پچھلے مہینے کی بات ہے کہ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں نواز شریف احتساب عدالت کی پیشی بھگتنے کے بعد مسلم لیگ ن کے کارکنو ں کے ساتھ مجلس جمائے ہوئے تھے کہ سینیٹر جنرل (ر) قیوم ملک اور وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادران سے ملنے آ گئے۔ یہ دونوں صاحبان جب اپنے لیڈر کے دائیں بائیں بیٹھ گئے تو نواز شریف کارکنوں کو مخاطب کرکے بولے ''دیکھ لیں میرے ساتھ بھی دو جرنیل ہیں‘‘۔ اس فقرے پر ایک فرمائشی قہقہہ بلند ہوا اور پھر جنرل قیوم ملک نے بھی کارکنوں کو مخاطب کرکے تقریر شروع کر دی۔ اس تقریر میں جہاں انہوں نے اپنے قائد کی تعریف و توصیف کچھ مبالغہ کیا وہاں یہ بھی فرماگئے کہ ''نواز شریف کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے اخراجات ان کی آمدن سے زائد ہیں، انتہائی نامناسب بات ہے۔ اور اگر ایسا ہے بھی تو پھر کسی کو کیا تکلیف ہے‘‘۔ ان کی تقریر کے بعد نواز شریف نے گفتگو شروع کی اور جوشِ خطابت میںکہہ ڈالا کہ ہمارے اخراجات اگر آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟ اس گفتگو کا یہ حصہ کسی نے موبائل فون کے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا اور ''تمہیں کیا‘‘ کا سوال کئی روز تک ٹی وی اور سوشل میڈیا میں اٹھتا رہا کیونکہ ان کے اس جملے سے تاثر یہ پیدا ہوا کہ شاید نواز شریف خود کو احتساب یا جواب دہی سے ماورا سمجھتے ہیں۔ بظاہر 'تمہیںکیا‘ کہتے ہوئے ان کا لہجہ پر سکون تھا مگر ان دو لفظوں میں چھپی تلخی یہ ضرور سمجھا گئی تھی کہ سپریم کورٹ سے پاناما کیس میں ملنے والی نااہلی کا زخم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد نواز شریف لندن گئے تو وہاں انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔کسی سیاستدان کا دوسرے ملک جاکر اپنے ملک کے سیاسی حالات اوردستوری اداروں سے اپنے اختلافات کا اظہار عمومی طور پر کوئی قابلِ تعریف عمل نہیں ہے لیکن جب حکمران جماعت کا قائد ہی غیر ملک جا کر اس طرح کی گفتگو کرے تو کچھ زیادہ نامناسب لگتا ہے۔ پھر لندن سے واپسی پر جس انداز میں انہوں نے عمران خان کو نااہلی کی سزا نہ دیئے جانے پرتبصرہ کیا اور انصاف کے دہرے معیار کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا، اس سے یہ واضح ہوگیا کہ عدلیہ سے ان کی ناراضی پہلے تلخی میں ڈھلی، پھر یہ تلخی غصہ بنی اور اب غصہ انتقام کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد چند دن تک جس تحمل مظاہرہ کیا تھا، وہ جی ٹی روڈ پر ان کی ریلی کے آغاز سے ہی ہوّا ہو گیا تھا۔ اس ریلی میں اختیار کی گئی تند و تیز زبان کو جلسوں کی ضرورت سمجھ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی واقعہ یہ ہے کہ ان کا رویہ مسلسل سخت ہوتا چلا گیا اور اب اتنا سخت ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اداروں کے مقابلے میں ہی مورچہ لگائے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔
قاعدہ ہے کہ اعصاب کی کشیدگی حالات میں سدھار کا باعث نہیں بنتی اس لیے نواز شریف کے کشیدہ اعصاب بھی ان کے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ حقیقت نواز شریف کے سوا ان کی جماعت کا ہر شخص جانتا ہے۔ ان کے اردگرد رہنے والوں میں کئی ایسے لوگ ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف نظام سے محاذ آرائی کا راستہ چن کر دراصل اپنے دشمنوں کا منصوبہ کامیاب بنا رہے ہیں۔ ان کا سخت مؤقف جہاں ان کی اپنی مشکلات میں اضافہ کرتا جا رہا ہے وہاں مسلم لیگ ن کے لیے دو ہزار اٹھارہ میں دوبارہ اقتدارمیں آنے کے امکانات پر بھی بادل بن کر چھا رہا ہے۔ کبھی عدلیہ پر دہرے معیار کے الزامات لگا کر اور کبھی فوج کے بارے میں ذومعنی باتیں کر کے‘ وہ خود کو پاکستان کے پاور سٹرکچر میں ناقابل قبول بناتے چلے جا رہے ہیں۔ نجانے کیوں انہوں نے یہ نکتہ فراموش کر رکھا ہے کہ جدید دنیا میں صرف عوامی سیاست ہی اقتدار کا زینہ نہیں رہی بلکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ہر ملک میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہیئت مقتدرہ کو اپنی سیاست میں نظر انداز کر دینے کی روش کچھ دانشور ذہنوں کی عیاشی تو ضرور ہو سکتی ہے مگر عملیت پسند سیاستدانوں کی حکمت عملی نہیں۔ یوں بھی نواز شریف کی طاقت کا راز کسی نظریے میں نہیں بلکہ ان کی غیر معمولی حقیقیت پسندی میں پوشیدہ ہے، جس کا کلاسیکی مظاہرہ انہوں نے دوہزار تیرہ میں اپنے امیدواروں کے انتخاب کی صورت میں کیا تھا۔ اقتدار تک پہنچنے کے لیے انہوں نے الیکشن میں جن امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا ان کی واحد قابلیت یہ تھی کہ وہ اپنی نشست جیت سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی فراموش کر دیا تھا کہ ان کے درجنوں امیدوار ماضی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھی اور ق لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ان کی یہ سکیم کامیاب رہی اور وہ تیسری بار پاکستان کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک مقبول وزیراعظم ہوتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا جانا اور توہین آمیز مقدمات میں پھنسا دیا جانا‘ اتنی چھوٹی چیزیں نہیں جنہیں ہر شخص آسانی سے برداشت کر لے۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں عام لوگوں اور لیڈر کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ نواز شریف اگرچہ وزیراعظم نہیں رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ملک میں حکومت اُسی جماعت کی ہے جو اِن کے نام پر ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ یہ حکومت کامیاب ہو یا ناکام رہے‘ اس کی ذمہ داری بہرحال انہی پر رہے گی۔ جب وہ اپنے دورِ وزارت عظمیٰ سے اپنی ہی پارٹی کی موجودہ حکومت کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سٹاک مارکیٹ نیچے جا رہی ہے یا ڈالر قابو میں نہیں آ رہا تو... یہ شکوہ عام آدمی کو سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ اس شکوے سے یہ پیغام ضرور جاتا ہے کہ حالات دانستہ طور پر خراب بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرزِ عمل کی وجہ سے ملکی نظام میں نواز شریف کی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ ان کی جگہ لینے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو خود ان کی اپنی جماعت میں شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنے لیڈر کی ہم نشینی میں ایک بات کرتے ہیں تو کہیں اور بیٹھ کر اپنے قائدکے رویے پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔
نواز شریف کا غصہ ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس وقت جہاں ایندھن کا کام کر رہا ہے وہاں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بنتا نظر آ رہا ہے۔ انہیں جنرل (ر) پرویز مشرف پر غصہ آیا تو حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ انہیں ڈان لیکس کی رپورٹ پر غصہ آیا تو ریاستی نظم و نسق میں کمزوری پیدا ہونے لگی۔ انہوں نے پاناما کیس میں بننے والی جے آئی ٹی پر غیظ و غضب کا اظہار شروع کیا تو بات ہاتھ سے نکلتی چلی گئی۔ انہیں اپنے نکالے جانے پر غصہ ہے مگر یہ غصہ ان کی واپسی کے لیے کوئی راستہ ہموار نہیں کر پایا، الٹا دیوار بن گیا۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی کی تحقیق ہے کہ غصہ دراصل اپنی کی ہوئی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کا ایک نفسیاتی میکینزم ہے، جو ذاتی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے مگر مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔
کسی سیاستدان کا دوسرے ملک جاکر اپنے ملک کے سیاسی حالات اوردستوری اداروں سے اپنے اختلافات کا اظہار عمومی طور پر کوئی قابلِ تعریف عمل نہیں ہے لیکن جب حکمران جماعت کا قائد ہی غیر ملک جا کر اس طرح کی گفتگو کرے تو کچھ زیادہ نامناسب لگتا ہے۔ پھر لندن سے واپسی پر جس انداز میں انہوں نے عمران خان کو نااہلی کی سزا نہ دیئے جانے پرتبصرہ کیا اور انصاف کے دہرے معیار کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا، اس سے یہ واضح ہوگیا کہ عدلیہ سے ان کی ناراضی پہلے تلخی میں ڈھلی، پھر یہ تلخی غصہ بنی اور اب غصہ انتقام کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔