دو ہزار پندرہ کے بلدیاتی انتخابات میں دنیا ٹی وی کا کیمرہ اور مائیک لے کر قریہ قریہ گھومتے ہوئے‘ سیاسی کارکنوں کو چوراہوں پر آمنے سامنے لا کر بات کرنے سے معلوم ہوا کہ اب سیاست میں شدت کم اور جواب دہی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ گلی محلے میں سیاسی جماعتوں کے کارکن عوام کے سوالات لے کر اپنی قیادت کے پاس نہیں جا رہے تو کم از کم برسر عام یہ سوالات اٹھانے کی ہمت ضرور کر رہے ہیں۔ کہیں کہیں لیڈروں سے اندھی عقیدت کے مظاہرے بھی نظر آئے مگر بالعموم کارکنوں کی بے چینی ظاہر و باہر محسوس ہوئی۔ چھ ماہ پہلے ایک بار پھر مائیک اور کیمرہ لے کر سڑکیں ناپنا شروع کیں تو پتا چلا کہ تین برس پہلے جو بے چینی تھی اب طوفان میں ڈھل چکی ہے۔ ڈسپلن کے پابند روایتی سیاسی کارکن دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں‘ اور عوام نے سیاست کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ عام آدمی بغیر کسی خوف کے اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کے کردار سے لے کر ترقیاتی کاموں تک ہر چیز پر نہ صرف رائے رکھتا ہے بلکہ منتخب نمائندوں کو سبق سکھانے کا تہیہ بھی کیے ہوئے ہے۔ طلال چودھری ‘ برجیس طاہر ‘ سعد رفیق ‘ مرتضیٰ جاوید عباسی‘ خورشید شاہ اور مراد علی شاہ کے حلقوں میں لوگوں نے کیمرے پر کہا کہ '' ایک بار حلقے میں تو آنے دو گریبان پر ہاتھ نہ ڈال پائے تو دامن ضرور کھینچیں گے‘‘۔ حویلیاں کی ایک وادی میں لوگوں نے آبادی کے بیچوں بیچ گزرتی بدرو دکھائی تو سوال کیا کہ دوستو ‘ اپنے منتخب نمائندے کے گھر کی طرف کیوں نہیں اس بدرو کا رخ موڑ دیتے؟ جواب ملا وقت آنے دو ۔ پنوں عاقل کے بازار میں خورشید شاہ کے بارے میںکسی نے ارادہ ظاہر کیا ‘ '' شاہ سائیں نے بڑے لوگوں اور بڑے گھروں سے اپنی جیت کی امید باندھی ہوئی ہے‘ زندگی رہی تو آئندہ الیکشن میں سوال جواب سڑک پر ہوں گے‘‘۔ جڑانوالہ میں طلال چودھری کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا‘ ''کون طلال چودھری‘ وہی جو ٹی وی پر دِکھتا ہے؟ جڑانوالہ آتا ہے تو دس بارہ ٹھیکے داروں سے مل کر چلا جاتا ہے؟ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘ کہیں ملے تو کہہ دینا آئندہ ادھر کا رخ نہ کرے‘‘۔ اس پروگرام پر ایک سیاستدان کو اعتراض ہوا کہ ''تم لوگوں کو سیاسی نظام سے متنفر کرنے کی کوشش کر رہے ہو‘‘۔ دوسرے نے کہا ''تم مسلم لیگ ن کے ایجنٹ ہو‘‘۔ تیسرا بولا ‘ ''تم تحریک انصاف سے پیسے لے کر ہمارا بیڑہ غرق کرنے کے مشن پر ہو‘‘۔ یہ وہ لوگ تھے جو ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کا غم کھاتے تھے‘ ترقی کے دعوے دار تھے ‘ جو تبدیلی اور شعور کی بات کرتے تھے۔ خاکسار نے تو صرف یہ کیا کہ ان کے ا قوالِ زرّیں کی تصدیق ان کے حلقوں کے عوام سے کرانے کی کوشش کی۔ اس میں جو کھرا نکلا بتا دیا جس میں جتنا کھوٹ تھا وہ بھی سامنے آ گیا۔ اب عوام کا جو فیصلہ ہو گا وہ بھی جلد سامنے آ جائے گا۔
اسی دوران سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک انصاف کی مدد سے سیاستدانوں کو اپنے حلا ل و حرام اثاثوں کو چھپا کر رکھنے کا حق دینے کے لیے قانون سازی کی تو ‘ دنیا اخبار اور ٹی وی پروگراموں میں اس پر آواز اٹھائی۔ نہ چاہتے ہوئے اس جعلی حق کو عدالت میں چیلنج کیا ۔ فیصلہ قدرے تاخیر سے آیا مگر کمال ہو گیا کہ عدالت نے اس قانون کو جواز دینے سے انکار کر دیا اور امیدواروں کو سب کچھ بتانے کا پابند کر ڈالا۔ اس بیچ میں کئی سخت مقام آئے‘ کہیں دل ٹوٹا کہیں حوصلہ بڑھا۔ سپیکر قومی اسمبلی ‘ حکومتِ پاکستان اور الیکشن کمیشن سبھی مقابلے پر تھے مگر میرے وکیل سعد رسول کے دلائل کی‘ دلائل سے لگائی گرہیں نہ کھول سکے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان گرہوں کو اور بھی مضبوط کر دیا اور آج ہر ووٹر اپنے حلقے کے امیدوار کی شادیوں‘ بچوں اور جائیدادوں کے بارے میں جو کچھ جاننا چاہے جان سکتا ہے۔ اثاثوں کے سوال پر عدالت جانے کو بھی کسی نے سازش قرار دیا‘ کسی نے ایجنٹ کہا ‘ کسی نے الیکشن میں تاخیر کا باعث بننے پر ملامت کی‘ کوئی پکارا کہ صحافی ہو صحافی رہو خبر بننے کی کوشش نہ کرو۔ مگر صد شکر کہ الیکشن میں تاخیر ہوئی نہ کوئی آسمان ٹوٹا‘ البتہ اثاثے بتانے پڑے ۔ چاہے اس سے کچھ فرق نہ پڑے مگر رہبروں کی اوقات تو سامنے آئی جو بلاول ہاؤس کراچی کی قیمت چھبیس لاکھ لکھتے ہیں‘ رائے ونڈ کی زمین کی قیمت ہزاروں میں بتاتے ہیں اور بنی گالہ کے محل کی قیمت جھونپڑے کے برابر قرار دیتے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک ستم ظریف بزرگ نے کہا‘ ''کاغذات نامزدگی کے ساتھ سپریم کورٹ کے حکم پر جو حلف نامہ داخل کرنا لازم ہے‘ اس کا نام تمہارے نام پر ہونا چاہیے کہ جس جس کو یہ بھرنا پڑا‘ اس نے تمہیں دل کھول کر گالیاں دی ہیں‘‘۔
آج جب پاکستان کی ہر ٹی وی سکرین پر سیاست دانوں کے اثاثوں کی قلعی کھل رہی ہے ‘ سوشل میڈیا پر عوام اپنے انداز میں منتخب نمائندوں کا سڑکوں اور گلیوں پر احتساب کر رہے ہیں تو خدا جانتا ہے وہ ساری کلفت دور ہو گئی جو ملک کے طول و عرض میں پچاس ہزار کلومیٹر سفر کرکے ہوئی تھی۔ لیاری کے لوگ بلاول بھٹو زرداری سے پانچ سال غائب رہنے کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس دکھیاری بلوچ بڑھیا کو زبان مل گئی جس نے مجھے کہا تھا ''بلاول کو بتا دینا میں اپنی بہن (بے نظیر بھٹو) کے بیٹے سے پوچھوں گی کہ جب میرا بیٹا گینگ وار کی اندھی گولی کا نشانہ بنا تھا تو وہ کہاں تھا‘‘۔ صالح پٹ (ضلع سکھر) کا وہ ادھیڑ عمر شخص یاد آ گیا جس نے رو کر کہا تھا کہ ایک بار تو بلاول بھٹو کو بی بی کا بیٹا سمجھ کر ووٹ دینا پڑے گا‘ اگلی بار اس سے حساب کتاب کریں گے۔ منڈی صفدر آباد (پنجاب) میں گندے نالے پر بیٹھا موچی بھی یاد آیا جس نے کہا تھا جس گندگی پر مجھے میرے ایم این اے اور ایم پی اے نے بٹھا رکھا ہے اس کا بدلہ الیکشن میں نہ لے سکا تو روزِ قیامت تو ضرور لوں گا۔ آج ہر سابق ایم این اے اور ایم پی اے اپنے ہی ووٹروں کے سوالات سے گھبرا کر دوڑتا نظر آ رہا ہے تو وہ خواب پورا ہو رہا ہے جس کی تعبیر کے لیے سینکڑوں جمہوریت پسندوں نے اس ملک میں ہر اذیت گوارا کر لی۔ عوام کا جن سیاسی جماعتوں‘ پیروں‘ جاگیرداروں‘ وڈیروں اور جاگیرداروں کی بوتلوں سے نکل کر ووٹ کے ذریعے اپنا حکم چلا رہا ہے۔ کاش کوئی دیکھ سکے کہ دو ہزار اٹھارہ کی پاکستانی قوم دو ہزار تیرہ سے کہیں بہتر ہے ۔ صرف دو مسلسل الیکشنوں میں اس نے جتنی بت شکنی کی ہے اس کی مثال دنیا کی کوئی جمہوریت پیش نہیں کر سکتی۔ تیسرے الیکشن میں یہ کیا قیامت ڈھائے گی‘ کوئی نہیں جانتا‘ بس معلوم ہے تو اتنا کہ اب سے تین ہفتے بعد یہ قوم ایک نئی حکومت کو کمرۂ امتحان میں بٹھا دے گی اور اس کے احتساب کے لیے دن گننا شروع کر دے گی۔
سیاسی جماعتوں پر لیڈروں کی کمزور ہوتی ہوئی گرفت‘ عوام میں قانون کی حکمرانی کی بڑھتی ہوئی خواہش‘ ہر متکبر کو ووٹ کے ذریعے روند ڈالنے کا شوق ‘ حکمرانوں کی بجائے خادموں کو منتخب کرنے کا خیال‘ سب ایسے عناصر ہیں جو اس سے پہلے کے الیکشنوں میں کبھی دیکھے تھے نہ سنے تھے۔ عوام کا بڑھتا ہوا شعورِ سیاست بے شک لا تعداد وجوہات کی بنیاد پر ہو گا مگر ان میں سے ایک دنیا ٹی وی کا الیکشن کارواں بھی تھا‘ جس نے دو ہزار پندرہ میں پہلی بار شہر شہر گاؤں گاؤں‘ سڑکوں اور چوراہوں پر سیاست کی مجلس برپا کی ۔ اس کارواں کا کیمرہ اور مائیک کبھی شانگلہ کی پہاڑیوں میں پہنچا‘ کبھی تپتی ہوئی دوپہر میں چولستان کی کسی بستی میں جا نکلا‘ کبھی کراچی کی ہجرت کالونی میں لوگوں سے باتیں کرنے لگا اور کبھی اواران کی سنگلاخ زمین سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوانوں سے ملنے چل پڑا۔ فخر و مباہات کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ مسلسل ریاضت میں کبھی خوشی کا کوئی لمحہ آ جائے تو خوش ہو جانے میں حرج بھی نہیں۔ مجھ پر یہی خوشی طاری ہے کہ میں دوبارہ الیکشن کارواں کا حصہ بن کر ‘ دنیا ٹی وی کا کیمرہ اور مائیک اٹھائے کوچہ کوچہ گھوم کر اس جاگتی ہوئی قوم کے ہونٹوں سے باتیں لے کر ان کی سماعتوں اور بصارتوں کی نذر کر رہا ہوں۔