پچھلے سال اکتوبر میں جب وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی الیکشن اصلاحات کو قانونی شکل دینے میں مصروف تھی تو سینیٹر محسن لغاری نے اس کمیٹی میں جا کر درخواست کی کہ انہیں وہ نئے کاغذات نامزدگی دکھائے جائیں جو اس کمیٹی نے بنائے ہیں۔ محسن لغاری کی درخواست کو ٹالا جاتا رہا‘ یہاں تک کہ الیکشن اصلاحات کا بل ''الیکشن ایکٹ 2018ئ‘‘ کے عنوان سے پارلیمنٹ میں چلا گیا‘ جہاں پارلیمنٹ کے تمام معزز اراکین نے بغیر کسی رد و قدح کے اسے منظور کر لیا۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارلیمانی کمیٹی کو خط لکھا کہ دستور کے آرٹیکل دو سو اٹھارہ اور دو سو انیس کے مطابق انتخابات لڑنے کے امیدواروں کے لیے کاغذات نامزدگی مرتب کرنا دستور کے مطابق الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ دستور میں ترمیم کیے بغیر کمیشن کے اختیار کو محدود نہیں کر سکتی۔ زاہد حامد کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ انیس سو تہتر کے دستور کے نفاذ کے بعد ہر الیکشن میں کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں ہی بنتے رہے ہیں۔ محسن لغاری کی درخواست کی طرح اس خط کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ جب زاہد حامد کے خیالات عالیہ پر مبنی یہ بل پاس ہو گیا اور اس میں وہ تمام رعایات الیکشن لڑنے والوں کو دے دی گئیں جن کی خواہش کوئی جرائم پیشہ شخص کر سکتا ہے تو خاکسار نے اس قانون پر آواز اٹھائی۔ دنیا ٹی وی کے پروگرامز میں بھی اور روزنامہ دنیا کے صفحات پر بھی۔ اس حوالے سے ایک کالم پچھلے سال 22 نومبر کو اسی اخبار میں لکھا جس میں ان کاغذات نامزدگی کے ذریعے ڈالی جانے والی واردات بیان کی۔
خیال تھا کہ ٹی وی اور اخبار پر شور مچانے سے کوئی سیاسی جماعت اس طرف متوجہ ہو گی اور معاملہ سلجھا لے گی۔ ذاتی طور پر بھی کچھ سیاستدان دوستوں کی توجہ ادھر دلائی تو ان کا کہنا تھا ، ''یار پہلے والا فارم بھرنا بہت مشکل ہے، اس کے لیے بہت کچھ بتانا پڑتا ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ میں یہ باتیں سنتا رہا اور خاموش رہا لیکن ایک پاکستانی کے طور پر دل جلتا رہا کہ ساری زندگی خود احتسابی میں گزارنے والے عوام کے نمائندوں سے کیا اب ان کے ذریعہ معاش اور اثاثے بھی نہیں پوچھے جا سکتے؟ کیا ہمیں یہ حق بھی نہیں کسی کو حکمران بنانے سے پہلے اس کے بارے میں اتنا ہی جان سکیں جتنا کسی چوکیدار کی تقرری کے لیے ضروری ہے؟ کیا ہم خون پسینے سے اکٹھے کیے جانے والے خزانے کی کنجیاں ایسے لوگوں کو دے دیں جو اپنے تن کے کپڑوں کا بھی حساب نہیں دے سکتے؟ جن اشخاص کو ہم نے اپنے ایٹمی اثاثے سونپنے ہیں ، کیا ان کے بارے میں ہمیں یہ جاننے کا حق بھی نہیں کہ ماضی میں وہ کسی جرم میں ملوث تو نہیں رہے؟ پاکستان کے بچوں کی تعلیم کی ذمے داری جس شخص نے اٹھانی ہے ، اس کے بارے میں ہمارا یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے کہ بھائی تم نے کتنے سال مدرسے، سکول ، کالج یا یونیورسٹی میں گزارے؟
یقین کیجیے صحافی موٹی کھال کا ہوتا ہے۔ حالات کی تندی تیزی اس پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی مگر ان سوالات نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں صحافت کا عمامہ اتار کر ایک عام درخواست گزار کی حیثیت سے عدالت میں جا کر کھڑا ہو جاؤں اور ان سوالات کا جواب دستور کی روشنی میں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ میں نے سعد رسول ایڈووکیٹ کے سامنے یہ سوال رکھے اور درخواست کی کہ ان کے جواب مجھے عدالت سے لینے میں مدد کریں۔ سعد رسول جتنا بڑا وکیل ہے اس سے کہیں بڑا آدمی ہے۔ اسے بھی یہ سوال اتنا ہی ستا رہے تھے جتنا مجھے۔ اس نے کچھ دن کی مہلت مانگی اور چھ مہینے پہلے یعنی دسمبر 2017ء میں میری گزارشات کو پٹیشن کی شکل میں لاہور ہائیکورٹ میں پیش کر دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پٹیشن کو ہرگز ٹی وی پر بحث کا موضوع نہیں بنائیں گے اور نہ ہی میں (درخواست گزار) غیر ضروری طور پر عدالت میں حاضری دوں گا۔ ہم نے عام آدمی کی طرح عام سے انداز میں اس درخواست کو عدالت کے سامنے رکھا ، کوئی شور نہیں مچایا ، کوئی خبر نہیں چھاپی۔ جب یہ درخواست دائر کی گئی تو اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ اس کے مندرجات کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے اسے اپنی عدالت میں ہی سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔ شاید دو سماعتیں ہوئی تھیں کہ انہیں سپریم کورٹ بلا لیا گیا اور یہ درخواست نئے چیف جسٹس کی میز پر آ گئی۔ انہوں نے اس میں اٹھائے گئے قانونی و دستوری نکات کو سامنے رکھتے ہوئے جسٹس عائشہ اے ملک کے سامنے لگا دیا۔ انہی کے سامنے وفاقی حکومت کے وکیل نے لیت و لعل کی، اسی عدالت میں الیکشن کمیشن کے نمائندے نے ہمارے موقف کی تائید کی اور جج صاحبہ نے کمال دلیر ی سے یہ فیصلہ سنا دیا کہ آئندہ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی میں الیکشن کمیشن اپنے اختیار کے تحت امیدوار کے ذریعۂ روزگار، فوجداری مقدمات کے ریکاڈ اور اثاثوں کی وہ ضروری تفصیلات طلب کرے جو نئے کاغذات سے نکال دی گئی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کے ووٹر کا حق ہے کہ وہ جس شخص کو ووٹ دینا چاہے اس کے مالی و قانونی معاملات کے بارے میں پوری طرح معلومات حاصل کر سکے ۔ فیصلے کے یہ دو نکات خالصتاً جمہوری اقدار اور دستوری تشریحات کی روشنی میں دیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن‘ جو اس پٹیشن میں دیے گئے نکات سے متفق تھا، پارلیمنٹ کے تجویز کردہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ اضافی صفحہ لگا کر انہیں جاری کر دیتا تاکہ الیکشن شیڈول متاثر نہ ہوتا مگر اس نے عدالتی حکم کا اتباع کرنے کی بجائے ''رہنمائی‘‘ کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے پیٹ میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کا مروڑ اٹھا اور وہ سپریم کورٹ یہ کہنے پہنچ گئے کہ ہائیکورٹ کی جج صاحبہ پارلیمنٹ کا قانون کالعدم قرار نہیں دے سکتیں، حالانکہ جج صاحبہ نے قانون کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں، صرف الیکشن کمیشن کو اس کے دستوری اختیارات یاد دلائے ہیں۔ نگران وزیر اعظم صاحب نے فوری طور پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کر دی کہ اس ''خطرناک‘‘ فیصلے کے خلاف اپیل کریں۔
عام انتخابات میں امیدواروں سے ان کی تعلیم، ذریعۂ روزگار، اثاثوں اور فوجداری مقدمات کے بارے میں پوچھنا واقعی خطرے سے خالی نہیں‘ کیونکہ یہ معلومات اگر عام آدمی تک پہنچ گئیں تو شاید وہ جتھہ بند پارٹیوں کی بجائے اپنے علاقے کے کسی شریف آدمی کو منتخب کر لے گا۔ یہ معلومات دینے کی صورت میں ہمارے رہنماؤں کو جواب بھی دینا ہو گا کہ وہ راتوں رات امیر کیسے ہو جاتے ہیں اور ہم بھوکے کیوں رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں وزارتِ اعلیٰ کے ایک امیدوار (پرویز خٹک نہیں) کو بتانا ہو گا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے پہاڑی علاقوں کی ایک ہی سڑک کا بار بار ٹھیکا کیوں لیتا ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سردار سے پوچھا جائے گا کہ ایک مخصوص سڑک پر چلنے والی تمام بسوں اور ویگنوں کی ونڈ سکرین پر لگے مخصوص سٹکر سے اس کا کیا تعلق ہے۔ کوئی دیوانہ اٹھے گا اور پنجاب کی ایک اہم شخصیت سے پوچھ لے گا کہ آپ کے نام پر تو ایک بھی گاڑی نہیں، پھر آپ کے گھر کھڑی قیمتی گاڑیوں کی ملکیت کس کے نام ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار کو بھی شاید بتانا پڑے گا کہ اس کی تعمیراتی کمپنی نے پچھلے دس برسوں میں کتنے پیسے کمائے ہیں۔ گویا خطرناک سوالات کا ایک غیر متناہی سلسلہ تھا جو شروع ہو جاتا ۔ خلق خدا کا ہاتھ رہنماؤں کے گریبان تک نہ بھی پہنچتا تو دامن تک ضرور آ جاتا۔ ہمارا ملک اتنے خطرات کا متحمل نہیں ہو سکتا، بنام پارلیمان، بنامِ جمہوریت، بنام انتخاب، بنام دستور ایسے ''حبیب اکرم بنام وفاق‘‘ پر اوّل تو کوئی فیصلہ آنا ہی نہیں چاہیے اور اگر آ گیا ہے تو رہنا نہیں چاہیے۔