"HAC" (space) message & send to 7575

سیاست، ریاست اور دولت

محترمہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور نے چھ سال پہلے سکاٹ لینڈ کی این یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی تو ان کے والد آصف علی زرداری نے ان کی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ اس وقت وہ صدرِِ پاکستان تھے۔ اس لیے ذاتی حیثیت میں بیرونِ ملک جاتے تو متعلقہ سفارت خانہ ان کی معاونت کرتا تاکہ پاکستان کا سب سے بڑا منصب دار مناسب انداز میں اپنا کام کر لے۔ پروگرام کے مطابق سکاٹ لینڈ جانے سے پہلے صدر صاحب لندن پہنچے جہاں انہوں نے کچھ دن ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ سفارت خانے نے اس معاملے میں اتنا کیا کہ ان کی بکنگ کرا دی مگر یہاں ٹھہرنے کے پیسے قواعد کے مطابق انہیں خود ادا کرنا تھے؛ البتہ ایک پاکستانی افسر مامور کر دیا گیا کہ وہ گاڑی سمیت صدر کی صاحب کی خدمت میں حاضر رہے تاکہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ زرداری صاحب نے بیٹی کی گریجوایشن تقریب میں شرکت کے لیے سکاٹ لینڈ جانا تھا‘ جس کے لیے ایک چھوٹا جہاز بک کرایا گیا۔ جب جہاز کے کرائے کی ادائیگی کا وقت آیا تو جنابِ صدر کا حکم سفارت خانے کو پہنچا کہ اس کی ادائیگی کر دی جائے۔ یہ حکم سن کر سفارت خانے کا عملہ پریشان ہو گیا کیونکہ ہوائی جہاز زرداری صاحب نے اپنی ذاتی مصروفیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس کی بکنگ کا کوئی ریکارڈ تھا نہ اس کی ضرورت کے بار ے میں سرکاری طور پر کوئی جواز پیش کیا جا سکتا تھا۔ زرداری صاحب کی 'شہرت‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے سفارت خانے کا کوئی افسر بھی یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ہزاروں پاؤنڈ کی یہ ادائیگی سرکاری پیسے سے کر دے اور بعد میں اس کا حساب دیتا پھرے۔ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں یہ خوف بھی تھا کہ زرداری صاحب خالی خولی صدر ہی نہیں بلکہ حکومت کی اصل طاقت بھی ہیں اور واپس پہنچ کر وہ نجانے انکار کرنے والے سرکاری ملازمین کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ خیر، قواعد و ضوابط پر خوف غالب آ گیا۔ سفارت خانے نے اپنے پاس موجود نقد رقم سے جہاز کا کرایہ ادا کر دیا اور متعلقہ افسر اب جواب طلبی کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔ اس ادائیگی کے دو یا تین دن بعد‘ جب یہ دورہ ختم ہوا تو صدرِ پاکستان کے سٹاف نے سفارت خانے کے ایک افسر سے اب تک کے اخراجات کا حساب مانگا۔ حسبِ حکم ایک کاغذ پر اب تک کے اخراجات کا تفصیلی حساب دے دیا گیا‘ جس میں جہاز کے کرائے سمیت ہوٹل کا کرایہ اور کھانے پینے کے اخراجات بھی شامل تھے۔ سٹاف نے یہ کاغذ لیا، اس پر ایک نظر ڈالی اور اس کے آخر میں لکھی ہوئی رقم نقد ادا کر دی۔ یہ رقم سفارت خانے کو وصول ہوئی تو ہر افسر کی جان میں جان آئی۔ جب تک یہ رقم ادا نہیں ہوئی تھی سفارت خانے کے افسران زرداری صاحب کی شخصیت کے منفی تاثر پر اٹکے ہوئے تھے اور جیسے ہی یہ رقم ادا ہوئی تو ان پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ زرداری صاحب کے ہوٹل میں قیام کے دوران بلاول بھٹو زرداری بھی انہیں ملنے آئے لیکن انہوں نے سفارت خانے کی گاڑی استعمال نہیں کی۔ ان کے ملنے جلنے والے کسی شخص نے بھی سفارت خانے سے کسی سہولت کا تقاضا نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ان دنوں بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ کا زیادہ تر وقت برطانیہ میں ہی گزرتا تھا اور پاکستان میں ان کی حکومت قائم تھی لیکن ان کی طرف سے کبھی فرمائش بھی نہیں ہوئی کہ انہیں یا ان کی خالہ صنم بھٹو یا کسی دوست کو سرکاری گاڑی ہی بھیج دی جائے۔
آصف علی زرداری کا بطور صدرِ پاکستا ن یہ معمول رہا کہ انہوں نے اپنے بچوں پر کبھی سرکاری وسائل خرچ نہیں ہونے دیے لیکن کیا اس کی بنیاد پر یہ کہا سکتا ہے کہ ان پر چلنے والا پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس جھوٹ ہے؟ کیا ذاتی زندگی میں ان کے طرزِ عمل کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زرداری نے بہترین حکومت کا نمونہ پاکستانیوں کے سامنے پیش کیا؟ ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے ''ہرگز نہیں‘‘۔ اس طرح کے درجنوں مصدقہ واقعات پاکستان کے ہر حکمران کے بارے میں پیش کیے جا سکتے ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شائد قرونِ اولیٰ کے حکمران تھے جو سرکاری چراغ کی روشنی سے بھی اپنے اہل و عیال کو دور رکھتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کے بارے میں یہ تمام واقعات حقیقت ہیں کہ وہ اپنی ذات پر سرکاری وسائل خرچ کرنے کے بارے میں انتہائی محتاط رہے ہیں‘ لیکن یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں، سیاسی ساتھیوں اور سرکاری افسروں کی حرکتوں سے جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کی، جس کی وجہ سے یہ ملک اس حال کو پہنچا ہے۔
زرداری صاحب نے چند ہزار پاؤنڈ ادا کر دیے یا نواز شریف نے اپنے کھانے کے پیسے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیے‘ جیسی مثالیں بظاہر کتنی بھی دلکش ہوں، ان کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا طرزِ حکمرانی بھی اسی طرح کا تھا۔ وہ زرداری صاحب جو برطانیہ میں اپنے اخراجات کی ایک پائی کی بھی سرکاری خزانے سے ادائیگی کو حرام سمجھتے ہیں‘ سندھ میں ہونے والی لوٹ مار کے بھی ذمہ دار ہیں۔ اپنے کھانے کے پیسے دینے والے نواز شریف کی ذات پر ان کے دورِ حکومت کے حوالے سے کوئی الزام نہیں آتا‘ مگر ان کے بچوں کے ذرائع آمدنی کا سوال آسیب کی طرح ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ بات سیاست دانوں تک ہی محدود کیوں رہے، جنرل ایوب خان جو پاکستان میں احتساب کے بانی تھے، ان کے اپنے خاندان میں دولت کی آمد اقتدار کے ساتھ ہی شروع ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دامن پر مالی بد عنوانی کی ایک چھینٹ بھی نہیں ، مگر ان کے صاحب زادے کی زندگی کے بدلنے کا نظر بظاہر کوئی سبب سوائے والد کے اقتدار کے کچھ نظر نہیں آتا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کو بھی دولت کمانے کا ڈھنگ اس وقت آیا جب ان کے والد ماجد پاکستان کے قاضی القضاۃ تھے۔ جمشید دستی کی مثال بھی لے لیں کہ وہ فخریہ طور پر خود کو بیلدار کے بیٹے کہتے ہیں، کبھی بس چلا کر اپنی سیاست چمکاتے تھے، کبھی جوتے پالش کر کے اور کبھی گدھا گاڑی چلا کر۔ دو بار قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور ان کے حالات ہی بدل گئے۔ کاروبار کیا ہے کسی کو معلوم نہیں، پیسہ کہاں سے آتا ہے کوئی نہیں جانتا، مہنگی مہنگی گاڑیاں کون دیتا ہے اس راز سے اب تک پردہ نہیں اٹھا۔ یہ چند مثالیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان میں ریاستی و سیاسی عہدے اور دولت کے درمیان ضرور کوئی ایسا تعلق ہے جس کی قانونی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔ 
پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے کام کا آغاز ذاتی سادگی سے کیا ہے ۔ بے شک یہ اقدام قابل تعریف ہے مگر اتنا بڑا نہیں کہ کوئی جوہری تبدیلی لا سکے۔ ذاتی اخراجات کی ادائیگی وغیرہ کی کہانیاں پاکستانیوں کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ وہ سادگی کے اس کلچر کو کتنا پھیلا پاتے ہیں۔ گورنر ہاؤسز کے بارے میں ان کے احکامات تو موجود ہیں مگر عمل سے دور ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ضلعی افسروں کے بڑے بڑے گھروں کے بارے میں ان کے فرمودات میں کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ اگر وہ سادگی کا سلسلہ نیچے تک بھی لے آئیں تو یہ بڑا کام ہو گا مگر ایک بہت بڑے کام کا چھوٹا سا حصہ ہی رہے گا۔ بڑا کام یہ ہے کہ وہ سیاست، ریاست اور دولت کا تعلق توڑ ڈالیں۔ یہ تعلق توڑ کر ہی ہمیں وہ اس نئے پاکستان میں لے جا سکتے ہیں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں