''میرے پاس ایک خبر ہے، سوچا آپ کو بتا دوں شاید آپ کو اس میں کوئی دلچسپی ہو‘‘، چند روز پہلے کراچی سے میرے ایک دوست نے فون پر کہا۔ اس کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے اور میں نے اسے فوراً خبر بتانے کو کہا۔ اس نے عام سے لہجے میں کہا کہ میں آپ کو کچھ دستاویزات کا عکس ای میل کرتا ہوں پہلے آپ انہیں پڑھ لیں تو پھر بات ہوگی۔ کچھ دیر بعد اس نے موبائل پر پیغام بھیجاکہ ای میل چیک کرلیں۔ ای میل دیکھی تو تیرہ مختلف قسم کی دستاویزات تھیں جو پاکستان سٹیل ملز میں چارسو بکھری کرپشن کی داستانوںمیں سے چنی ہوئی ایک چھوٹی سی کہانی سنا رہی تھیں۔ کہانی یہ تھی کہ دوہزار چودہ کے موسم ِ خزاں میںپاکستان سٹیل ملز ہسپتال کو دوائیوں کی خریداری کے لیے ایک کروڑ روپے اس شرط پر دیے گئے کہ ان میں سے ستر لاکھ کی دوائیاں ٹینڈر کے ذریعے اور تیس لاکھ روپے کی فوری ضرورت کی دوائیاں مارکیٹ سے نقد خریدی جاسکیں۔اس رقم کی منظوری کے بعد ہسپتال کی انتظامیہ نے ٹینڈر کے ذریعے دوائیاں فراہم کرنے والی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کیں جس کے نتیجے میں ایک ایسی کمپنی نے کم ترین پیشکش کی جو پہلے بھی ہسپتال کو دوائیاں اور طبّی نوعیت کا سامان فراہم کررہی تھی۔ اصولی طور پر اس کمپنی کو دوائیاں سپلائی کرنے کا ٹھیکا مل جانا چاہیے تھا لیکن پریشانی یہ تھی کہ ہسپتال انتظامیہ کو اس صاف ستھری ڈیل سے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں تھا اس لیے یہ ٹینڈر منسوخ کرکے دوبارہ پیشکشیں طلب کی گئیں۔ ہسپتال کو مطلوبہ دواؤں کی قیمتیں سربمہر لفافوںمیں موصول ہوئیں، معین وقت پر یہ لفافے کھلے تو ایک بار پھر وہی کمپنی ٹینڈر جیت گئی جس کی وجہ سے پہلا ٹینڈر منسوخ کیا گیا تھا۔ یہ امر ہسپتال انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث تھا مگر اس مشکل صورتحال سے نکلنا تھا اس لیے ہسپتال کے ذمہ داروں میں سے ایک نے اس کمپنی کے مالکان میں سے ایک کو فون کیا کہ اگرتم پاکستان سٹیل ملز کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہو، اگر تم پاکستان سٹیل مل ہسپتال سے اپنے سابقہ واجبات وصول کرنا چاہتے ہو اور اگر اپنی سپلائی کی ہوئی دوائیوں کو جعلی قرار نہیں دلوانا چاہتے تو ہمیں ہمارا حق (رشوت/بھتہ) دے دو بصورت دیگر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ فون سننے والا شخص ایماندار تو تھا ہی مگر ہوشیار بھی تھا، اس نے فون پر ہونے والی یہ گفتگو ریکارڈ کرلی اور سٹیل ملز کی انتظامیہ کو تحریری درخواست کے ذریعے اس سے مطلع بھی کردیا۔
اس درخواست اور گفتگوکی ریکارڈنگ کے نتیجے میں سٹیل ملز انتظامیہ نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا کر معاملے کی تحقیقات کی تو پتا چلا کہ ہسپتال کے ذمہ داروں پر نہ صرف رشوت طلب کرنے کا الزام درست ہے بلکہ انہیں دوائیاں خریدنے کے لیے جو نقد پیسے دیے گئے تھے اس میں بھی ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ ہسپتال والوں نے جو دوائیں خریدی ہیں وہ نہ صرف مہنگی ہیں بلکہ غیر معیاری اور زائد از میعاد بھی ہیں۔ اس معاملے میں یہ لطیفہ بھی سامنے آیا کہ بعض دوائیوں کے لیے جس کمپنی کا بِل دیا گیا ہے وہ سرے سے دوائیوں کا کاروبار ہی نہیں کرتی بلکہ ہارڈوئیر یعنی کیل، قابلے اور اس طرح کی دیگر مصنوعات فروخت کرتی ہے۔ اس کمیٹی نے ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر مستنصر گیلانی، اکاؤنٹس کے نگران فہد حسین اور ہسپتال سٹور کے نگران عبدالقادر پنہور کو ذمہ دارقرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائی تجویز کی۔ اصولی طور پر یہاں کیس ختم ہوجاتا اور شکایت کنندہ کی مشکل آسان ہوجاتی مگر یہ پاکستان ہے اور معاملہ پاکستان سٹیل ملز کا ہے۔ اس لیے یہ لوگ نہ صرف اپنے عہدوں پر رہے بلکہ زیادہ بپھر کر اپنے خلاف شکایت کرنے والے کے درپے ہوگئے۔ یہاں سے اس کہانی کا دوسرا باب شروع ہوا کیونکہ شکایت کنندہ سفیان احمد سٹیل ملز کے اندرونی احتساب کے نظام سے مایوس ہوکر ایف آئی اے جا پہنچا تھا۔
ایف آئی اے نے ابتدائی انکوائری کے بعد سفیان احمد کی درخواست پر مقدمہ درج کیا، ملزمان کو گرفتار کیا اور تفتیش شروع کردی۔ مقدمہ عدالت میں گیا تو کچھ ایسے پیچ پڑے کہ ان تینوں ملزمان کی ضمانت ہوگئی۔ پھرایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو خیال آیا کہ اس مقدمے کی تفتیش ٹھیک نہیں ہورہی اس لیے ایک دوسرے افسر کو یہ معاملہ سونپ دیا گیا۔ دوسرا افسر بھی اپنے پیشرو کی طرح سادہ مزاج تھا لہذا وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ ملزمان واقعی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ اس موقعے پر سندھ پولیس کے
ڈی آئی جی احمد یار چوہان کی انٹری ہوئی اور انہوں نے ایف آئی اے کو بتایا کہ یہ تفتیش ٹھیک نہیں ہورہی بلکہ یہ فلاں افسر کے سپرد کردی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ تصور کیجیے کہ سندھ پولیس کا افسر وفاقی تفتیشی ادارے کو تفتیش کا طریقہ کار بتلا رہا ہے اور وہ بھی چودھری نثار علی خان کے ماتحت ادارے کو جو اپنے کام میں وزیراعظم کی مداخلت بھی گوارا نہیں کرتے۔ خیر تیسری بار تفتیش اس 'فلاں‘ افسر کے حوالے ہوئی تو اس نے شکایت کنندہ کودھمکایا ، گواہوں کو پکڑ کر حوالات میں بند کیا اور تینوں ملزموں کو بے گناہ قرار دے کر شکایت کنندہ کے خلاف کارروائی شروع کردی تو افسران نے اطمینان کا اظہار کیا۔ دوسال کی خواری کے بعد مدعی نے جب ملزم کو آزاد اور خود کو پھنسا ہوا پایا تو تین مہینے پہلے اس نے دو خط لکھے ایک وزیرداخلہ یعنی چودھری نثار علی خان کو اور دوسرا ایف آئی اے کے اکنامک کرائم ونگ کے سربراہ کو( واضح رہے کہ یہ وہی اکنامک کرائم ونگ کے ایک سابق سربراہ واجدضیاء ہیں جو آج کل وزیراعظم کے خلاف پاناما کیس کی تفتیش کررہے ہیں)۔ اکنامک کرائم ونگ سے جواب آگیا کہ ہم اس معاملے کو دیکھیں گے ، وزیرداخلہ کی طرف سے خط کی رسید بھی نہیں ملی۔ مختصر یہ کہ شکایت کنندہ بمع گواہان مصیبت میں ہے، ملزمان آزاد ہیں اور مملکت خداداد کا کاروبار حسبِ معمول رواں دواں ہے۔
میں یہ دستاویزات پڑھ کر کافی دیر تک اپنے دوست کی سادگی پر ہنستا رہا ۔ اس بے چارے کو پتا ہی نہیں کہ پاکستان بدل گیا ہے، یہاں ایک کروڑ روپے کی کرپشن اب کرپشن نہیں کہلاتی۔ اسے بے چارے کو علم نہیں کہ یہ خبر اگر میں اخبار میں فائل کرتا تو نیوز روم میں میرے ساتھی میرا مذاق اڑاتے اور اس خبر کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے۔ میرا ایڈیٹر مجھے اپنے کام پر توجہ کرنے کی تلقین کرتا اور یہ خبر فائل کرنے پر میری گوشمالی کرتا۔ اگر میں ٹی وی پر یہ خبر دیتا توڈائریکٹر نیوز مجھے اپنے دفتر بلا کر کان پکڑوا دیتا اور صاف صاف کہہ دیتا کہ آئندہ تم نے اس طرح کی گھٹیا کرپشن کی خبر دی تو تمہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ میں اپنے دوست کو بتانا چاہتا تھا کہ بھائی بے شک تم نے مجھے جو خبر دی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے مگر زمانہ بدل چکا ہے، ایک کروڑ روپے کی کرپشن کی خبریہاں ناقابل اشاعت ہے ، میں یہ خبر دے کر اپنے دوستوں میں مذاق نہیں بننا چاہتا۔ میں نے اپنے دوست کو یہ سب کچھ کہنے کے لیے فون اٹھایا مگر میری ہمت نہیں پڑی کہ ایک ایسے شخص کو پاکستان کے نظام سے مایوس کردوں جس کے نزدیک کرپشن کرپشن ہوتی ہے چاہے ایک روپے کی ہو۔ اگلے دن اس کا فون آتا رہا مگر میں سننے سے گریز کرتا رہا۔ اس نے میسیج کیے مگر کوئی جواب نہیں دیا لیکن وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب محمد نواز شریف نے میری مدد کو آئے اور میری مشکل آسان کردی۔ انہوں نے صاف صاف فرما دیا، ''پاکستان میں بہت کرپشن ہے، ہر طرف گھپلے ہی گھپلے ہیں، اگر ہم ان گھپلوں کی تفتیش کرنے لگے تو ترقی نہیں کرسکیں گے‘‘۔ میں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کا فرمان اپنے دوست کو بھیج دیا۔ اس کے بعد اس کا کوئی پیغام آیا نہ فون۔