"HAC" (space) message & send to 7575

صدرِ پاکستان

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظمؒ نے براہ راست حکومت کا سربراہ بننے کی بجائے گورنر جنرل کے عہدے کو اعزاز بخشنے کا فیصلہ کیا تو گویا طے بھی کر دیا کہ وزیر اعظم اور حکومت کے کام میں دخل اندازی کیے بغیر ملک کا سربرہ اس پر نظر رکھے گا‘ اور بوقت ضرورت ہدایات بھی جاری کرتا رہے گا۔ ان کی زندگی تک کاروبارِ مملکت یونہی چلتا رہا کہ حکومت کے روزمرہ کاموں میں وہ کوئی دخل نہ دیتے‘ لیکن ہدایات جاری کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔ ان کے بعد آنے والے گورنر جنرل نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا اور حکومت ٹھیک ٹھاک انداز میں چلتی رہی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل ہاؤس اور وزیر اعظم کے دفتر کے درمیان قائدؒ کا قائم کردہ توازن بگڑنے لگا اور ملک کے ان اہم ترین عہدیداروں کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ اس کشاکش میں دستور سازی تاخیر کا شکار ہوئی، الیکشن ایک ڈھکوسلا بن کر رہ گئے، حکومتیں بے وقعت ہو گئیں، وزیر اعظم کا عہدہ تماشا بن گیا اور گورنر جنرل کی بھی توقیر نہ رہی۔ اسی کھینچا تانی سے ملک میں حق حکمرانی کا ایسا تنازعہ پیدا ہوا جو آج تک طے نہیں ہو سکا۔ بعد ازاںٍ‘ یکے بعد دیگر ے ایسے واقعات رونما ہونے لگے کہ گورنر جنرل اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہلانے لگا اور وزیر اعظم عوام کا۔ یہ تنازعہ اس زمانے میں انیس سو چھپن کے دستور میں طے کرنے کی کوشش کی گئی، گورنر جنرل کے عہدے کو صدر کا نام مل گیا، اس کے اختیارات محدود کیے گئے لیکن آئین کی کتاب سے باہر یہ جھگڑا بدستور چلتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں دستور رہا، پارلیمنٹ رہی نہ صدر رہا اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ 
انیس سو اٹھاون کے مارشل لاء کے بعد جو دستور جنرل ایوب خان نے بنایا اس میں وزیر اعظم کے عہدے کا تکلف ہی ختم کر دیا اور سارے اختیارات صدر کو دے کر خود ہی اس کرسی پر براجمان ہو گئے۔ جنرل یحیٰ خان کے ہاتھ حکومت لگی تو انہوں نے بھی اپنے لیے صدر کا عہدہ ہی چنا اور باقی سب کچھ صفر کر دیا۔ انیس سو تہتر میں سیاستدانوں نے پہلا دستور بنایا تو صدر کو بے معنی کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال کر اپنے لیے صدارت کا عہدہ چنا اور جاتے جاتے دستور میں ایسی تبدیلیاں کر گئے کہ صدر پھر طاقتور ہو گیا اور منتخب اسمبلیاں توڑنے کا اختیار اس کے پاس آ گیا۔ اس کے بعد اگلے دس برس اسمبلیاں صدر کے اشارۂ ابرو کی محتاج ہو کر کام کرتی رہیں۔ سیاستدان کچھ تگڑے ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر صدر کو ایوانِ صدر تک محدود کر دیا۔ جنرل مشرف آئے تو انہوں نے نئے انداز میں اسمبلی توڑنے کا اختیار سنبھال لیا۔ اس کے بعد پھر سیاستدانوں کے پاس طاقت آئی تو وہ دستور کو واپس اسی جگہ لے آئے جہاں سے چلے تھے‘ یعنی صدر کو محض نمائشی عہدہ بنا کر رکھ دیا۔ انیس سو نوے کی دہائی میں سابق صدر رفیق تارڑ بے مصرف سے صدر بنے‘ اور دستور میں تازہ تبدیلیوں کے بعد کچھ عرصہ آصف علی زرداری صدر رہے، پھر ممنون حسین نے ان کی جگہ لی اور اب تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی صدارت کا انتخاب جیت چکے ہیں اور حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ 
پاکستان کی تاریخ میں صدارت اور وزارت عظمٰی کے درمیان رسہ کشی کی وجوہات بہت سی ہیں اور ان میں سے ایک نظر انداز کیا جانا بھی ہے۔ سیاسی و جمہوری حکومتوں میں عہدے اختیارات کی وجہ سے نہیں‘ روایات کی وجہ سے اہم ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ جانے کیوں ہماری سیاسی حکومتیں ہمیشہ نظر انداز کر دیتی ہیں۔ مثلاً برطانیہ کی ملکہ کے پاس ایک پائی خرچ کرنے کا اختیار بھی نہیں‘ مگر روایت کی وجہ سے اس کا اثر و رسوخ دنیا بھر میں قائم ہے۔ بھارتی صدر دستور کے مطابق کچھ بھی نہیں‘ لیکن حکومتیں اس عہدے پر لائق ترین افراد کو منتخب کرکے کئی حوالوں سے ان کی لیاقت سے فائدہ اٹھاتی رہتی ہیں‘ اور کچھ ملکوں کے ساتھ سفارتکاری کے لیے تو خاص طور پر صدر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں جب حکومت میں آتی ہیں اور انہیں صدر منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے تو وزیر اعظم کی اوّلین خواہش ہوتی ہے کہ اس عہدے پر ایسا شخص لایا جائے جو کسی قابل ہو نہ ہو‘ بس وفادار رہے۔ پاکستان کی تاریخ کے پس منظر میں وفاداری کو واحد اہلیت قرار دینا کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں‘ لیکن صدر بن جانے کے بعد بھی اسے اہمیت نہ دینا بہرحال مناسب نہیں۔ ملک کے اندر اور باہر بے شمار ایسے کام ہیں جو صدر بطریقِ احسن کر سکتا ہے۔ مثلاً اس وقت جبکہ پاکستان خارجی حوالے سے زیادہ اچھی پوزیشن میں نہیں تو صدر کے ذمے یہ کام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے ملک کا تاثر بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ صدر وفاق کی علامت ہے، اسی طرح صوبوں کے گورنر بھی وفاق کے نمائندے ہوتے ہیں۔ صدر وفاقی یونیورسٹیوں اور گورنر صوبے میں قائم یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اعلیٰ تعلیم کی بہتری کا کام انہیں سونپ دے تو یہ لوگ اپنے دفاتر کے اثر و رسوخ کے زور پر بہت کچھ بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح سماجی خدمات کے شعبے کو صدر اور گورنروں کے سپرد کر دیا جائے تو یہاں بھی معاملات سدھارے جا سکتے ہیں۔ مگر مسلم لیگ ن نے اپنے ادوارِ حکومت میں صدر کو نظر انداز کرنے کی روایت اتنی مضبوط کر دی ہے کہ اسے توڑنا نومنتخب صدر اور نئی حکومت کے لیے چیلنج ہو گا۔
دو ہزار تیرہ میں جب ممنون حسین صدر بنے تو ان کے پاس سندھ کے مسلم لیگی پیپلز پارٹی کی حکومت کی شکایات لے کر آئے۔ مسلم لیگیوں کا شکوہ تھا کہ سندھ حکومت چن چن کر مسلم لیگیوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ممنون حسین کا تعلق چونکہ خود سندھ سے ہے‘ اس لیے انہیں بہت سے واقعات کا ذاتی طور پر بھی علم تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو وہ حسبِ عادت خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد دو تین بار صدر مملکت نے وزیر اعظم سے اس حوالے سے بات کی مگر دوسری طرف سے خاموشی ہی جواب رہی۔ اس خاموشی کا مطلب شاید یہ پیغام دینا تھا کہ جناب صدر ان معاملات سے دور رہیں۔ پیغام پہنچ گیا، سمجھ لیا گیا، مسلم لیگی بھی بھانپ گئے اور ان کی اکثریت مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی، فنکشنل لیگ یا تحریک انصاف کا رخ کر گئی۔ صدر صاحب اس واقعے کے بعد اتنے خاموش ہو گئے کہ سوشل میڈیا پر ان کی خاموشی اور بے عملی مذاق کا موضوع بن گئی۔ صدر کی بات نہ سننے کا نتیجہ دو ہزار اٹھارہ میں سامنے آیا۔ شہباز شریف کراچی کی نشست سے الیکشن ہار گئے اور صوبہ سندھ سے مسلم لیگ ن بری طرح پٹ گئی۔
ڈاکٹر عارف علوی اب ملک کے منتخب صدر ہیں اور یہ ایسا عہدہ ہے‘ جسے گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم لیگ ن نے باقاعدہ کوشش کرکے بے وقعت کیا ہے۔ علوی صاحب کا دعویٰ اپنی جگہ کہ وہ متحرک صدر بنیں گے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں جس نظام سے سابقہ پڑنے والا ہے‘ اس میں صدر کا عہدہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد معلوم ہو گا کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی تقریب بھی منعقد نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے ہی ملنا جلنا شروع کیا تو سرگوشیاں شروع ہو جائیں گی۔ جیسے ہی وہ متحرک ہوئے، لوگ وزیر اعظم کے پاس جا کر انہیں اس ابھرتے ہوئے ''سیاسی خطرے‘‘ سے آگاہ کرنا شروع کر دیں گے۔ دراصل یہی وقت وزیر اعظم عمران خان کا امتحان ہو گا کہ وہ ایسی باتوں پر کان دھر کر صدر کو پہلے کی طرح بے معنی عہدہ بنا دیتے ہیں یا اسے واقعی وفاق کی علامت سمجھ کر اس کی عزت کی بحالی میں تعاون کرتے ہیں۔ شاید عمران خان یہ سمجھ جائیں کہ دستور کے مطابق ملک کا نظام چلانا وزیر اعظم کی ہی ذمہ داری ہے مگر اسی دستور کے تحت یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کا صدر سچ مُچ کا صدر لگے، مٹی کا مادھو معلوم نہ ہو۔
اب ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان بنتے ہیں یا مٹی کے مادھو، یہ دیکھنے کے لیے چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں