سترہ برس ہوتے ہیں‘ میں کراچی میں ایک نیوز ایجنسی میں نو آموز رپورٹر تھا، جسے ہر وہ کام سونپ دیا جاتا تھا جو سینئرز کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اس لیے صبح سویرے ڈیسک پر مغز ماری ہوتی تو دوپہرسے رات تک‘ سڑکو ں پر ایک تقریب سے دوسری تقریب کی طرف بھاگتا رہتا۔ انہیں دنوں میں سے کوئی ایک دن تھا کہ میں دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ فاروق عادل صاحب کا میرے لیے فون آیا تھا۔ ٹیلیفون آپریٹر نے یہ بات باآواز بلند کہی تھی‘ اس لیے دفتر میں موجود دیگر ساتھیوں نے بھی سن لی تھی۔ فاروق عادل چونکہ اس زمانے میںایک ہفت روزہ کے ایڈیٹر تھے اور میرے جیسے جونیئر سے ان کا یہ تعلق کہ مجھے فون کریں‘ ذرا عجیب سی بات تھی۔ اس لیے میرے تمام ساتھیوں نے رشک بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اور ایک آدھ نے مجھے سے براہ راست پوچھ ہی لیا ''تم فاروق عادل کو کیسے جانتے ہو؟‘‘۔ میں طارق کلیم اور نعیم اختر خان مرحوم کا حوالہ دیتا تو بات لمبی ہوجاتی اس لیے یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ''سرگودھا نیٹ ورک‘‘ کی وجہ سے وہ مجھے جانتے ہیں۔ خیر میں نے کچھ دیر بعد جوابی فون کیا تو بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ شام سات بجے ان کے پاس پہنچ جاؤں۔ میں حسبِ حکم ان کے دفتر پہنچا تو میری صحافتی کارگزاریاں جاننے کے لیے سوال کرتے رہے۔ جب انہیں خوب اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ میں ڈھنگ کا کوئی کام نہیں کر رہا تو اچانک پوچھا ''آپ مضمون لکھ سکتے ہیں؟‘‘۔ عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باوجود مجھ پر ان کی بزرگانہ فضیلت کا نقش اتنا گہرا تھا کہ میں سوال کا جواب اثبات میں دینے کے کچھ اور کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ میرا جواب سن کر فرمایا ''افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ایک مضمون لکھ دیجیے‘‘۔ میں نے دو دن کا وقت مانگا تو ذرا سے غصے سے بولے ''ابھی لکھنا ہے‘‘۔ میں سر جھکا کر دفتر کے ایک دوسرے کمرے میں چلا گیا اور مضمون لکھنا شروع کر دیا۔
جیسے تیسے مضمون لکھا اور ان کے حوالے کرکے دفتر سے نکلا توحبسِ بے جا سے رہائی کا سا احساس ہوا۔ دو دن بعد وہ مضمون جب رسالے میں چھپا اور دو چار لوگوں نے پڑھ کر رسید بھی دے دی تو حبسِ بے کا احساس تو جاتا رہا مگر ایڈیٹر صاحب کی ''بزرگی‘‘ دوستی کے راستے میں چٹان بن گئی، اس لیے میں انہیں بزرگ اور وہ مجھے خورد سمجھ کر ہی مطمئن ہو گئے۔ دوستی کی رمق کئی سال بعد اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے اپنا سفر نامۂ امریکا لکھا۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب میں مَیں نے امریکا کی رعایت سے کچھ فقرے بازی برسرِ مجلس کی تو ان کو ہنستے ہوئے دیکھ کر بے تکلفی کا حوصلہ ہوا۔ اس تقریب کے بعد دوستوں کی نشست میں بات آگے بڑھی اور میں ان کے دوستوں میں شامل ہو گیا لیکن مجھ پر ان کی بزرگی کا تاثر قائم ہی رہا۔ یہ احساس مجھے کچھ عرصہ بعد میں ہوا کہ فاروق عادل کی بزرگی ان کا اور میرا درمیانی معاملہ نہیں ہے بلکہ‘ حقیقت میں یہ ان کی شخصیت کا لازمی جزو ہے اور تنہا میں ہی اس کا شکار نہیں بلکہ ان کے بے تکلف ترین دوست بھی اس بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔
کتابوں میں بہت سے وضعدار بزرگوں کے بارے میں پڑھا ہے کہ کسی منفی بات کو کھول کر یا کھل کر بیان نہیں کرتے تھے‘ بس اشارہ کر دیتے اور نوجوان نسل سب کچھ سمجھ جاتی۔ اپنی آنکھوں سے تو بس فاروق عادل کو دیکھا ہے کہ کسی کے بارے میں منفی بات کھول کر بیان نہیں کرتے، اشارہ کر دیتے ہیں، اگر بات سمجھ نہ آئے تو ساتھ ہلکا سا ٹہوکا بھی دے دیتے ہیں، حکایت لذیذ ہو تو بچ بچا کر وضاحت کے لیے آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اپنی زبان آلودہ ہونے دیتے ہیں نہ قلم۔
جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان کی تازہ کتاب ''جو صورت نظر آئی‘‘ کو لیجیے۔ شخصی خاکوں کی اس کتاب میں پینتیس افراد کاذکر ہے۔ سب کے سب نامور اور زندگی کو اپنی مرضی کا رخ دینے کے لیے بدنام۔ ایسے لوگوں کی شخصیت عام طور پر پیچ در پیچ ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں میں کہیں جاہ پسندی نظریے کے روپ میں ڈھل جاتی ہے، کہیں خدمت کی تہہ میں حکومت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، کبھی خوف بہادری کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کبھی ہوس عشق کے روپ میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خاکے لکھنے میں اصل مہارت یہی ہوتی ہے کہ نظر آنے والے رنگ و روغن کو کھرچ کر اصل شکل میں بندہ سامنے آ جائے۔ اس کتاب میں شامل تمام لوگ وہ ہیں‘ جن سے انہوں نے بطور صحافی ملاقاتیں کی ہیں اور لگتا ہے کہ ہر شخص کی دو تصویریں کھینچی ہیں، ایک بنا سنوار کر اور دوسری ایکسرے‘ جس میں صاحبِ موصوف کی ہڈیا ں تک دکھائی دے رہی ہیں۔ پہلی تصویر پر تو فاروق بھائی نے زیادہ زور نہیں دیا البتہ ایکسرے کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا ہے مگر یہ خیال بھی رکھا ہے کہ ایکسرے دکھاتے ہوئے اس کا ننگا پن دکھائی نہ دے البتہ پڑھنے والے کی سمجھ میں ضرور آ جائے کہ وہ کیا بات ہے‘ جو نہیں کہی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ صحافی کے طور پر وہ چاہتے ہیں کہ بات کھول کر بیان کر دی جائے مگر ان کے اندر بیٹھا وضعدار بزرگ انہیں روک‘ روک لیتا ہے اس لیے وہ ان بزرگ سے بچ کر ٹہوکا ضرور دے دیتے ہیں اور بوقتِ ضرورت آنکھ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور یہ بزرگ کون ہے، اس کا راز اسی کتاب سے کھلا ہے۔
یہ بزرگ وہی ہیں‘ جن کے نام ''جو صورت نظر آئی‘‘ کا انتساب ہے یعنی ان کے والد۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انتساب محض رسمی نہیں بلکہ اس کا مواد سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ اس کتاب میں شامل کئی شخصیات ایسی ہیں جن سے ان کا پہلا تعارف ان کے والد کے ذریعے ہوا پھر بطور صحافی۔ بچپن میں والد صاحب نے جس شخص کی تعریف کر ڈالی وہ فاروق عادل کو بھی محبوب ہو گیا، جہاں انہوں نے کسی شخص کے بارے میں رمزیہ بات کی فاروق عادل پا گئے اور محتاط ہوگئے۔ کئی جگہ تو محسوس ہوتا ہے کہ جھنگ کے ایک دور افتادہ قصبے میں بیٹھ کر حکیم غلام حسین نے جس شخص کے بارے میں ایک جملہ کہہ دیا‘ ننھے فاروق عادل نے اسے پلے باندھ لیا۔ پھر زندگی نے موقع دیا اور وہ شخص مل گیا تو انہوں نے اس جملے کی کسوٹی پر رگڑ کر دیکھ لیا۔ کھرا نکلا تو خوب، کھوٹا نکلا تو کباڑ میں پھینک کر لاپروائی سے چل نکلے۔ وہ لوگ جن کے بارے میں حکیم غلام حسین کچھ نہیں کہہ سکے‘ ان کو دیکھا تو فرض کیاکہ اگر ''ابا جی‘‘ سے ملتے تو ان کی رائے کیا ہوتی۔ پھر جو رائے بنی‘ بڑے آرام سے اسی پر جم گئے۔ ایک صحافی کے لیے حرام ہے کہ واقعات پر وہ کسی دوسرے کی رائے کا پابند ہو جائے، ایک فرمانبردار بیٹے کے لیے باپ کی رائے آخری دلیل ہے۔ فاروق عادل نے بڑا صحافی ہو کر بھی فخریہ انداز میں اپنے والد کی عینک سے دنیا کو دیکھا ہے اور دوسروں کو دکھا کر ثابت کر دیا ہے کہ اس عینک سے اب بھی سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔