پاناما لیکس کا معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے دو بڑے اخبارات نے ایک ہی دن سرخی جمائی کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم سے ملاقات میں انہیں پاناما کے معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کا تقاضا کیا ہے۔ اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے اس خبر کی تردید بھی آئی مگر ملک کے مخصوص حالات کے پیش نظر کسی نے اس تردید کو اہمیت نہیں دی۔ تردید کا یہ حشر ہوا تو پراسرار طریقے سے وزیر اعظم اور جنرل راحیل کے درمیان ملاقات کی ریکارڈنگ منظر عام پر آ گئی جس میں سلام دعا کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ ریکارڈنگ بھی کام نہ دکھا سکی، اخبارات کی خبروں کا اثر غالب رہا اور سارے تجزیے اسی بنیاد پر ہوتے رہے۔ ذاتی طور پر مجھے ان خبروں میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی تھی اس لیے میں نے انہیں کبھی اپنے تجزیے کا حصہ نہیں بنایا مگر یہ ہمت بھی نہیں ہوئی کہ کھل کر ان خبروں کو غلط قرار دے سکوں۔ خیر تھوڑے دن گزرے‘ وزیر اعظم کے ارد گرد رہنے والوں میں سے ایک قابل اعتماد صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے شدومد کے ساتھ ان خبروں کی تردید کی اور مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایسی کوئی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ اس بارے میں متعین سوال وزیر اعظم سے کریں اور ان کا جواب مجھے بتائیں۔ دو دن بعد ان صاحب کا فون آیا تو بہت بگڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: تمہاری وجہ سے وزیر اعظم کے سامنے میری سبکی ہوئی کیونکہ جیسے ہی میں نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا‘ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ''آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کوئی سرکاری افسر مجھ سے اس طرح کی بات کر سکتا ہے‘‘۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ میرے سوال کے ہلکے پن پر وزیر اعظم آزردہ ہو گئے تھے۔ میں ان صاحب یا وزیر اعظم کی آزردگی کا مداوا تو نہیں کر سکتا تھا مگر میری نہ صرف تسلی ہو گئی بلکہ ایک جمہوریت پسند کے طور پر خوشی بھی ہوئی کہ بگڑے ہوئے حالات میں بھی وزیر اعظم کو اپنے عہدے کی عزت اور بھرم کا خیال ہے۔ پاناما سے زیادہ سخت حالات دو ہزار چودہ میں اس وقت پید اہوئے تھے جب عمران خان اور طاہرالقادری کسی امپائر کی تلاش میں شاہراہ دستور پر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ ان دنوں وزیر اعظم کے بارے میں یہ دونوں حضرات جو کچھ کہہ رہے تھے وہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس تناؤ کے ماحول میں میرے اپنے مشاہدے میں آیا کہ نواز شریف بطور وزیر اعظم اپنی سرکاری حیثیت پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے؛ البتہ سیاسی مکالمے سے انہیں کوئی گریز نہیں تھا۔ اس دھرنے میں بھی ہم سب کو یاد ہے کہ جب عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنے اپنے پیروکاروں کو وزیر اعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا حکم دیا تھا‘ تو فوج بلا تکلف بیچ میں آ گئی تھی اور ان دونوں کے لشکر وہیں بھیج دیے گئے جہاں سے چلے تھے۔ یوں فوج نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کو پامالی سے بچا لیا۔
پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری مناصب کے احترام کی روایت زیادہ مستحکم نہیں ہے اس لیے نواز شریف کے ساتھ مخصوص واقعات کو انفرادی قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری طرزِ حکومت کے بارے میں یکسوئی سرے سے مفقود ہے اس لیے یہاں جمہوری حکومتیں کسی بھی دوسرے جمہوری ملک کی نسب زیادہ خوار ہوتی یا کی جاتی ہیں۔ یکے بعد دیگرے مارشل لا کے نفاذ سے ملک میں ایک ایسا مستقل طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو سیاستدانوں کو کاٹھ کے پُتلے اوراسٹیبلشمنٹ کو اصل حکمران قرار دینے کے لیے سرعام دلائل دینے سے بھی نہیں شرماتا۔ عوام کے ووٹوں کو بے معنی قرار دیتے ہوئے یہ لوگ ''ایسا ہو گا، ویسا کر دیا جائے گا، اسے ہٹا دیا جائے گا‘‘ جیسے فقرے تراشتے ہیں‘ جن میں فاعل کا ذکر نہیں ہوتا مگر مخاطب خود ہی سمجھ جاتا ہے کہ ایسا ویسا کرنے والا کون ہے۔ دوسری طرف ہم جیسے لوگ ہیں جو جمہوریت کو ملک کے لیے ناگزیر سمجھتے ہوئے بھی ذہنی طور پر ملکی استحکام کی خاطر مارشل لا کی آمد کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور فوج کے ہر اقدام کا تجزیہ اسی خوف کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں دفاعی تجزیہ کاری کے نام پر بھی کچھ لوگ میدان میں آ گئے ہیں جن کی دفاعی معلومات پر تو یہ فقیر کچھ عرض نہیں کر سکتا مگر جمہوریت کو گالی دینے میں ان کی فصاحت قابلِ رشک ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر شیخ رشید جیسے حضرات پوری کر دیتے ہیں جو اکثر اوقات فوج کے خود ساختہ ترجمان بن کر حکومت جانے کی تاریخ دیتے رہتے ہیں اور کبھی عوام بن کر فوج کو اپنا دستوری کردار ادا کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ اس ماحول میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ڈان لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک دستاویز کے بارے میں کہے کہ 'اسے مسترد کیا جاتا ہے‘ تو اس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے غیر معمولی فراست کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس خاکسار جتنی سمجھ بوجھ بھی کافی ثابت ہوتی ہے۔
' مسترد کیا جاتا ہے‘ کے الفاظ ویسے بھی اپنے معنی میں تعظیم کا کوئی شائبہ بھی نہیں رکھتے مگر ایک منتخب وزیر اعظم کے بارے میں استعمال ہو رہے ہوں تو ان کی سختی اور شدت کا اندازہ مخاطب کی قوتِ برداشت سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بحیثیت قوم ہم آمریت اور جمہوریت کے درمیان موجود ایک برزخ میں رہتے ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا سابقہ اس وقت بھی لگا رہتا ہے جب یہاں جمہوریت ہوتی ہے نہ اسلام اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا افراد کے ذاتی گملوں میں پنیری کی صورت میں ہے‘ اداروں کی زمین نے اسے ابھی قبول نہیں کیا۔ جمہوریت کی ان تمام کمزوریوں کے باوجود ایک منتخب وزیر اعظم کا غیر متزلزل حق ہے کہ کسی بھی طور اس کے احکامات کو برسرِ عام مسترد نہ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ عملی طور پر وزیر اعظم کی تکریم نظام کے کسی دوسرے حصے میں بے چینی پیدا کر دے مگر مسترد کر دینے کی یہ روش اپنے ریاستی نظم و نسق کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے چاہے اس کا سیاق و سباق کچھ بھی ہو۔
ہماری تاریخ کی روشنی میں بھی شاید یہ کوئی بڑی بات نہ ہو اورحکومت اپنی سیاسی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے صرف نظر کر لے مگر یہ معاملہ سول فوجی تعلقات کے درمیان توازن سے متعلق نہیں بلکہ براہ راست ہماری قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ سوال نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ٹویٹ کرنے والے افسر یعنی دو اشخاص کے درمیان تنازعے کا نہیں بلکہ ڈیڑ ھ کروڑ ووٹ لے کر آنے والے وزیر اعظم اور ایٹم بم رکھنے والے دنیا کی چھٹی بڑی فوج کے باہمی تعلق کا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں فوج اور حکومت کے درمیان کسی بھی معاملے پر جزئیات میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، کبھی اس کا بند کمروں میں سنجیدگی سے اظہار ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات آرمی میس میں مذاق اڑانے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ یہی صورت انتیس اپریل سے پہلے پاکستان میں تھی مگر 'مسترد کیا جاتا ہے‘ جیسے الفاظ کے برسر عام استعمال کے بعد یہ متعین سوال پیدا ہوگیا ہے کہ پاک فوج کے مقابلے میں منتخب وزیر اعظم کے احکامات جاری کرنے کی حد کیا ہے؟ اب دنیا بھی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہو گی کہ اگر ڈان لیکس جیسے مسئلے پر پاکستان کے وزیر اعظم کے احکامات مسترد ہو سکتے ہیں تو نازک خارجی مسائل پر ان کی یقین دہانیوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ اس ٹویٹ نے ہمارے دشمنوں کے پیدا کردہ تاثر کو بھی تقویت دی ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے اس کے اندر دو الگ الگ فریقوں سے بات چیت کرنا پڑتی ہے۔ کسی بھی نقطہء نظر سے دیکھیں آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ ٹویٹ اچھا اقدام نہیں ہے بلکہ یہ غلطی ہے ۔ اگر ہم نے اس غلطی کو یونہی چھوڑ دیا تو بانجھ نہیں رہے گی بلکہ فتنے جنتی رہے گی۔ اگر فتنوں سے بچنا ہے تو ہمیں پہلی فرصت میں غلطی کا اعتراف کرنا ہو گا ورنہ بات بڑھتی چلی جائے گی۔