ہم ایک ایسے شہر میں داخل ہوئے جہاں راستے گندگی سے اٹے ہوئے تھے۔ از کارِ رفتہ گدھا گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھیں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ ان میں زیادہ مصیبت زدہ کون ہے؛ وہ گدھا جو گاڑی کو کھینچ رہا ہے یا وہ گاڑی بان جس کا ننگا بدن اس کے بھوکا ہونے کا ثبوت تھا۔ ان لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے ہمارا ڈرائیور ایک موڑ مڑا تو ایسی گلی میں جا نکلا‘ جس کے دونوں طرف گندی نالیاں بہہ رہی تھیں۔ اس گلی سے آگے ایک ٹوٹی ہوئی سڑک ہماری منتظر تھی‘ جس کے بارے میں گمان ہوا کہ اسے نیا بنانے کے لیے توڑا گیا ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی سڑک پر ایک عمارت میں ہمارا راہبر موجود تھا جس نے ہمیں اس شہر کے مرکزی مقام تک لے جانا تھا۔ اس نے گاڑی پر جانے کی بجائے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلچلاتی دھوپ میں ایک بار پھر انہیں گلیوں میں گھس گئے‘ جہاں سے نکل کر آئے تھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد جب سر سے نکلنے والا پسینہ جوتوں تک آن پہنچا تو راہبر ایک چوک پر رک گیا اور ہماری طرف دیکھ کر بولا، ''یہ پاکستان چوک ہے‘‘۔ جس شہر میں ہماری تین رکنی ٹیم پہنچی تھی یہ اس کا مرکزی مقام تھا اور اس شہر کو لاڑکانہ کہتے ہیں۔ جی ہاں، یہ وہی شہر ہے جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو کا خمیر اٹھا، یہیں سے ووٹ لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں، انہی باپ بیٹی کی قبروں کی مٹی کے صدقے آصف علی زرداری اس ملک کے صدر بنے، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے، قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے اور اب بلاول بھٹو زرداری ان قبروں کا وارث بن کر ملکی سیاست میں اپنا راستہ بنا رہا ہے۔ یہ وہی شہر ہے‘ جس نے آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کو بھٹو کے نام پر منتخب کیا‘ اور سندھ کی طاقتور ترین ہستی بنا دیا۔
میں پاکستان چوک پر کھڑا دل ہی دل میں اس شہر کا نوحہ پڑھ رہا تھا کہ ہماری ٹیم کے کپتان علی جان نے میرے ہاتھ میں مائیک تھما دیا کہ بھٹو کے شہر میں رہنے والوں سے پوچھوں کہ کیا آج بھی بھٹو تمہارے دلوں میں زندہ ہے یا اس کی یاد بھی شہر میں اڑتی گرد تلے دب چلی ہے۔ میں نے مائیک لے کر پاس سے گزرتے ایک نوجوان کے سامنے کر دیا۔ وہ تو بھرا بیٹھا تھا۔ ایک ایک سڑک اور ایک ایک محلے کا نام لے کر اس کی حالت زار بتانے لگا۔ وہ سانس لینے کو رکا تو میں نے پوچھا: کیا خیال ہے لاڑکانہ سے پیپلز پارٹی جیت جائے گی۔ وہ ایک لمحے کے بعد بولا، ''یہ بے نظیر بھٹو کا گھر ہے اس کا بیٹا اپنے گھر سے کیسے ہار سکتا ہے، بس ہماری اتنی سی خواہش ضرور ہے کہ بلاول اپنی ماں اور نانا کی طرح اس شہر کی گلیوں میں خود گھوم کر دیکھے کہ اس کا گھر اور گھر والے کس حال میں ہیں‘‘۔ ہماری باتوں کے دوران ایک بزرگ پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے کچھ کہے بغیر مائیک ان کے سامنے کیا تو سڑک کے دوسری طرف سموسوں پکوڑوں کی چھوٹی سی دکان کی طرف اشارہ کر کے بولے، ''جب شہید رانی کارساز کراچی کے حملے سے بچ کر لاڑکانہ آئی تو اس نے اس دکان پر کھڑے ہو کر خود بھی سموسے کھائے اور ہم لوگوں کو بھی کھلائے تھے‘‘۔ ایک اور صاحب جو یہ بات سن رہے تھے، خود پر قابو نہ رکھ پائے، تقریباً روتی ہوئی آواز میں کہا، ''میں نے اپنی آنکھوں سے بھٹو شہید کو ان سڑکوں پر گھومتے دیکھا ہے، وہ جب لاڑکانہ آتے تو ان کے گھر کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے تھے۔ پھر بے نظیر بھٹو یہاں آتیں تو ہم ان سے یوں ملتے جیسے ایک ہی گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ نوڈیرو ہاؤس کے گرد اتنی اونچی دیواریں کھڑی ہو چکی ہیں کہ ہماری آواز بھی اندر نہیں پہنچ سکتی۔ پھر ہم ہی کیا وہاں تو قائم علی شاہ کی گاڑی بھی تلاشی کے بغیر اندر نہیں جا سکتی۔ یہ ہماری پارٹی نہیں، یہ زرداری کی پارٹی ہے، اب ہمارا بیٹا بلاول آ گیا ہے، دیکھیں وہ ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے‘‘۔ میں اس چوک سے آگے بڑھا کہ کچھ اور لوگوں سے بات کروں تو پیچھے سے ایک نوجوان سے آواز دے کر طنزیہ انداز میں کہا، ''حبیب بھائی اگر بلاول سے ملو تو اسے کہہ دینا‘ لاڑکانہ والے نواب شاہ بھی جاتے ہیں‘‘۔
اس نوجوان کی بات میں چھپے طنز کو سمجھنے کے لیے آپ کو نواب شاہ دیکھنا ہو گا۔ یہ آصف علی زرداری کا شہر ہے اور یہاں سے ان کی دوسری بہن عذرا فضل پچیہو قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں آصف علی زرداری خود یہاں سے امیدوار ہوں گے۔ اس شہر کی تمام سڑکیں نئی بنی معلوم ہوئی ہیں اور ان کے کنارے پودے دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ ان کی دیکھ بھال کو کوئی نظام یہاں موجود ہے۔ سیوریج کا نظام ٹھیک کام کر رہا ہے۔ صحت کی سہولیات بہترین نہیں تو مناسب ضرور ہیں۔ شہر میں کئی یونیورسٹیوں نے اپنے کیمپس بنا رکھے ہیں۔ لاڑکانہ کے مقابلے میں دیکھیں تو نواب شاہ واقعی ایک شہر لگتا ہے۔ بھٹو کا شہر تباہی کی ایک کہانی ہے اور آصف علی زرداری کا شہر ترقی کی داستان۔ یہ وہ پیغام تھا جو لاڑکانہ کا نوجوان میرے ذریعے بلاول بھٹو تک پہنچانا چاہتا تھا۔ تنہا اسی نوجوان نے ہی یہ بات نہیں کہی، لاڑکانہ کے کئی لوگوں نے اشاروں کنایوں میں کہا کہ لاڑکانہ کی تباہی کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ ایک دل جلا تو بول اٹھا، ''ہمیں بھٹو، بے نظیر اور بلاول سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے‘‘۔ ایک نے کہا: لاڑکانہ والوں کا یہ جرم ضرور ہے کہ فریال تالپور کو انہوں نے منتخب کیا ہے‘ مگر فریال بی بی سوائے چار اپریل اور ستائیس دسمبر کے کبھی لاڑکانہ والوں سے ملی تک نہیں۔
نواب شاہ کی طرح سید قائم علی شاہ کا شہر خیرپور دیکھ لیجیے۔ اس شہر کی ہر اینٹ پر سید قائم علی شاہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ اس شہر میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ لاہور میں ہی ہیں۔ بہترین سڑکیں، بہترین یونیورسٹیاں اور ضرورت سے کہیں زیادہ بڑے فلائی اوور۔ قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اپنے شہر کے بارے میں اتنے حساس تھے کہ جو بھی کوئی بڑا منصوبہ صوبے میں بنانے کی بات ہوتی تو وہ اپنے عاجزانہ انداز میں اسے خیر پور کے لیے مختص کر لیتے۔ کبھی سڑکوں کی حالت سدھارنے کا پروگرام شروع ہوتا تو انہیں خیر پور کی کوئی نہ کوئی سڑک یاد آ جاتی۔ یہ سندھ کا واحد شہر ہے جہاں بہت کم تجاوزات نظر آتی ہیں اسی لیے راستے کشادہ ہیں اور مزید کھلے کیے جا رہے ہیں۔ یہ شہر بتاتا ہے کہ اگر ایک وزیر اعلیٰ اپنے شہر کو تعمیر کرنے کا عزم کر لے تو وہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فریال تالپور کیا قائم علی شاہ سے بھی کمزور تھیں‘ جو لاڑکانہ کے لیے کچھ نہ کر سکیں؟
عام تاثر کے برعکس سندھ بھر کے شہروں نے پچھلے دس برسوں میں کچھ نہ کچھ ترقی کی ہے جو نظر بھی آتی ہے اور لوگ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ مگر بھٹو کے شہر میں ترقی کی رفتار دم توڑ جاتی ہے۔ اربوں روپے کاغذوں میں اس کے لیے مختص کیے گئے مگر زمین پر شاید ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ بلاول نے جب بھی لاڑکانہ کی ترقی کا حکم دیا تو ان کے سامنے رنگ برنگی پریزینٹیشنوں کا انبار لگا دیا گیا، آؤٹر (outer) لاڑکانہ اور انر (inner) لاڑکانہ کی بے معنی اصطلاحات کے ذریعے انہیں گمراہ کیا گیا۔ کئی منصوبے اور کئی ادارے بنے مگر ان سب نے سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کے طفیل ''شہرِ جمہوریت‘‘ کے طور پر پہچانا جانے والا لاڑکانہ شہر فی الحال تو پیپلز پارٹی کی نالائقی کی ایسی مثال ہے‘ جو ملک بھر کے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس شہر کی بربادی میں ہی پیپلز پارٹی کی بربادی کا راز چھپا ہے۔ اگر آج بھی بلاول اس شہر کی گلیوں میں اتر پڑے تو حالات بدل جائیں گے، لاڑکانہ کے بھی اور ملک کے بھی۔