انیس سو ننانوے میں جنرل پرویز مشرف ملک کے اقتدار پر قبضہ جما کر بیوروکریسی کی اصلاحات کا ڈول ڈالے ہوئے تھے اور بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ اب واقعی پاکستان کی بیوروکریسی میں مثبت تبدیلیاں آ جائیں گی۔ انہوں نے نجی شعبے کے تجربہ کار اور ماہر لوگوں کو مختلف سرکاری عہدوں پر فائز کیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے حکومت کا کارخانہ چلتا دیکھیں اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے قابل عمل مشورے دیں۔ اسی طرح کے ایک صاحب سے اسی دور میں کراچی کے ایوان صنعت و تجارت میں آمنا سامنا ہوا تو پوچھا کہ آپ نے بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے اب تک کیا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے میرا سوال سنا اور بڑے پیار سے کہا، ''اس سوال کا جواب تفصیل چاہتا ہے اگر تم کچھ انتظار کرو تو میں تمہیں تسلی سے اس کا جواب دے دوں گا‘‘۔ وہ چائے کی میز پر لوگوں سے مل رہے تھے۔ میں ایک طرف چپکا کھڑا رہا۔ وہ لوگوں سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے۔ میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے انہوں نے مجھ سے ہی پوچھ لیا کہ ''تمہارے خیال میں بیوروکریسی کو کس طرح ٹھیک کرنا چاہیے؟‘‘ میں سوال سن کر گڑبڑا گیا۔ انہوں نے اصرار کیا، ''تم نوجوان ہو، جو دل میں آتا ہے کہہ ڈالو۔ ہو سکتا ہے کوئی اچھا آئیڈیا مل جائے‘‘۔ میں نے ہمت پکڑی اور عرض کیا، ''ہماری بیوروکریسی میں قابلیت تو شاید موجود ہے، مہارت کی کمی ہے۔ ہمارے بہترین افسر آج ایگری کلچر کے سیکرٹری ہیں تو کل کلچر کے ہوں گے۔ یہ معجزہ اسی مملکت خدا داد میں ہوتا ہے کہ مچھلیوں کی افزائش کا سیکرٹری اگلے ہی دن خزانے کا سربراہ ہو کر اس ملک کا بجٹ بنا رہا ہوتا ہے۔ یہ کارنامہ صرف پاکستانی افسر ہی سرانجام دے سکتے ہیں کہ افزائش حیوانات کے محکمے کی سربراہی کے فوری بعد انسانوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں‘‘۔ انہوں نے ایک لمبی ''ہوں‘‘ کہی اور پوچھا: اس کا حل؟ کہا، ''حل تو سادہ ہے کہ ہر محکمے کا سربراہ وہی شخص لگایا جائے جو طویل عرصے سے اسی محکمے میں کام کر رہا ہو یا باہر سے لایا جائے تو متعلقہ شعبے کا ہی ماہر ہو۔ صرف انتظامی صلاحیت رکھنے والے افسروں کو جب محکموں کی سربراہی سونپی جاتی ہے تو وہ محض اٹکل یا سطحی سی معلومات کی بنیاد پر اسے روزمرّہ کی بنیاد پر چلاتے ہیں۔ کسی محکمے کو بلند پروازی اور بہتر پیشہ ورانہ صلاحیت کا حامل نہیں بنا پاتے۔ اس لیے بہترین قابلیت رکھنے والا شخص جب محکمہ صحت کا سیکرٹری لگتا ہے تو وہ ڈاکٹروں کو انتظامی ڈنڈے سے ہانک کر صحت کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور عام طور پر مکھی پر مکھی مارتا چلا جاتا ہے۔ یہی شخص جب تعلیم کا محکمہ سنبھالتا ہے تو نصاب، اساتذہ کی تربیت اور سکول کی ضروریات کو سمجھے بغیر پوسٹنگ ٹرانسفر پر زور لگاتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ قابل لوگ کسی ایک شعبے میں ماہر ہو پاتے ہیں نہ ہی اپنے زیرِ نگیں محکمے کو با مقصد انداز میں چلا سکتے ہیں۔ اگر ڈاکٹروں میں سے ایک شخص اس محکمے کا سربراہ ہو جائے تو وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکے گا۔ اگر کوئی استاد تعلیم کا محکمہ سنبھالے گا تو دوسرے اساتذہ بھی اس کی بات ماننے پر مائل ہوں گے۔ کوئی ماہر زراعت جب سیکرٹری کی کرسی سنبھالے گا تو قابلِ عمل منصوے بنا کر انہیں کامیاب بھی کرا سکے گا۔ باقی رہی بات محکمے کی عمومی نگرانی اور پالیسی کی تو وہ حکومت اپنے وزیر کے ذریعے دے سکتی ہے‘‘۔ میں نے بات ختم کی تو انہوں نے میز پر ایک زوردار مکہ مارا جس سے چائے کی پیالیاں چھنک اٹھیں۔ جوش سے بولے، ''تم نے جو بات کی وہی ہے جو اب تک میں سمجھا ہوں، یعنی ہر محکمے کا سربراہ وہی شخص ہو جو اس میدان میں مہارت رکھتا ہو، یہی میری سفارشات کا خلاصہ ہے‘‘۔ میں اس وقت صحافت میں نوآموز تھا۔ ان کا جوش دیکھ کر لگا جیسے میں نے واقعی اپنے ملک کے لیے کوئی مفید کام کیا ہے۔ وہ میرا حوصلہ بڑھا کر چلے گئے اور میں اپنے کاموں میں مگن ہو گیا۔
اس کے بعد اڑتی اڑتی خبریں ملتی رہیں کہ بیورکریٹ کی بجائے ٹیکنوکریٹ کی اصطلاح چل رہی ہے۔ کسی نے بتایا: رپورٹ تیار ہے بس نافذ ہوا چاہتی ہے۔ دن گزرتے گزرتے مہینے بنے اور مہینے سال ہو گئے۔ کچھ نہیں ہوا۔ دو ڈھائی سال بعد معلوم ہوا کہ اب ان صاحب کو سرکاری عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے‘ لہٰذا واپس کراچی چلے آئے اور پہلے کی طرح نجی شعبے میں کام کرنے لگے۔ ایک بار پھر ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں وہی گفتگو یاد لائی۔ ایک آہ بھر کے کہنے لگے ''نوجوان، یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم مشورے دے سکتے تھے، خلوص کے ساتھ دے دیے۔ سرکاری افسر اکٹھے ہو کر جنرل پرویز مشرف کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ہمارے مشورے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے گئے کیونکہ جنرل مشرف کے قریبی افسر طارق عزیز نہیں چاہتے کہ بیوروکریسی میں کوئی مثبت تبدیلی آئے‘‘۔
اس واقعے کو گزرے اب اٹھارہ برس ہونے کو ہیں، جنرل مشرف نہیں رہے، طارق عزیز نہیں رہے اگر کچھ ہے تو وہی بیوروکریسی جو قابل تو ہے مگر ماہر کسی شعبے کی نہیں۔ اس کے پاس کوئی نیا تصور ہے نہ کوئی خیال، بس رنگ برنگی پریزینٹیشنز اور لچھے دار انگریزی ہے جس کے زور پر وہ ہر حکومت کو یرغمال بنا کر اس کا وقت ضائع کر ڈالتے ہیں۔ انجینئر، ڈاکٹر، پروفیسر اور دیگر صاحبانِ ہنر کو کوئی گھاس ڈالتا‘ نہ ان کی بات سنتا ہے، صرف انتظامی افسروں کا ایک جتھہ ہے جو ہر حکومت کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے تاکہ اس کی نظر کسی اہل آدمی پر نہ پڑ جائے۔ یہ لوگ پاکستان میں ہر تبدیلی کے راستے میں خوشامد کے پہاڑ کھڑے کرکے اسے روک لیتے ہیں۔ اپنی قابلیت کے زور پر تبدیلی کے نتائج کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچتے ہیں کہ ہر حکمران خوفزدہ ہو کر دم دبا لیتا ہے۔ اس جتھے نے ملک میں جنرل پرویز مشرف کے بہترین بلدیاتی نظام کو تباہ کیا، پولیس آرڈر 2002ء کو برباد کیا، بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بیوروکریسی کی رفتار مطمئن نہ کر سکی تو چھپن نجی کمپنیاں بنا کر انہیں لالی پاپ دیا اور خود ہی ان کمپنیوں کے سربراہ بن کر ''حق حلال‘‘ کے لاکھوں روپے ماہانہ بٹورتے رہے۔ اب یہ کمپنیاں شہباز شریف کے گلے کی ہڈی بن چکی ہیں۔ ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل، کوئی اعداد و شمار نہیں ہوتے، بس باتیں ہوتی ہیں۔ کسی بھی شعبے میں ترقی کی بات کریں، ان لوگوں کے دلائل کا آغاز یہاں سے ہو گا کہ ''میں اس محکمے میں رہا ہوں‘‘ اس فقرے کا مطلب مخاطب کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ ''میں سب جانتا ہوں‘‘۔ طرح طرح کے انفرادی واقعات سنا کر یہ سیاسی حکمرانوں کو سوچنے سے روک دیتے ہیں اور جب تک انہیں حقیقت کا علم ہوتا ہے، ان کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے کیونکہ وہ بھی تبدیلی کا دعویٰ لے کر حکومت میں آ رہے ہیں۔ ان کے گرد سرکاری افسروں کا حلقہ بندھ گیا ہے اور وہ انہیں ایوانِ وزیر اعظم اور گورنر ہاؤس خالی نہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس حلقے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر یہ بظاہر چھوٹا سا کام ہو گیا تو پھر واقعی تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی۔ اب فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں رہنا ہے کہ انہوں نے خوشامد پر مبنی مشورے مان کر برباد ہونا ہے یا واقعی تبدیلی لانی ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے سو دن کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہے کہ کس طرح وہ آئندہ پانچ سال کے لیے تبدیلی کی بنیاد رکھیں گے۔ حقیقی تبدیلی کے لیے انہیں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہ کرنا ہو گا کہ سرکار کے محکموں کی سربراہی انتظامی افسروں سے نکل کر پیشہ ورانہ ہاتھوں میں چلی جائے۔ صحت کے معاملے ڈاکٹر دیکھیں، تعلیم کے مسائل اساتذہ حل کریں، زراعت اسی شعبے کے ماہر کے پاس ہو اور پانی کا شعبہ انجینئرز کی نگرانی میں ہو۔ جس دن یہ ہو گیا ملک میں تبدیلی کی لہر نظر آنے لگے گی‘ اور اگر انہوں نے روایتی طریقوں سے ہی کاروبارِ حکومت چلانا چاہا تو تبدیلی کے لیے سو دن تو کیا، سو سال بھی کم پڑیں گے۔