"HAC" (space) message & send to 7575

سرکاری گھر

پاکستان کے ہر ضلعے میں ڈپٹی کمشنر ہاؤس، ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہاؤس اور نجانے کیا کیا ہاؤس عام آدمی کے لئے پراسراریت کی چادر میں لپٹے رہتے ہیں۔ ان تمام بنگلوں کا انداز تعمیر وہی ہے جو انگریز نے ڈیڑھ سو برس پہلے طے کیا تھا۔ اس انداز تعمیر کی خاص بات ہے کہ اصل رہنے کی عمارت کے چاروں طرف درجنوں کنالوں پر پھیلے ہوئے سبزہ زار بنائے جاتے ہیں تاکہ یہاں آنے والے ملاقاتی کو صاحب کی رہائش تک پہنچتے پہنچتے اپنی اوقات اور صاحب کی شان کا اندازہ بھی ہو جائے۔ انگریز کے ذہن کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے برصغیر کو غلام رکھنے کے لیے فن تعمیر کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ اس کا دیا ہوا یہ سامراجی فن تعمیر آزادی کے بعد بھی متروک نہیں ہوا۔ خاص طور پر پاکستان میں جو اضلاع انیس سو سینتالیس کے بعد وجود میں آئے وہاں پر بھی جب لاٹ صاحب یا پولیس کپتان کی رہائش گاہیں بنائی گئیں تو ان کی تعمیر میں بھی رعونت گویا سمو دی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آزادی کے بعد بھی مقصود لوگوں کو قابو میں ہی رکھنا تھا، انہیں حرّیت فکر و خیال سے آراستہ کرنا مطلوب نہیں تھا۔ ضلعی حکام کے لیے سامراجی دور میں جو محلات تعمیر ہوئے ان میں کہیں کہیں حسِ لطیف کا وجود بھی محسوس ہوتا ہے‘ لیکن ہم نے بعد از آزادی جو کچھ بنایا اس میں ہمارا پھوہڑ پن اور اکڑ زیادہ برہنہ ہو کر سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر ستر اور اسی کی دہائی میں اس طرح کے جو بنگلے تعمیر کیے گئے انہیں دیکھ کر ان کے نقشہ ساز کو جلّاد کے حوالے کرنے کا دل چاہتا ہے۔ ان عمارتوں میں صرف ایک بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ عمارت اتنی سنگین اور بھدی ہو کہ اپنے مکین کی شخصیت کو بھی انا کے ٹیکے لگا لگا کر مزید بھدا کر دے۔ یہ ناقابل دید عمارتیں چونکہ اقتدار و اختیار کی علامت سمجھی جاتی تھیں اس لیے لاہور میں رہنے والے ایک بڑے کاروباری نے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اپنے طرح طرح کے کارخانوں کی ظاہری شکل ایسی ہی بنوائی کہ ان پر سرکاری ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ اسّی اور نوے کی دہائیوں میں یہ طرزِ تعمیر عوام تک آ گیا۔ وہ مکان بھی‘ جو اس عرصے میں سعودی عرب اور دبئی کے پیسے سے بنائے گئے، اسی شکل کے تھے، یعنی مکان کے سامنے والے حصے میں دوسری منزل تک جاتے ہوئے ستون جن کے اوپر ایک چھجہ نما چھت جو سایہ دے سکتی ہے نہ اس پر چڑھ کر پتنگ اڑائی جا سکتی ہے۔ 
ضلع حاکموں کے سرکاری گھروں نے صرف ہمارے ذوقِ تعمیرات کو ہی برباد نہیں کیا بلکہ یہ مکانات عوام کو ان کے شودر ہونے کے احساس میں مبتلا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان میں رہنے والے برہمنوں نے اپنے اندازِ حاکمیت سے ایسی پچکی ہوئی قوم پیدا کی‘ جس کے تخیل کی بلندی ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ سامراج کی نشانی ہونے کے علاوہ یہ مکان، ان کے ملازم اور ان کی تام جھام اربوں روپے سالانہ لے جاتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ پرانے وقتوں کی طرح اب ان مکانات میں صاحب لوگ رہتے ہی نہیں۔ لاٹ صاحب نے اپنے اثر و رسوخ سے عام طور پر ایک سرکاری گھر لاہور، راولپنڈی یا کسی بڑے شہر میں بھی قابو کیا ہوتا ہے جہاں ان کا خاندان رہتا ہے۔ صاحب اپنی تعیناتی کی ضلعے میں ملے ہوئے سرکاری گھر میں دوستوں کے ساتھ شبینہ مجالس منعقدکرتے رہتے ہیں۔ جب موڈ ہوتا ہے تو بہترین گاڑی میں بیوی بچوں کے پاس تشریف لے آتے ہیں۔ اور اگر لاٹ صاحب یا پولیس کپتان شب بیداریوں کے رسیا نہیں تو ان کے گھر کے چکر بڑھ جاتے ہیں اور ضلعے میں مکان خالی پڑا رہتا ہے۔
ہمارے دیس میں سرکاری مکانات کی کہانی اضلاع کے شاہانہ گھروں تک ہی محدود نہیں، مختلف شہروں کے جی او آر الگ داستانیں ہیں۔ جی او آر کے چار چار اور چھ چھ کنال کے سرکاری مکان میں رہنا ایسا نشہ ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہیں اترتا۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد یہ لوگ ان عالی شان مکانات میں کچھ عرصہ مزید رہنے کے لیے پاپڑ بیلتے رہتے ہیں۔ کوئی قانون کی کتابوں سے اپنے حقِ رہائش کی شق نکال کر ڈٹا رہتا ہے اور کوئی جان کو لاحق خطرے کے نام پر اس پر قبضہ جمائے رکھتا ہے۔ چند اتنے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ سرکاری مکان سے ان کا جنازہ ہی نکلتا ہے کیونکہ ان کی اولاد میں سے بھی کوئی اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کر لیتا ہے اور اس چکر میں سرکاری مکان ان کے قبضے میں رہتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازموں کے سرکاری گھروں کی تعداد اور سائز کے بارے میں اگر امریکہ یا برطانیہ کے سرکاری ملازمین کو بتایا جائے تو وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری طور پر حکومتِ پاکستان کی ملازمت کو اپنے ملک کی نوکری پر ترجیح دیں گے۔ ہمارے صوبائی سیکرٹری، چیف سیکرٹری، پولیس افسران، وفاقی سیکرٹری اور وزراء جس طرح کے مکانوں میں رہتے ہیں ان کا ترقی یافتہ دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مہذب ملکوں میں چند ایک سرکاری رہائش گاہیں ہوتی ہیں‘ جن میں اعلیٰ ترین دستوری عہدوں پر آنے والے افراد اپنے عہدے کی مدت کے لیے رہتے ہیں۔ ہمارے پیارے ملک میں صرف وفاقی حکومت کے پاس اٹھائیس ہزار سے زیادہ گھر ہیں جو میرے آپ کے پیسے سے بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر صوبائی حکومت کے پاس ہزاروں کی تعداد میں رہائش گاہیں ہیں جہاں رہ کر سرکاری افسران اس غریب قوم کو مزید غریب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ کنالوں اور ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ان محلّات میں وہ لوگ رہتے ہیں جنہیں سول سرونٹ یعنی عوام کا نوکر ہونے کا دعویٰ ہے۔ 
عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے سرکاری محلات کی بحث چھیڑ کر اس غریب قوم کو کم از کم یہ احساس دلا دیا ہے کہ بڑے بڑے سرکاری مکان قومی عظمت کا نشان نہیں بلکہ حکمرانوں کے چھوٹے پن کی دلیل ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہ کر، گورنر ہاؤسز کو عوام کے لیے کھولنے کا آغاز کر کے اور حکومت میں عمومی سادگی اختیار کر کے وہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان میں کچھ نیا پن آ رہا ہے۔ یہ نیا پن ابھی تک کچا ہے کہ بات وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس تک ہی محدود ہے۔ پاکستان میں اس تبدیلی کو مستقل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان میں سرکاری مکان کا زیادہ سے زیادہ سائز ایک کنال کر دیا جائے۔ ایسا ملک جہاں اسی فیصد سے زائد آبادی پانچ مرلے یا اس سے کم جگہ میں زندگی گزار رہی ہے، وہاں ایک کنال کا سرکاری مکان برتری کے لئے خاصا مناسب ثبوت ہے۔ ہمارا وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ ، وزراء اور سیکرٹریز اگر ایک کنال کے گھر میں رہیں گے‘ تو یقین مانیے ان کی کارکردگی موجودہ معیار سے بد تر نہیں ہو گی کیونکہ نالائقی اور نااہلی کے جو معیارات ہم نے قائم کر دیے ہیں اس سے کم کچھ ممکن ہی نہیں۔ اگر ایک کنال کا یہ اصول صرف اسلام آباد میں ہی لاگو کر دیا جائے تو کم ازکم چھ گنا زیادہ سرکاری رہائش گاہیں میسر آ جائیں گی۔ اسی طرح لاہور، کراچی اور دوسرے شہروں میں جی او آر میں رہنے والے افسروں کو اسی جگہ بہترین اپارٹمنٹس والی کثیر منزلہ عمارتوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہر شہر میں اتنی جگہ ضرور مل جائے گی کہ وہاں کے شہریوں کے لیے ایک پارک اور کھیل کا ایک میدان نکل آئے۔ اس سے کہیں بڑھ کر یہ بڑے بڑے سرکاری مکان عوام میں جو احساس کمتری پیدا کرتے ہیں، وہ بھی کسی حد تک ختم ہو جائے گا۔ یہی اصلی اور نظر آنے والی تبدیلی ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں