الیکشن سے چند روز پہلے کی بات ہے کہ رحیم یار خان کے سٹی چوک میں پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد اپنے ساتھیوں کی فراغت کا انتظار کر رہا تھا۔ تپتی ہوئی دوپہر میں ہم نے کام شروع کیا تھا مگر اب بوندا باندی ہو رہی تھی۔ یوں بھی مغرب کے بعد کا ٹھنڈا وقت تھا جو ہلکی ہوا اور بارش کے ساتھ اور بھی خوشگوار محسوس ہو رہا تھا۔ میں فٹ پاتھ پر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا‘ جب تیرہ چودہ سال کا ایک لڑکا میرے پاس آیا۔ اس نے جو کپڑے پہن رکھے تھے اس کے ناپ سے بڑے تھے۔ چہرے پر وہ تازگی جو اس عمر میں ہوا کرتی ہے اور آنکھوں میں بازار کی ٹھوکروں سے ملے تجربے کی گہرائی۔ پہلی نظر میں لگا شاید اب وہ مجھ سے نقد امداد کا طلب گار ہو گا۔ دل میں ناپسندیدگی کی ایک لہر اٹھی۔ مجھے اس عمر کے بچوں کو خیرات دیتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے معاشرے میں کام نہ کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کا باعث بن رہا ہوں۔ اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اگر اس نے بھیک مانگی تو صاف منع کر دوں گا۔ شاید وہ لڑکا بھی مجھے اسی طرح نگاہوں میں تول رہا تھا جیسے میں اسے تول چکا تھا۔ دو تین سیکنڈ بعد اس نے مجھے سلام کیا۔ میں نے جوا ب دیا تو اس نے سوال کیا، ''آپ میڈیا والے ہیں؟‘‘۔ ظاہر ہے اس سوال کا جواب ہاں کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔ میں سر ہلایا تو اس نے کہانی کہنی شروع کر دی۔
وہ یتیم تھا اور اسی چوک میں غبارے بیچتا تھا۔ پچھلے تین مہینے سے وہ جس مصیبت میں مبتلا تھا وہ یہ تھی کہ پولیس والوں نے اسے کئی بار چوری کے الزام میں پکڑا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اسی بازار میں کچھ اوباش لڑکے چوری چکاری کر کے بھاگ جاتے تھے اور بازار میں ان محنت کش بچوں کی شامت آ جاتی تھی‘ جو اس میں ملوث نہیں ہوتے تھے۔ ان بچوں کو پولیس پکڑ کر لے جاتی اور کچھ برآمد نہ ہوتا تو ان کے اپنے کمائے ہوئے روپے ان سے چھین لیے جاتے۔ اس غبارے بیچنے والے کو کسی نے بتایا تھا کہ تمہاری مدد صرف کوئی میڈیا والا ہی کر سکتا ہے، سو اسی امید میں وہ اب میرے پاس کھڑا تھا۔ میرے بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کا یہ لڑکا مجھے بتا رہا تھا، ''سر، میں آٹھویں میں پڑھتا ہوں۔ دن بھر میں دو تین سو کما لیتا ہوں۔ تین بار ایسا ہو چکا ہے کہ پولیس والے دن بھر کی مزدوری چھین کر لے گئے، مگر پچھلے ہفتے تو انہوں نے وہ ظلم کیا ہے جو میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔ اس کی باتیں سن کر کلیجہ کٹ رہا تھا، بڑی مشکل سے پوچھا کہ کیا ظلم ہوا۔ بولا، ''سر جی، میں نے بڑی مشکل سے تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کر کے سکول کے لیے یونیفارم لیا تھا۔ رات کو لے کر گھر جا رہا تھا کہ پولیس والوں نے تلاشی کے بہانے وہ بھی چھین لیا اور واپس بھی نہیں کیا‘‘۔ میں کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ میرے ساتھی جو اس بیچ ہمارے ساتھ آن کھڑے ہوئے تھے، اپنے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہاں کھڑے لوگوں میں صرف اسی لڑکے کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ اسے ہماری مدد چاہیے تھی ان لوگوں کے چہرے سے نقاب ہٹانے کے لیے جو اس کا یونیفارم چھین چکے تھے۔ میں بس اس لڑکے کا ماتھا چوم سکا۔ مجھ میں بولنے کا یارا ہی نہ تھا اور اسے میں بتاتا بھی تو کیا بتاتا، سمجھاتا بھی تو کیا سمجھاتا۔
اس لڑکے کی فوری مصیبت تو وہ چند پولیس والے تھے جو بازار میں آنے جانے والوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کی کوششوں میں ہر ایک سے مجرموں والا سلوک کر رہے تھے ، مگراس بچے کی اصل مصیبت تو یہ نظام ہے جس میں غریب ہر دست درازی کا نشانہ بن جاتا ہے اور زورآوروں کو لگام ڈالنے والے خود ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ میرے بچے تیرا معاملہ رحیم یار خان کی پولیس کے ساتھ نہیں الجھا بلکہ اسلام آباد میں اٹکا پڑا ہے‘ جہاں آج تک ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جو تیرے سر پر ہاتھ رکھے۔ میں اس بچے کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا‘ ورنہ اسے خبردار بھی کرتا کہ کہیں نقیب اللہ کی طرح نہ ہو جانا جس کا قاتل آج بھی ہمارے سینوں پر مونگ دل رہا ہے۔ میں اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ تو اکیلا کب ہے، تیرے جیسے کروڑوں میں نے کراچی سے لے کر پشاور تک رُلتے دیکھے ہیں، تو اپنی یتیمی کو روتا ہے یہاں بائیس کروڑ یتیم ہیں جن کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں مگر ان پر حکومت کرنے کے لیے ہر کوئی بے تاب ہے۔
رحیم یار خان میرے ایک لاکھ کلومیٹر طویل سفر کا آخری پڑاؤ تھا۔ اپنے ملک میں جو دکھ درد میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، یہاں اس لڑکے کی وجہ سے سب تازہ ہو گئے تھے۔ میں نے سیہون کے قریب تپتی ہوئی دوپہر میں بچوں کو ننگے پاؤں صحرا میں چلتے دیکھا تو بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری یاد آئے جو منہ بھر کر غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ منڈی صفدر آباد میں گندے نالے پر بیٹھے لوگوں کو دیکھا تو شہباز شریف کا خیال آیا جو ظلم کے اس نظام کو ''میں نہیں مانتا‘‘ کا راگ الاپ الاپ کر للکارتے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہر جگہ گداگروں کے غول دیکھے تو عمران خان کو یاد کیا جو فلاحی ریاست، فلاحی ریاست کا ورد کرتے آج اقتدار میں پہنچ چکے ہیں۔ ان لوگوں کی نیت پر مجھے کوئی شک نہیں مگر ان سب سے یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ''آپ لوگ تو اس قوم کے بڑے ہیں، یہ عوام آپ کے بچے ہیں ، آپ لوگ بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں ، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، آپ ننگے پاؤں پھرنے والے کو جوتے پہنانے کی سکیم کیوں نہیں بناتے؟ کچرے کے ڈھیر سے کھانا چننے والے کے لیے روٹی کی کوئی تدبیر کیوں نہیں کرتے؟ آپ کو بڑے بڑے افسر طرح طرح کی اصلاحات پر بریفنگ دیتے ہیں‘ آپ ان میں سے کسی کو یہ حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ ایک دن آپ کو رحیم یار خان کے اس غبارہ فروش کے گھر کے بجٹ پر بریف کرے؟ اے رہبرانِ قوم، آپ باتوں کے سوا بھی تو کچھ کرتے نظر آئیے۔
پاکستان کی سیاست میں عمران خان کا دیا ہوا لفظ ''تبدیلی‘‘ آج کے عوامی سیاسی تصور کا عکاس بن چکا ہے۔ ایک چھوٹا سا لفظ جس سے ہر شخص نے اپنے معنی اخذ کیے اور ووٹ دے کر انہیں اقتدار کے قریب کر دیا۔ ملک کے ہر حصے میں سینکڑوں لوگوں سے میں نے اس لفظ کے معنی پوچھے۔ حافظ آباد میں فٹ پاتھ پر بیٹھے موچی نے کہا: تبدیلی تب آئے گی جب مجھے عزت ملے گی۔ نقیب اللہ کے والد سے پوچھا تو بولے: جب مجھے انصاف ملے گا تو میں مانوں گا کہ تبدیلی آئی ہے۔ کراچی میں ایک رکشے والے نے کہا: جب میرا چالان میری غلطی پر ہو گا، رشوت کے لیے کوئی ٹریفک والا مجھے نہیں روکے گا تو میں محسوس کروں گا کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ لاڑکانہ کے ایک نوجوان نے جواب دیا: جب میری نوکری کے لیے میری ماں کو اپنا زیور بیچ کر کسی کو پیسے نہیں دینے پڑیں گے تو میں جانوں کا حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ رحیم یار خان کے لڑکے سے پوچھا تو بولا، ''جب میرا یونیفارم واپس مل جائے گا‘‘۔
وہ یتیم تھا اور اسی چوک میں غبارے بیچتا تھا۔ پچھلے تین مہینے سے وہ جس مصیبت میں مبتلا تھا وہ یہ تھی کہ پولیس والوں نے اسے کئی بار چوری کے الزام میں پکڑا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اسی بازار میں کچھ اوباش لڑکے چوری چکاری کر کے بھاگ جاتے تھے اور بازار میں ان محنت کش بچوں کی شامت آ جاتی تھی‘ جو اس میں ملوث نہیں ہوتے تھے۔ ان بچوں کو پولیس پکڑ کر لے جاتی اور کچھ برآمد نہ ہوتا تو ان کے اپنے کمائے ہوئے روپے ان سے چھین لیے جاتے۔