پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد ہندوستان میں حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے درپے ہوگئے۔ کچھ غلطیاں ہماری طرف سے بھی ہوئیں مگر بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہندو انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی کہ وہ پاکستان جس کے لیے بھارتیو ں کے باپو یعنی گاندھی جی نے مرن برت رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا، دشمنِ اول قرار پا گیا۔ سرکاری طور پر میڈیا میں کئی دہائیوں تک پراپیگنڈا کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھارت کے حکمران اپنے عوام کی ترقی کے لیے نہیں پاکستان سے لڑنے کے لیے ووٹ لیتے ہیں۔ مستقبل بہتر بنانے کی بجائے ماضی درست کرنے کے شوق میں بھارت نے اپنے اندر اتنے تضادات پیدا کرلیے ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اسے نجانے کتنے عشرے لگیں گے، ایک آدھ مودی مزید آگیا تو بات شاید صدیوں پر جا پڑے۔
پاکستان میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو حال کے حقائق سے نظریں چرا کر ماضی میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ عوام میں تو مقبول نہیں ہوسکے لیکن پالیسی ساز اداروں میں ان کا اثرورسوخ ان کی عوامی طاقت سے بہرحال زیادہ ہے۔ یہ لوگ ''جنوبی ایشیا کی چودھراہٹ‘‘ جیسی بے معنی اصطلاحیں استعمال کرکے عام آدمی کو عدمِ تحفظ میں مبتلا کرکے دراصل اپنی چودھراہٹ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستانی عوام ان لوگوں کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، اسی لیے ماضی میں رہنے والے ان لوگوں کو کبھی ووٹ دے کر اتنا طاقتور نہیں کیا کہ وہ ملک کو بلاوجہ کی جنگوں میں جھونک دیں۔ صرف مارشل لاء کے دور میں ان لوگوں کی کچھ بن آتی ہے جبکہ جمہوری دور میں میڈیا پر بیٹھ کر یہ سوائے شور مچانے کے کچھ نہیں کرسکتے۔مقامِ شکر ہے کہ اب ان کا شوربھی اپنی اہمیت کھوتا چلا جارہا ہے اور ہم ماضی سے نکل کر پاک چین راہداری پر چلتے ہوئے مستقبل میں داخل ہورہے ہیں۔
پاک چین راہداری نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں وہ بنیادی تبدیلی کرنے کا موقع دیا ہے ، جس کی تلاش میں ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے بھٹک رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوتے ہوئے ہماری خارجہ پالیسی میں جنوبی ایشیا بنیادی اہمیت رکھتا تھا اور دنیا سے ہمارے معاملات بھی اسی محور کے گرد گھومتے تھے۔ انیس سو اکہتر کے بعد جنوبی ایشیا سے ہمارا تعلق اس لیے ہے کہ ہم خود کو اس کا حصہ تصور کرتے ہیں ورنہ دنیا ہمیں کبھی مشرقِ وسطٰی کے ساتھ جوڑکر دیکھتی تھی اور کبھی وسطی ایشیا کے ساتھ۔ زمینی حقائق بدل جانے کے باوجود ہم اسی پالیسی پر گامزن رہے جو پرانے جغرافیے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وسطی ایشیا میں سیاسی جغرافیہ مکمل طور پر بدل گیا تو ہمیں کچھ احساس ہوا مگر نیم دلی سے تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ پرانی پالیسی ہی چلتی رہی۔ دنیا میں پاکستان کے دوستوں نے وقتََا فوقتََا ہمیں نیک و بد سمجھانے کی کوشش کی مگر ہم اسے سازش قرار دے کر اپنی ہٹ پر اڑے رہے۔نئے حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی سزا ہمیں یہ ملی کہ وہ بھارت جو پہلے صرف ہمارے مشرق میں تھا ، افغانستان اور ایران کے ذریعے ہمارے مغرب میں بھی آن پہنچا۔اب پاک چین راہداری میں ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں کی دلچسپی نے ایک بار پھر وہ ماحول بنا دیا ہے جس میں ہم اپنی خارجہ پالیسی میں چند ایک تبدیلیاں کرکے قازقستان سے لے کر سعودی عرب تک نئے مفادات پیدا بھی کرسکتے ہیں اور ان کا تحفظ بھی۔اگرچہ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی بھارت ہمارا مقابلہ کرے گا لیکن یہاں ہماری تھوڑی سی تگ و دو اسے خاک چاٹنے پر مجبور کردے گی۔ ہم اس علاقے میں جتنے مضبوط ہوں گے ، اتنے ہی طاقتور ہوں گے اور ایک طاقتور پاکستان کی موجودگی میں کشمیریوں کو زیادہ عرصہ غلام نہیں رکھا جاسکتا۔