''میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اگر عام انتخابات بروقت نہ ہوئے تو دنیا بھر میں پاکستان کو جو تھوڑی بہت عزت گزشتہ دس برسوں کی جمہوریت کے نتیجے میں ملی، جاتی رہے گی‘‘ ، یہ کہہ کر وہ مغربی سفارتکار ایک لمحے کے لیے رکا، اپنے اردگرد بیٹھے صحافیوں پر ایک نظر ڈالی اور گلا صاف کرکے پھر بولا، ''میں پاکستان میں موجود دوسرے ملکوں کے تمام سفارتکاروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی بھی دوست ملک انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتا‘‘۔ اس کی بات مکمل ہوئی تو ہم چند صحافی‘ جو اس کے ساتھ بیٹھے تھے، خاموش ہو گئے۔ اس کا خیال (معلومات!) تھا کہ حلقہ بندیوں پر ہونے والے اعتراضات کی بنیاد پر الیکشن میں تاخیر کی باتوں میں کچھ نہ کچھ صداقت تو ضرور ہے مگر دنیا جاننا چاہے گی کہ اس تاخیر کی دستوری یا قانونی بنیاد کیا ہے۔ اس کی بات سن کر میرِ مجلس اور پاکستان کی تاریخ کے ایک عینی شاہد صحافی بول اٹھے، ''وجہ کچھ بھی ہو لیکن الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی اگر قبول کر لی گئی تو پھر اس کے وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ فیصلہ‘ انتخابات کے وقت کا فیصلہ، کسی دستوری، عدالتی یا سیاسی طاقت کے پاس نہیں رہے گا‘‘۔ پاکستانی سیاست کے مزاج شناس احمد بلال محبوب بھی وہیں موجود تھے، کہا، ''حلقہ بندیوں پر سیاستدانوں کے اعتراضات نہ صرف بودے ہیں بلکہ کسی حد تک بدنیتی پر محمول کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ہر حلقے میں آبادی کا برابر ہونے کا تصور بظاہر تو ٹھیک لگتا ہے مگر عملاً دنیا کے کسی ملک میں بھی ایسا نہیں ہے‘‘۔
حلقہ بندیوں پر اعتراضات دراصل افواہوں کے اس جھکڑ کا حصہ ہیں‘ جو آئندہ عام انتخابات کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کی عدالت سے نااہلی کے بعد کبھی سینیٹ کے الیکشن نہ ہونے کی خبر آ جاتی ہے تو کبھی ٹیکنوکریٹس پر مبنی حکومت کی نوید سنائی جاتی ہے۔ کوئی عدالتی مارشل لاء کی گھنٹی بجاتا سامنے آتا ہے تو کوئی اپنے 'کشف و الہام‘ کے زور پر ساٹھ روزہ نگران حکومت کی عمر بڑھا کر تین سال بتاتا ہے۔ اسی طرح جب تک حلقہ بندیوں کے حوالے سے دستوری ترمیم منظور نہیں ہوئی تھی تو یہ بھی الیکشن کے التوا کا ایک بہانہ تھی، دستوری ترمیم منظور ہو گئی، اس کے مطابق حلقہ بندیاں ہو گئیں تو اب ان پر بے سروپا اعتراضات عام انتخابات کے التوا کا جواز بنا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طریقے سے جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے والے سارے لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طریقے سے نئے سرے سے حلقہ بندیوں کا قانونی حکم حاصل کر لیا جائے گا‘ اور یوں انتخابات وقتی طور پر ہی سہی ٹل جائیں گے۔ ن لیگ کے دانیال عزیز سے لے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی تک جتنے بھی لوگ حلقہ بندیوں پر اعتراض فرما رہے ہیں وہ اپنی فقرے بازی اور چرب زبانی سے سوائے عوام کو گمراہ کرنے کے کچھ نہیں کر رہے۔ یہ لوگ مختلف حلقوں کی آبادی میں فرق کو بنیاد بنا کر وہ بحث چھیڑنے کی کوشش میں ہیں جو پارلیمانی جمہوری نظام رکھنے والے کسی بھی ملک میں سرے سے ہو ہی نہیں سکتی۔
ان لوگوں کا استدلال ہے کہ چترال میں اگر ساڑھے چار لاکھ آبادی پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہے تو کسی دوسری جگہ گیارہ لاکھ آبادی ایک حلقے میں رہتی ہے۔ بظاہر اس اعتراض میں جان بھی نظر آتی ہے لیکن پارلیمانی جمہوریت کی ماں کہلانے والے ملک برطانیہ کے حلقوں پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے تو اس اعتراض کا کچا پن کھل جاتا ہے۔ دو ہزار پندرہ میں ہونے والے انتخابات میں برطانیہ عظمیٰ کے ایک حلقے میں ایک لاکھ دس ہزار ووٹر تھے تو ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد صرف اکیس ہزار تھی یعنی سب سے بڑا حلقہ سب سے چھوٹے حلقے سے پانچ گنا بڑا تھا۔ بھارتی پارلیمنٹ (لوک سبھا) کے سب سے بڑے حلقے میں ووٹروں کی تعداد انتیس لاکھ تریپن ہزار ہے جبکہ سب سے چھوٹے حلقے میں یہ تعداد صرف اڑتالیس ہزار ہے یعنی سب سے بڑا حلقہ سب سے چھوٹے حلقے سے پینتالیس گنا زیادہ ووٹر رکھتا ہے۔ اسی طرح امریکی کانگریس کے حلقے دیکھیں تو وہاں سب سے چھوٹا حلقہ پانچ لاکھ آبادی والا ہے‘ اور سب سے بڑا حلقہ گیارہ لاکھ آبادی رکھتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ چھوٹا حلقہ ایک پوری امریکی ریاست پر پھیلا ہوا ہے۔ کینیڈا میں دیکھ لیں کہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق پارلیمنٹ کا ایک حلقہ اگر چھبیس ہزار ووٹروں پر مشتمل ہے تو دوسرا اس سے چھ گنا بڑا یعنی ڈیڑھ لاکھ ووٹروں سے بھرا ہوا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کی موجودہ حلقہ بندیوں کو دیکھیں تو قومی اسمبلی کے دو سو بہتر حلقوں میں صرف تین یعنی چترال (این اے 1)، بٹگرام (این اے 12) اور ٹانک (این اے 37) ہیں‘جہاں آبادی پانچ لاکھ سے کم ہے اور ایک حلقہ بنوں (این اے 35) ہے جہاں کی آبادی ساڑھے گیارہ لاکھ ہے۔ یعنی کوئی حلقہ ایسا نہیں جو سب سے چھوٹے حلقے سے پانچ چھ یا سات گنا بڑا ہو۔ یہ تین چھوٹے حلقے بھی یونہی چھوٹے نہیں ہیں بلکہ ایک طے شدہ اصول کے مطابق ہیں‘ یعنی یہ تمام حلقے پورے پورے ضلعے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دستور کے مطابق ہر صوبے کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں مخصوص ہیں یعنی کچھ حلقوں میں اگر فرق نکل بھی آتا ہے تو اس صوبے کی نشستوں کی تعداد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی جن اصولوں کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے یہ حلقہ بندیاں کی ہیں‘ اگر انہیں صاف نیتی سے دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بہتر حلقہ بندی خواب و خیال میں تو ہو سکتی ہے، حقیقت میں نہیں۔ اور اگر ان لوگوں کو دیکھ لیا جائے جو حلق پھاڑ پھاڑ کر ان حلقوں پر اعتراض کر رہے ہیں تو ان میں تین قسم کے لوگ نظر آتے ہیں؛ اوّل وہ جو کبھی اپنے حلقوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران گئے ہی نہیں۔مثلاً ڈاکٹر عارف علوی یا جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ‘ دوسرے وہ جن کے حلقے ختم ہو چکے ہیں‘ جیسے دانیال عزیز‘ اور تیسرے وہ جنہیں اچھی طرح علم ہے کہ انہیں اب وزارت کسی غیر جمہوری بندوبست میں ہی مل سکتی ہے یعنی شیخ رشید اور مسلم لیگ ق کے پسماندگان۔ یہ تینوں اقسام کے لوگ ٹی وی پر آ کر یوں شور مچاتے ہیں گویا حلقہ بندیوں کے بارے میں سوائے ان کے کوئی جانتا ہی نہیں۔ ان کے سیاپے کے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ کسی طریقے سے الیکشن تو نہ ہو مگر انہیں حکومت میں رہنے کا موقع مل جائے۔ یہ معصوم اور سادہ لوح اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر الیکشن کے بغیر کوئی حکومت بنی تو اس میں بھی ان کی کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ یہ اپنے اپنے کشکول لے کر غلام گردشوں میں ہی پھرتے رہیں گے۔
حلقہ بندیوں پر شور مچانے والوں میں سے کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں چلا گیا تو شاید ان کا کام بن جائے اور الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز بن جائے۔ شاید ان لوگوں کو کسی نے بتایا نہیں کہ آئین کے مطابق حلقہ بندیوں کے معاملے میں الیکشن کمیشن خود مختار ہے اور جب ایک بار حلقہ بندیاں ہو جائیں تو ان پر اعتراضات بھی الیکشن کمیشن ہی سنے گا۔ اعلیٰ عدالتوں میں اگر کوئی معاملہ گیا بھی تو وہ زیادہ سے زیادہ قانون کی تشریح سے متعلق ہو سکتا ہے، اور اس معاملے میں بھی دستور کے آرٹیکل دو سو بیس اور دو سو چوبیس واضح ہیں جو ہر ادارے کو پابند کرتے ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کے تابع ہو کر بروقت الیکشن یقینی بنائے۔ دستور کے مطابق اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو اکتیس جولائی تک الیکشن ہونا ضروری ہیں‘ اور ایک دن پہلے اسمبلی توڑ دی جائے تو بات تیس اگست تک چلی جائے گی، ان تاریخوں سے اگر ایک دن بھی الیکشن آگے جاتا ہے تو یہ آئین شکنی ہو گی جس کی سزا واضح طور پر آرٹیکل چھ میں درج ہے۔