"HAC" (space) message & send to 7575

عید مبارک

عید کی دوسری رات ایک دوست کے گھر سے کھانا کھا کر نکلے تو رات کے دو بج رہے تھے۔ خیال تھا کہ رات کے اس پہر سڑکیں خالی ہوں گی اس لیے بھاگم بھاگ گھر پہنچ جاؤں گا۔ جیسے ہی لاہور کی ایم ایم عالم روڈ پر گاڑی ڈالی تو معلوم ہوا کہ سڑک پر گاڑیوں کی تعداد عام دنوں سے تین گنا ہے۔ جن گاڑیوں میں بچے بیٹھے تھے وہ کھڑکیوں سے سر نکال کر یا آدھا دھڑ باہر نکالے خوشی سے شور مچا رہے تھے۔ کسی گاڑی میں نوجوان تھے تو انہوں نے اندر چلتی ہوئی موسیقی باہر والوں کو سنانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ گاڑیاں رینگ رہی تھیں مگر کوئی بھی بے چین ہو کر ہارن نہیں بجا رہا تھا۔ رینگتے رینگتے لبرٹی مارکیٹ پہنچا تو وہاں بھی کھانے پینے کی دکانوں پرگویا ہجوم ٹوٹا پڑ رہا تھا۔ یہاں سے ذرا آگے لبرٹی کے چوراہے پر بنے دائرے میں بچوں کے ساتھ آئے خاندانوں کا ایک اژدہام تھا۔ کہیں نوجوان سیلفیاں لے رہے تھے اور کہیں چھوٹے بچے ماں باپ کو سامنے بٹھائے موبائل فون کے کیمرے سے ان کی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ اس چوراہے پر‘ جہاں میں نے نو برس پہلے دہشت گردوں کو سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کرتے دیکھا تھا، رات کے اس پہر زندگی چہچہا رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت جو لوگ یہاں جمع ہیں ، عید کی چھٹیاں نہیں منا رہے بلکہ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت سے امن چھین لینے سے بڑی فتح اور بھلا ہو بھی کیا سکتی ہے؟ 
عید کا دن سرگودھا میں گزرا۔ اس شہر کی آبادی عید کے دنوں میں بڑھ جاتی ہے کہ بڑے شہروں میں کام کرنے والے عید اپنے آبائی علاقے میں گزارنے چلے آتے ہیں۔ یہاں چاند رات کو یوں لگا کہ شہر کا ہر مرد اپنے خاندان کو ساتھ لے کر بازاروں میں آ نکلا ہے۔ یونیورسٹی روڈ ، کچہری بازار اور سیٹلائٹ ٹاؤن کے انارکلی بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ان بازاروں میں آنے والے اپنی گاڑیاں کہیں دور کھڑی کر کے آتے اور کوئی غلطی سے آ ہی نکلتا تو کھڑکی سے سر باہر نکال کر منّت کرکے لوگوں سے راستہ مانگتا ایک ایک انچ آگے بڑھتا ۔ اتنے لوگ کہ موٹر سائیکل والوں کو بھی گزرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ یہ سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بازار سے خوشیاں خریدنے نکلے تھے اور کوئی خالی ہاتھ نہیں تھا۔ کوئی نوجوان اپنی بہن کو چوڑیاں پہنانے لایا تھا اور موٹر سائیکل سٹینڈ پر لگا کر اس پر بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ کہیں کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کے لیے کپڑے کے بنے جوتے خرید رہی تھی۔ کہیں ایک چھوٹی سی بچی باپ کی انگلی تھامے اسے مہندی کے سٹال کی طرف لے جا رہی تھی۔ زندگی ، ہر طرف زندگی تھی۔ 
اس عید پر زندگی میں جو نکھار آیا‘ وہ لاہور اور سرگودھا تک ہی محدود نہیں تھا۔ کراچی میں جس سے بات کی قلقاریاں مارنے لگا۔ کوئٹہ والوں کو عید مبارک کے لیے فون کیا تو کسی نے ہنّہ جھیل پر بچوں کو سیر کراتے ہوئے آسودہ لہجے میں جواب دیا تو کسی نے خاندان کے ساتھ ریستوران میں بیٹھے بیٹھے خیر مبارک کہا۔ پشاور والے ، مینگورہ والے، راولپنڈی والے، حیدر آباد کے باسی، جس جس نے بات کی ہنس کر کی۔ یہ ہنسی ، یہ مسکراہٹ اور یہ رونق ہی تو اصل عید ہے۔ کتنے برسوں تک ہم پاکستانیوں نے جعلی عیدیں منائی ہیں۔ دہشت گردوں کے خوف تلے ہم بے بسی کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چلے تھے۔ ہمارے بچوں نے خوف کے سوا دیکھا ہی کیا تھا۔ اب ہمارے بچے تقریباً اسی طرح عید منا رہے ہیں جیسی کبھی ہم نے اپنے بچپن میں منائی تھی، بے فکر ہو کر بغیر کسی خوف کے۔ 
اس عید کا دن دراصل پاکستان کی طرف سے دہشت پر غلبہ پانے کا اعلان تھا۔ ہم کروڑوں پاکستانیوں نے یہ عید اس لیے منا لی کہ ہمارے لاکھوں جوانوں نے عید نہیں منائی۔ انہوں نے اس دن بھی وردی پہنی اور دہشت گردوں کے بھٹ یعنی افغانستان سے ملنے والی سرحد پر در آنے والے بھیڑیوں کے سامنے سینوں کی فصیل بنائے کھڑے رہے۔ بلوچستان والوں نے عید اس لیے منا لی کہ اس دن بھی ہمارے نوجوان بیٹے پہاڑوں میں چھپے زہریلے ناگوں کا سر مسل رہے تھے۔ خیبر پختونخوا میں لوگ اس لیے مزے کرتے رہے کہ کوئی وزیرستان کی پہاڑیوں میں چھپے درندوں کو ان کی کھوہ سے باہر نکلنے نہیں دے رہا تھا۔ جنگلوں اور ویرانوں میں کام کرتے ان فوجیوں جیسے ہی پولیس والے بھی ہیں جو شہروں میں یہ جنگ لڑتے رہے ہیں۔ مانا کہ پولیس بڑی بدنام ہے مگر اس عید پر تین مختلف شہروں میں دیکھا کہ پولیس والے کسی چوراہے پر اپنی گاڑی میں بیٹھے گرد و پیش پر نظر تو رکھے ہوئے ہیں مگر کوئی روک ٹوک نہیں کر رہے۔ پولیس کی ٹولیاں موٹر سائیکلوں پر گھومتے پھرتے تحفظ کا احساس دلا رہی ہیں مگر ناکے لگا کر خوف زدہ نہیں کر رہیں۔ 
فوج ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے یہ کام ایک دن میں نہیں کیا۔ اس کے پیچھے ان کی برسوں کی محنت اور قربانیاں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ ادارے اپنا کام ایک ہی صورت میں بہتر کر سکتے ہیں جب انہیں سیاسی قوتوں کا غیر مشروط تعاون حاصل رہے۔ دو ہزار تیرہ سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردوں کو ایک نظریاتی فریق سمجھ کر بحث تو شروع کر دی مگر مجروح سیاسی ساکھ کی وجہ سے کوئی بڑا انتظامی قدم نہ اٹھا سکی۔ دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت اور خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان دونوں نے شدید سیاسی اختلافات کے باوجود مشترکہ طور پر ایسا ماحول پیدا کر دیا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن و امان قائم کرنے کی حد تک مکمل آزادی میسر آئی۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے دباؤ کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے بھی یہ ممکن نہ رہا کہ وہ اپنے صوبے میں امن و امان بگاڑنے کا باعث بنی رہے۔ اسی طرح بلوچستان‘ جو دہشت گردوں کی آماج گاہ بن چکا تھا، فوج اور ایف سی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی وجہ سے پُرامن ہونے لگا۔ سیاسی جماعتوں کی کوششوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ دہشت گرد جو کبھی بنام مذہب اور کبھی بعنوان رنگ و نسل اپنے لیے عوام میں جگہ پیدا کر لیتے تھے، تنہا ہو گئے اور ان سے انتظامی طور پر نمٹنا بھی آسان ہو گیا۔ بے شک اسی ہلے میں سیاست اور جرم کا تعلق پہلے بے نقاب ہوا اور اب بڑی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ 
پاکستان کی اس عظیم الشان کامیابی کا سہرا اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت، ادارے یا سیاسی جماعت کے سر پر باندھنے والے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن دنیا اس کامیابی کو ریاستِ پاکستان کی کامیابی ہی سمجھتی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پا کر ہم نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پاکستانی ریاست غیر ملکی سازشوں، اندرونی گمراہیوں اور دوستوں کی باہمی لڑائیوں کے مرکب سے تیار کردہ اس پیچیدہ ترین مسئلے کو یکسوئی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کامیابی نے حاسدوں کے حسد کو بڑھا دیا ہے، دشمنوں کو جھنجلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور دوستوں کا اعتماد بڑھا دیا ہے۔ اس تجربے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ہماری جمہوریت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا حل جمہوریت کے بطن سے ہی نکلے گا۔ اسی لیے ہمارے دشمن اب ہماری جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کی سازش کر رہے ہیں اور بدقسمتی سے اسے ہمارے اندر سے ہی کچھ لوگوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن جمہوریت کی مضبوطی کا ایک اور مظہر ہے۔ اسی لیے کچھ لوگ اسے ناکام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہماری ریاست روزانہ ان سازشوں کو ناکام بناتی چلی جا رہی ہے کیونکہ ریاست کا ہر پرزہ سمجھ چکا ہے کہ عوام کے چہرے پر عید کی خوشیاں واپس لانے کے لیے اسے دوسرے پرزوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا پڑے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں