یادش بخیر سردار فاروق لغاری مرحوم صدرِ پاکستان نہ رہے تو ایک سیاسی جماعت بنا لی جس کا نام پاکستان ملت پارٹی رکھا۔ ان دنوں محمد علی درانی بھی، جو بعد میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وفاقی وزیر بنے، ان کے ساتھ تھے۔ محمد علی درانی تازہ تازہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم پاسبان سے الگ ہوئے تھے اور فاروق لغاری کی سیاسی بساط کے لیے قریہ قریہ نوجوان مہرے تلا ش کرتے پھرتے تھے۔ اسی تلاش میں وہ فاروق خان لغاری کو سرگودھا لائے کہ ممکن ہوا تو جلسہ کر لیں گے‘ ورنہ شہر کے کچھ لوگوں سے ملاقات کر کے انہیں ہمنوا بنانے کی کوشش کریں گے۔ جلسہ تو خیر کیا ہونا تھا‘ شہر کے ایک چوراہے پر کھڑے ہو کر سامنے کھڑے چند درجن لوگوں کے سامنے سابق صدر نے نواز شریف کے خوب لتے لیے اور قریب ہی ایک جگہ تشریف لے گئے جہاں میں پچھلی صفوں میں موجود تھا۔ فاروق لغاری نے گفتگو کا آغاز کیا۔ اپنے اور نواز شریف کے درمیان تعلقات میں تلخی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ''نواز شریف کے نزدیک ترقی کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملک میں موٹر ویز بنا دیں یا نئے ائیرپورٹ بنا دیں‘‘۔ بات کرتے ہوئے سابق صدرِ پاکستان کچھ غصے میں آ گئے اور جو آخری دلیل انہوں نے نواز شریف کو نااہل حکمران ثابت کرنے کے لیے دی وہ یہ تھی کہ ''ایک دن نواز شریف مجھے ملنے آیا اور کہنے لگا صدر صاحب میں پورے ملک میں موٹر ویز کا جال بچھانا چاہتا ہوں اور یہ کہتے ہوئے اس نے پورے ہاتھ کھول کر پھیلائے تاکہ مجھے اس جال کی وسعت کا اندازہ ہو سکے‘‘۔ فاروق لغاری نے بات مکمل کر کے داد طلب نظروں سے سامنے بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا مگر کوئی ردّ عمل نہ پا کر خامو ش ہو گئے۔ مجلس کے اختتام پر یہ بات واضح ہو گئی کہ فاروق لغاری ، نواز شریف کی مخالفت میں یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ٹھوس ترقی کے سامنے الجھے ہوئے نظریات ماند پڑ جاتے ہیں۔ وہ یہ حقیقت نظر انداز کر رہے تھے کہ زمانے نے سیاست کو جاگیرداروں کی بیٹھکوں سے نکال کر گلی محلے میں لا پھینکا ہے۔ گلی محلے میں کام دیکھے جاتے ہیں، نظریات کی بحثیں اب عوام کی دلچسپی کھو چکی ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں سڑک، ائیر پورٹ اور ریلوے کو پہلی بار نواز شریف نے قومی موضوع بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں انہوں نے لاہور اسلام آباد موٹر وے پر کام شروع کر کے عوام کو احساس دلایا کہ دائیں بائیں کی نظریاتی بحثوں میں الجھنے کی بجائے حکومت کا اصل کام ملک کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے۔ ان کے دور میں گورننس کے نام سے لوگ آشنا ہوئے اور وہ حکومتوں کو اسی پیمانے پر جانچنے لگے۔ اسی ترازو پر پیپلز پارٹی کو بار بار تولا گیا تو وہ عبرت ناک انجام سے دوچار ہو گئی اور اسی بنیاد پر نواز شریف کو دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں عوام نے حکومت کے لیے منتخب کر لیا۔ اسی کسوٹی پر اب تحریک انصاف بھی پرکھی جائے گی اور آئندہ الیکشن میں فیصلہ ہو جائے گا کہ وہ ایک صوبے کی حکومت سے آگے بڑھ کر وفاقی حکومت کے قابل ہے یا نہیں۔ پاکستانی سیاست میں باقی رہ جانے والی سیاسی جماعتوں کو آئندہ بھی اسی معیار پر پورا اترنا ہو گا۔ سول فوجی تعلقات، نظریات، مذہب، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست ہر گزرتے دن کے ساتھ بے معنی ہوتی چلی جائے گی۔ ہر سیاستدان خود کو نظریاتی طور پر متوازن ثابت کرے گا تو آگے بڑھ پائے گا ورنہ گردِ راہ ہو جائے گا۔ بغیر کسی نظریاتی پس منظر کے نواز شریف نے تیس برس پہلے سیاست کو جو نیا رخ دیا تھا، آج ہر سیاسی جماعت کسی نظری بحث میں الجھے بغیر اسی
جہت میں آگے سے آگے بڑھنے کی دعوے دار ہے۔ حتیٰ کہ ان کی مخالف تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں انہی کے دریافت کردہ راستے پر غیر معمولی رفتار سے دوڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اگرچہ آصف علی زرداری کے بوجھ تلے دب کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے لیکن سند ھ میں اس کی حکومت مراد علی شاہ کی قیادت میں لشتم پشتم کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے ارادے ضرور ظاہر کرتی رہتی ہے۔ کچھ کرنے کے لیے عوام کا دباؤ ہی تو ہے جو آصف علی زرداری کو مجبور کیے دے رہا ہے کہ انہیں مراد علی شاہ جیسے تعلیم یافتہ اور کچھ کر دکھانے کی تمنا رکھنے والے شخص کو آئندہ انتخابات میں بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزد کرنا پڑا۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر کیا اچھی حکومت اور گڈ گورننس کا راستہ دکھانے والا نواز شریف آج خود بھی اسی راستے پر چل رہا ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت مشکل ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف عدالت سے نااہل قرار پانے کے بعد سمت کا احساس کھو کر بھٹکتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دل پر نااہلی کا زخم اتنا گہرا ہے کہ ملکی اور عالمی سیاست میں آنے والی ڈرامائی تبدیلیاں بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہیں۔ ہر گفتگو اور ہر جلسے میں اپنے ترقیاتی ایجنڈے کا ذکر ان کی دوسری ترجیح بن چکا ہے جبکہ عدلیہ کے فیصلے پر مسلسل تنقید اور اپنے بدعنوان نہ ہونے کی صفائیاں دیتے چلے جانے کو وہ نظریات سمجھ بیٹھے ہیں۔ ریاستی نظام پر ان کے زبانی حملے اتنے زیادہ
اور شدید ہو چکے ہیں کہ اقتدار میں ان کی واپسی‘ جو کچھ عرصہ پہلے تک آسان محسوس ہو رہی تھی، اب ناممکن لگنے لگی ہے۔ وہ رنج و غم کی ایسی کیفیت میں ڈوب گئے ہیں کہ جب پاکستان میں کوئی ناخوشگوار بات ہوتی ہے تو اسے وہ اپنے نکالے جانے سے جوڑ کر تسکین حاصل کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ حسرت و یاس کی اس کیفیت میں نواز شریف یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اپنی صفائیاں دے کر اور نظام پر تنقید کر کے وہ دراصل عمران خان کے سیاسی بیانیے کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی جماعت مسلم لیگ ن جو ڈیلیور کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر سیاسی حمایت کی طالب رہتی ہے‘ اب عمران خان کے ردّ عمل میں ایک بے ڈھنگے سے بیانیے کو آگے بڑھاتی نظر آ رہی ہے۔ نواز شریف اپنی ذات کے دکھ میں ڈوب کر یہ بھی نظر انداز کیے ہوئے ہیں کہ لمحۂ موجود میں پاکستان کی سیاست کا ایک حصہ عوامی حمایت ہے تو دوسرا حصہ نظر نہ آنے والے طاقت کے مراکز سے متعلق ہے۔ پاکستانی سیاست میں وہی مقتدر ہو سکتا ہے جو ان دونوں میں توازن قائم کر سکے۔ آصف علی زرداری سیاست کے اس پوشیدہ حصے کو سدھارنے میں ایسے الجھے کہ عوامی حمایت کھو کر اقتدار سے باہر نکل گئے۔ نواز شریف عوامی حمایت کے زعم میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ نظام ریاست کو نظر انداز کرنے کی غلطی کر بیٹھے۔ اپنی نااہلی سے سیاسی طور پر نمٹتے ہوئے وہ دو غلطیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، ایک تو نظام پر دھمکی آمیز تنقید اور دوسری تعمیر و ترقی کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی دوسری ترجیح بنا دینا۔ پہلی غلطی کی وجہ سے بلوچستان میں ان کی حکومت کے خلاف اپنی ہی جماعت کے اندر سے کارروائی شروع ہو گئی اور دوسری غلطی کی وجہ سے ان کی جماعت محض تحریک انصاف کے خلاف بیان بازی تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کی سیاست میں یہ رجحانات جاری رہتے ہیں تو پھر اسے سوائے پاکستان کی بدقسمتی کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیاسی جماعت جس نے ملک میں گورننس بہتر سے بہتر بنانے کا صحت مند مقابلہ شروع کیا، اب اس سے دستبردار ہو کر ایسی راہ اختیار کر رہی ہے جس پر چلنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ملا۔