ایک زمانہ تھا جب لاہور ہائیکورٹ کے ایک وکیل مرحوم ایم ڈی طاہر عوامی دلچسپی کے موضوعات کو پٹیشن کی شکل دے کر عدالت عالیہ کے سامنے رکھ کر فیصلے کے منتظر رہا کرتے تھے۔ ان کی دائر کردہ درخواستوں کی بنیاد دستور کی وہ شقیں ہوا کرتی تھیں‘ جن کے تحت ہر پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ ریاست کے کسی بھی معاملے کو اپنی حق تلفی قرار دے کر عدالت جا سکتا ہے۔ ایم ڈی طاہر کی وکالت چلتی تھی یا نہیں لیکن یہ طے تھا کہ ان کی وجہ سے عدالت میں رونق لگی رہتی تھی۔ عدالتی کارروائی کوّر کرنے والے کئی صحافی جب کئی دن کی خواری کے بعد بھی عدالت سے کوئی خبر تلاش نہ کر پاتے تو ایم ڈی طاہر مرحوم کے پاس جا کر ان کی توجہ کسی ''مسئلے‘‘ کی طرف دلاتے اور یوں ایک دلچسپ پٹیشن داخل کرا کے خبر کی صورت میں مراد پاتے۔ مرحوم کی سادگی اور قانون کے مطابق عدالت کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کئی نامور وکلا بھی پردے کے پیچھے رہ کر ان کے ذریعے عدالت میں اپنے مطلب کی کوئی ایسی پٹیشن داخل کروا دیتے جس کی سماعت کا فائدہ انہیں کسی دوسرے مقدمے میں مل جاتا، مثلاً ایک معتبر وکیل نے ان کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرائی کہ سٹیٹ بینک یا حکومت کو بینک اکاؤنٹ رکھنے والوں کی تفصیلات حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں، عدالت نے عمومی انداز میں فیصلہ دیا تو معتبر وکیل صاحب کے کلائنٹ کو اس کا براہ راست فائدہ ہو گیا۔ روایت یہ بھی ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک سابق جج صاحب نے بھی ان سے کسی مسئلے پر درخواست دلوائی تاکہ عوام الناس کی بھلائی کے لیے کوئی تاریخی فیصلہ دیا جا سکے۔ ان کے مقدمات کے حوالے سے خبریں اتنے تواتر سے چھپتی تھیں کہ گاؤں دیہات کے رہنے والے انہیں بڑا وکیل سمجھنے لگے اور اپنے مقدمات ان کے سپرد کرنے لگے۔ مرحوم اپنے مؤکل سے بہت تھوڑی فیس لے کر عدالت میں پیش ہوتے تو عام طور پر پہلی پیشی پر ہی مؤکل آپ سے مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیتا۔ جب یہ سلسلہ معمول بن گیا تو اعلیٰ عدلیہ کے جج کبھی کبھار مؤکل کے سامنے اپنے جذبات کے اظہار سے گریز کرنے لگے‘ یوں لشتم پشتم گلشن کا کاروبار چلتا رہا۔ آپ کی طبیعت کو انگریزی سے کوئی مناسبت نہ تھی اس لیے ہمیشہ غلط انگریزی بولتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ بولنے تک بات رہتی تو خیر تھی مگر ایک بار عدالت نے انہیں ان کی اپنی دائر کردہ درخواست کا ایک پیرا گراف پڑھنے کا حکم دیا تووہ پڑھ بھی نہ سکے۔ اس واقعے سے عدالت کو ان کی ذاتی لیاقت اور ان کے ذریعے درخواست دائر کرنے والے کی نیت کا بھی علم ہو گیا۔ مرحوم اپنی دانست میں بڑے بھرپور دلائل دیتے تھے مگر ان کے بے معنی، بے محل اور بے ربط ہونے کی وجہ سے عدالت نے بے شمار دفعہ زبانی طور پر برہمی کا اظہار کیا، کئی بار جرمانہ کیا اور ایک بارجیل بھی بھیجا مگر وہ اپنے کام میں جتے رہے حتیٰ کہ انہیں موت نے آ لیا۔
ایم ڈی طاہر مرحوم ہماری عدالتی تاریخ کا ایک لطیفہ سمجھے جاتے تھے اور ان کے ساتھ ہمارے قانونی نظام کا سلوک بھی کچھ ایسا ہی تھا لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو شاید ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین مقدمے یعنی پاناما کیس کے پہلے مدعی ہوتے اور ان کے دیے ہوئے دلائل جب کمرہء عدالت کی دیواریں پھاند کر میڈیا کے کوٹھے پر چڑھتے تو پورا ملک ان پر عش عش کرتا۔ تحریکِ انصاف والے میرے دوست فواد چودھری ان کے اٹھائے ہوئے ''قانونی نکات‘‘ کی وضاحت کرتے، نعیم الحق ان نکات کو سیاسی بیانیے میں تبدیل کرتے، اسد عمر پوری متانت سے ان کے دلائل کو آسمانی ثابت کرتے اور ماتم کرتے کہ اتنے روشن دلائل پر فوری طور پر فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایم ڈی طاہر عمران خان کے خلاف ان کے اثاثوں کے اظہار میں پائی جانے والی تکنیکی غلطیوں اور تحریک انصاف کے باہر سے رقوم حاصل کرنے کا معاملہ بھی عدالت میں لے جاتے۔ عدالت خواہ کچھ بھی کہتی، مرحوم اپنے ''دلائل‘‘ دیتے چلے جاتے اور پھر ان دلائل کو ن لیگ کے حنیف عباسی، طلال چودھری اور دانیال عزیز لے اڑتے۔ یہ تینوں دوست معتبر شکلیں بنا کر عمران خان
کے خلاف پریس کانفرنس شروع کرتے اور اختتام تک ان تینوں کے دہن ہائے مبارک سے اڑنے والی جھاگ سے میڈیا کے مائک بھیگ بھیگ جایا کرتے۔ افسوس صد بار افسوس، ایم ڈی طاہر اس زمانے میں وفات پا گئے جب مقدمہ، وکیل اور منصف صرف دلیل پر چلا کرتے تھے اس لیے مرحوم کی وہ پذیرائی نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ کاش وہ اس عہد میں ہوتے جب مدعی بغیر ثبوت پیش کیے انصاف کا طلبگار ہوتا ہے اور منصف اپنے فیصلوں کی بنیاد ناول نگاروں کے لذیذ فقروں سے اٹھاتا ہے۔
ایم ڈی طاہر مرحوم کو ان کے ہم عصروں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، گاہے کسی نے ان کی دائر کی ہوئی درخواست کے موضوع پر تحسین کا ایک آدھ جملہ کہہ دیا ہو تو الگ بات ہے مگر عمومی رویہ لاتعلقی کا ہی رہا۔ ان کی وفات کے صرف نو سال میں حالات اس قدر تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں کہ پاناما کیس یا عمران خان پر دائر ہونے والے مقدمات کی قانونی بنیادیں اور ان پر تعمیر ہونے والی دلائل کی عمارتوں کی مضبوطی کو دیکھ کر اب ان کے ہم عصروں نے ایم ڈی طاہر کو ''مستقبل کا نقیب‘‘ قرار دینا شروع کر دیا ہے کیونکہ موصوف ہی اس قسم کے بے معنی اندازِ وکالت و مقدمہ بازی کے بانی تھے۔ انہوں نے اپنی چشم بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب مقدمے کے فریق دلیل اور نظیر کی بجائے سڑک پر آنے کی دھونس دے کر اپنی سچائی ثابت کیا کریں گے۔ ان کے ہم عصر یہ بھی نہ جان سکے کہ آنے والے زمانے میں 'جوڈیشل کُو‘ (اقتدار پر عدالتی قبضہ) کے خوف سے عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں کانپتی ہوئی عدالت میں آیا کریں گی‘ اور لڑکھڑاتی ہوئی نکلا کریں گی لہٰذا وکالت کے نام پر وہی کچھ ہو گا‘ جو ایم ڈی طاہر کا طرزِ عمل تھا، یعنی آئیں بائیں شائیں۔ آج سے صرف دس سال پہلے یہ بھی نہ سمجھا جا سکا کہ پاکستان کے ٹی وی پر بیٹھے ہوئے اینکر بریک سے پہلے وکیل بن کر مقدمہ لڑا کریں گے اور بریک کے بعد جج بن کر فیصلے سنایا کریں گے۔
ایک تجربہ کار وکیل سے پوچھا کہ آپ کے پیشے میں کامیابی کا اہم ترین نکتہ کیا ہے؟ فرمایا، ''ایک نہیں دو نکتے ہیں، پہلا یہ سمجھ لینا کہ عدالت کے سامنے کیا نہیں کہنا اور دوسرا یہ جان لینا کہ عدالت ہر درخواست پر حکم نہیں دے سکتی‘‘۔ ایم ڈی طاہر مرحوم ان دونوں نکتوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ عدالت کے سامنے ایسی باتیں بھی کر جاتے تھے جن کی وجہ سے ان کا پیش کردہ مقدمہ ہی تباہ ہو جاتا تھا اور عدالتوں سے حکم لینے کے اتنے شائق تھے کہ انہوں نے عدالت سے پچاس پیسے، دس پیسے اور ایک پیسے کے سکے کے از سر نو اجرا کے لیے مرکزی بینک کو فریق بنا کر حکم جاری کرنے کی استدعا بھی کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت کو دندان شکن جواب دینے، امریکہ کے ذریعے فلسطین کا مسئلہ حل کرانے، بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا قبضہ چھڑانے جیسے معاملات پر اعلیٰ عدلیہ نہ صرف احکامات جاری کرے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنائے۔ ان کی زندگی میں یہ وقت نہیں آیا تھا کہ اس طرح کے معاملات پر عدالتیں احکامات جاری کرتیں البتہ انہوں نے عدالتوں کو ایک نیا راستہ ضرور دکھا دیا تھا‘ جس پر سفر ان کی وفات کے بعد شروع ہوا جب چشمِ فلک نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قانون تو قانون خود منصف بھی حرکت کرنے لگے۔ اس راستے پر چلتے بلکہ دوڑتے ہوئے ہم نے یہ کرتب بھی سیکھ لیا کہ وزیر اعظم کے بیٹے کو اپنے مرحوم دادا کا حساب کتاب دینے پر مجبور کر دیں یا عمران خان کو پندرہ سال پہلے قرض کی رقم سے خریدی ہوئی غیر متنازعہ زمین کے سودے کی باریکیاں بتانے کا حکم دیں، ہم زبان سے تو فرمائیں کہ 'انصاف ہو گا چاہے آسمان ٹوٹ پڑے‘ لیکن عملی طور پر ہماری دلچسپی صرف آسمان گرانے میں ہی ہو۔ ایم ڈی طاہر مرحوم آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ جس طرح وہ زندگی میں ہی پاکستان کی قانونی تاریخ میں ایک لطیفہ بن گئے تھے آج پاکستان کا پورا سیاسی و دستوری نظام ہی ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ اس وقت کتنے ہی ایم ڈی طاہر (تاریخ کی) عدالت میں اپنے ہی جیسوں کے سامنے آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔