"HAC" (space) message & send to 7575

ستارہ بائی کانپوروالی اور نورین لغاری

چند دن پہلے میں اپنے وقت پر دنیا ٹی وی کے دفتر میں داخل ہورہا تھا اور اجمل جامی کان سے موبائل فون لگائے کہیں جانے کے لیے باہر نکل رہا تھا۔میں نے چلتے چلتے سلام کیا تو اس نے جواب دینے سے پہلے فون پر اپنے مخاطب (غالباََ اپنے پروڈیوسر خرم اقبال) کو کہا ''ہاں یار وہ گانا بھی آج پروگرام میں چلے گا‘‘۔ گانے کی بات سن کر میں چونکا کہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے پروگرام میں گانے کا کیا کام۔ میں نے کچھ تفصیل چاہی تو جامی نے جلدی سے اتنا کہا کہ شامی صاحب نے ایک ملّی نغمہ بھیجا ہے جو آج کے پروگرام میں چلے گا ۔ وہ عجلت میں تھا اس لیے میں نے یہ سوچ کر اسے مزید نہیں کریدا کہ شام کو 'نقطہء نظر‘ میں دیکھ لوں گا۔ شامی صاحب کا پروگرام دیکھنا میرے معمولات کا ایک لازمی حصہ ہے لہٰذا اس شام بھی میں ٹھیک سات بجے ٹی وی کے سامنے ڈٹ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھوں تو سہی وہ کونسا ملّی نغمہ ہے جسے شامی صاحب نے خصوصی طور پر اپنے پروگرام میں چلوانے کی ہدایت کی۔آخرکار شامی صاحب نے پروگرام میں بتایا کہ آج وہ ایک ملّی نغمہ سنوانا چاہتے ہیں جو انیس سو چھیالیس میں ستارہ بائی کانپور والی نے گایا تھا۔ نغمے کے بول تھے؛ ؎
آئے جسے ہو دیکھنا جنت کا نظارہ 
فردوس کا نقشہ ہے پاکستان ہمارا
تکبیر کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے 
لہرائے گا پھر پرچمِ اسلام ہمارا 
اسلام نے یہ طرز عمل ہم کو سکھایا
غیروں کو بھی اپناتا ہے اخلاص ہمارا
منظور تھا قدرت کو بنیں قائد اعظم 
بگڑی ہوئی ہربات کو جناح نے سنوارا
تھوڑی سی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نغمہ اس دور میں ملکہ ٔ ترنم نورجہاں گے گائے ہوئے ایک مقبول فلمی گیت کی طرز پر بنایا گیا تھا اس لیے نورجہاں کے گائے ہوئے نغمے کے ساتھ ساتھ ستارہ بائی کانپور والی کا یہ گیت بھی خاص طور پر مسلمانوں میں بڑی تیزی سے مقبول ہوگیا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ستارہ بائی کے گائے ہوئے گیت کا شاعر کون تھا اورساز و آواز کا بندوبست کرنے کے لیے رقم کس نے خرچ کی تھی لیکن یہ طے ہے کہ اس نغمے نے پاکستان بننے سے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ جنت نشان پاکستان کی فضا نعرۂ تکبیر سے گونجے گی اور اسلام کے سکھائے ہوئے ہوئے طرز ِ عمل کی روشنی میں غیر بھی اپنا لیے جائیںگے۔ ستارہ بائی کا یہ نغمہ سن کر یاد آیا کہ اس گیت کی ریکارڈنگ سے دو سال پہلے انیس سو چوالیس میں اصغر سودائی کا تخلیق کرد''پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ ‘ ‘کا نعرہ بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے دل کی آواز بن چکا تھا اور ان سے بھی پہلے تئیس مارچ انیس سو چالیس کومیاں بشیر احمد نے قرارداد پاکستان کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والے جلسے میں اپنی نظم سنائی تھی جس کا ایک شعر تھا ؎
اے قوم اپنے قائد اعظم کی قدر کر
اسلام کا نشاں ہے محمد علی جناح
میاں بشیر احمد کی نظم ، اصغر سودائی کے نعرے اور ستارہ بائی کے نغمے میں اسلام بنیادی خیال طور پر پیش کیا گیا ہے گویا اس وقت پاکستان کی قرارد اد منظور کرنے والوں سے لے کر انیس سو چھیالیس میں پاکستان کے لیے ووٹ دینے والوں اور پاکستان آنے والے لٹے پٹے مہاجروں تک کے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا کہ پاکستان کی صورت میں وہ دراصل ایک اسلامی فلاحی مملکت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔نئے ملک کے مالکوں یعنی عوام کا یہ فیصلہ تحریری شکل میں آیا تو قراردادِ مقاصد کہلایا اور دستور ساز اسمبلی نے بغیر چون و چراکے منظور کرکے اسے دستور شکل دے دی ۔اس قرارداد کی منظوری قائد ملت لیاقت علی خان کے لیے اتنی اہم تھی کہ انہوں نے اسے '' آزادی کے بعد سب سے بڑا واقعہ ‘‘ قرار دیا تھا۔ درحقیقت یہی قرارداد ہے جو پاکستان کا اصلی بیانیہ ہے جس پر ستارہ بائی جیسی گلوکارہ ، میاں بشیر احمد جیسے دانشور، اصغر سودائی جیسے شاعر ، لیاقت علی خان جیسے سیاستدان اور عام آدمی کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔لیکن ہماری تقدیر ! کہ پاکستان کی اس پہلے بیانیے میں طے کیے گئے بارہ نکات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس پر آج تک عمل ہوا ہو۔ مثال کے طور پراس دستاویز کے پانچویں نکتے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اسلامی ماحول کی تیاری ریاست کی ذمہ داری ہوگی یعنی منتخب نمائندے اپنے زمانے کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے قانون سازی اور قانون کا نفاذ کریں گے، مگر ہوا یہ کہ بتدریج حکومتوں کا مزاج بدلتا گیا اور وہ بے معنی قسم کے نظریات تراش کر قرارددادِ مقاصد کو بھلاتی چلی گئیں مگر عوام نے اسے اپنے اجتماعی شعور سے محو نہیں ہونے دیا۔
عوام اور حکومتوں کے درمیان سوچ کے اس فرق نے ملک میں ایک ایسی نظریاتی کشمکش کو جنم دیا جو پہلے پہل دائیں بازو اور بائیں بازو کی صورت میں نمایا ں ہوئی، پھر ترقی پسندی اور قدامت پسندی میں بدلی ، اس کے بعد شدت پسندی اور اعتدال ایک دوسرے کے مقابل آگئے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے عمومی طور پر تو ان بحثوں سے اجتناب ہی کیا اور کسی موقعے پر کچھ بولنا یا کرنا بھی پڑا تو ان کا پلڑا قراردادِ مقاصد کے مخالفین کی طرف ہی جھکا۔ اڑسٹھ پر محیط اس کشمکش کا آخری نتیجہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اسلام کے نام لیوا کشمیر ، افغانستان اور نجانے کہاں کہاں بے رحمی سے استعمال کرکے پھینک دیے گئے جبکہ ریاست کے اہم ترین اداروں پر وہ لوگ قابض ہوگئے جن کا اسلام سے کچھ لینا دینا تھا نہ پاکستان سے۔اب صورتحال یہ ہے کہ مولوی پہلے انتہا پسنداور پھر دہشت گرد قرار پایا، مسٹر برگزیدہ ہوگیا۔تبلیغ پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہوگئے جبکہ رقص و سرود کی محافل سرکاری سرپرستی میں ہونے لگیں،کوئی نوجوان اپنے مدرسے میں بہترین کارکردگی دکھائے تو درخوراعتناء نہیں سمجھا جاتااور سکول کالج کا کوئی بچہ ذرا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو حکومت لیپ ٹاپ لے کر اس کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے۔ ہر شب بیدار مشکوک اوررنگین شامیں گزارنے والا ہردین بیزار مقبول قرار پاچکا ہے۔جدت کے واہمے میں غالباََریاست یہ بات بھی بھول گئی ہے کہ قراردادِ مقاصد کسی اسمبلی کے غوروفکر کا نتیجہ نہیں بلکہ متفقہ عوامی مطالبے کی دستوری شکل ہے۔ اب اگر ہمارے( سیاسی و غیر سیاسی) شیر دل حکمرانوں نے اس بیانیے کو مسترد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو انہیں اپنے نئے بیانیے پر عوام سے وہی سند لینا ہوگی جو لیاقت علی خان نے حاصل کی تھی۔بغیر کسی قانونی جواز کے ریاست قراردادِ مقاصد کی جگہ'' روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘ کے جس جعلی بیانیے کی پرورش کررہی ہے ،یہ اس ملک کے عوام اور ریاست کے درمیان ہوئے عمرانی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ جب ریاست اپنے بیانیے سے ہٹتی ہے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے لے کر آج اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں پھیلتی انتہا پسندی دراصل پاکستان کے طے شدہ عوامی بیانیے سے ریاستی انحراف کے نتائج ہیں۔ ستارہ بائی کانپور والی کو پاکستان بنانے والوں سے امید تھی تو اس نے انہیں گاکر سمجھایا کہ یہاں اسلام کا پرچم لہرائے گا، ستر برس بعد لیاقت میڈیکل کالج کی نورین لغاری نا امید تھی اس لیے اس نے خودکش بمبار بن کر پاکستان چلانے والوں کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے......شاید کوئی سمجھ جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں