"HAC" (space) message & send to 7575

عوام اور جنابِ چیف جسٹس

اس کی عمر کوئی پچاس برس ہو گی۔ دوپہر کے وقت وہ لاہور کے ہال روڈ کے ایک فٹ پاتھ ریستوران پر بیٹھا اپنا کھانا ختم کر چکا تھا جب میں نے اس کے سامنے دنیا ٹی وی کا مائیک کر دیا۔ مائیک اور کیمرا دیکھ کر اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا، سکون سے پانی کے دو گلاس پی کر بولا، ''ہن دسو‘‘ (اب بتائیے)۔ میں نے مشینی انداز میں سوال کیا، ''کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قوم اتنا پیسہ اکٹھا کر لے گی کہ دیامیر بھاشا ڈیم بنایا جا سکے؟‘‘۔ بولا، ''کیوں نہیں بن سکتا، جب ہمارے چیف جسٹس صاحب نے اعلان کر دیا ہے تو دیکھنا یہ قوم پیسہ پیسہ جوڑ کر ڈیم بنا لے گی‘‘۔ جیسے ہی اس نے چیف جسٹس کا نام لیا مجھے تجسس ہوا کہ ان کے بارے میں اس کے خیالات مزید کریدوں۔ میں نے مائیک ہٹایا اور اس کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھ کر ہی اس سے گفتگو شروع کر دی۔ چیف جسٹس صاحب کے بارے میں مسلم لیگ ن کیا سوچتی ہے، پڑھے لکھے لوگ کیا کہتے ہیں، ان کے قانونی نقطۂ نظر سے وکیلوں کو کیا اختلافات ہیں، یہ سب کچھ مجھے معلوم ہے۔ میں اس دیہاتی نظر آنے والے سے سننا چاہتا تھا کہ اسے چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار پر اعتماد کیوں ہے۔ میں نے اسے اس کے مؤقف سے ہٹانے کے لیے کبھی تو لاکھوں مقدمات میں ہونے والی تاخیر کا ذکر کیا، کبھی مسلم لیگ ن والوں کے اعتراضات کا حوالہ دیا تو کبھی دستور کا تذکرہ کیا۔ اس نے ترنت میری تینوں باتوں کا جواب دے ڈالا۔ اس کا کہنا تھا کہ لاکھوں مقدمات تو چھوٹے چھوٹے ہیں اصل بات ہے بڑے مقدموں کی اور وہ تو روز سنے جا رہے ہیں، مسلم لیگ ن والوں کو چوٹ لگی ہے وہ تو روئیں گے‘ باقی رہ گئی بات دستور کی تو بھائی بتاؤ دستور میں کہاں لکھا ہے کہ ڈیم نہیں بنانا۔ آپ کی طرح میرے ذہن میں بھی اس کے دلائل کا جواب بل کھا کر اٹھا مگر میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ سامنے پڑی پلاسٹک کی میز سے اپنا صافہ اٹھا کر چلنے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ میں نے مائیک پکڑا اور اٹھ کر آگے چل دیا۔ 
میں نے سوچ لیا تھا کہ اب جس جس سے ڈیم کی بات ہو گی اس سے چیف جسٹس صاحب کے بارے میں بھی پوچھوں گا۔ چلتے چلتے سواری کے انتظار میں کھڑے ایک رکشے والے سے پوچھا۔ وہ بھی چندہ اکٹھا کرکے ڈیم بنانے کا قائل نکلا۔ چیف جسٹس کے بارے میں پوچھا تو بولا، ''اس بندے کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے، اس نے ہمیں بتا دیا کہ ڈیم نہ بنایا تو پیاسے مر جائیں گے، ورنہ سیاستدانوں نے تو ہمیں مروا دینا تھا‘‘۔ ایک دکاندار کے آگے مائیک کیا تو وہ بولا، ''تاجر ڈیم فنڈ میں کھل کر روپیہ دیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ چیف جسٹس صاحب ہمارے پیسوں کا دھیان رکھیں گے‘‘۔ ہال روڈ پر ملنے والے پہلے شخص سے لے کر آخری بزرگ جوڑے تک جس سے بھی بات کی اس نے یقین دلایا کہ قوم ڈیم فنڈ میں اتنا پیسہ بھر دے گی کہ ایک نہیں کئی ڈیم بن جائیں گے اور ہر کسی نے عدلیہ کے اس کردار کو سراہا جو وہ ڈیم کے لیے ادا کر رہی ہے۔ 
سب جانتے ہیں کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نظام عدل کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جس دن میں سروے کے لیے لاہور کی سڑکوں پر لوگوں سے بات کر رہا تھا اس سے ایک روز پہلے احسن اقبال طنزیہ انداز میں فرمان جاری کر چکے تھے کہ ڈیم چندوں سے نہیں بنتے مگر لوگ چندے کے زور پر ہی ڈیم بنانے پر تلے نظر آ رہے تھے۔ کوئی فی کس پانچ روپے روز کے حساب سے پیسے جمع کرنے کی تجویز لیے ہوئے تھا اور کوئی دس روپے روزانہ اکٹھا کر کے ڈیم بنانے کے پیسے پورے کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ 
چیف جسٹس صاحب اور ان کی ڈیم بنانے کی کوششوں کے بارے میں جب عوامی رائے سنی تو خیال گزرا کہ عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کتابی معیارات اپنی جگہ لیکن عام آدمی کے خیالات بھی تو ایک پیمانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر سیاستدان بھی یہی کہتے ہیں ناں کہ عوام کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔ عوام کو شاید یہ اچھا لگ رہا ہے کہ کراچی میں پینے کے پانی کا معاملہ اٹھا کر، پنجاب کے ہسپتالوں میں جا کر، سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ میں رکاوٹ ڈال کر، تجاوزات کے خاتمے کے احکامات دے کر جناب چیف جسٹس نے وہ خلا پُر کیا ہے جو انتظامیہ نے اپنی برسوں کی نا اہلی سے پیدا کیا تھا۔ ماضی میں یہ خلا غیر جمہوری قوتوں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا، جبکہ چیف جسٹس صاحب نے دستور کے اندر رہتے ہوئے اس خلا کو پُر کیا ہے اور انتطامیہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ طاقتوروں کی لونڈی بننے کی بجائے قاعدے قانون کی پابند رہ کر عوام کی خدمت کرے۔ انتظامیہ کو متحرک کرنے کے لیے جناب چیف جسٹس نے جو کچھ بھی کیا، اس کی حیثیت قانون دانوں کے نزدیک نجانے کیا ہے مگر عوام کے نزدیک کرنے کا اصل کام یہی ہے۔ اگر دانشور امریکہ اور برطانیہ کی مثالیں دے کر عدلیہ کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں‘ تو پھر انہیں انتظامیہ کو بھی اسی معیار پر پرکھنا ہو گا۔ اگر ہمارے ہاں امریکہ اور برطانیہ جیسی انتظامیہ ہو جائے تو شاید عدلیہ کے بارے میں عام آدمی بھی دانشوروں کی رائے کو اہمیت دینے لگے۔ 
عوام کے اداروں کے بارے میں خیالات عام طور پر تاثر کی بنیاد پر ترتیب پاتے ہیں اور اس تاثر کی تشکیل میں اداروں کے سربراہوں کی شخصیت ہی فیصلہ کن عامل ہوتی ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کے بارے میں عوام کا تاثر ایک طاقتور ادارے کے طور پر ابھارنے میں بنیادی کردار سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ادا کیا۔ ان کی معزولی اور واپسی ہماری دستوری تاریخ کے ایسے واقعات ہیں جو مستقبل کی صورت گری بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے عدالتی فعالیت کی بنیاد رکھی لیکن اسے کوئی مثبت رخ نہیں دے سکے اور لوگوں نے اسے ان کے جانے کے فوراً بعد ہی فراموش کر دیا۔ ان کے برعکس چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی اختیارات کو ایک مثبت رخ دیا‘ اور اب تک کا عوامی تاثر بھی یہی ہے۔ انہوں نے قانون کے توسیع شدہ دائرے میں رہ کر عام آدمی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دور میں آئی جی پولیس اتنا طاقتور ہوا ہے کہ وہ سیاست دانوں کے خوف میں مبتلا نہ ہو۔ یہ بھی اسی دور میں ہوا ہے کہ بڑے سے بڑا افسر عدالت کے سامنے اپنے اعمال کا قانونی جواز پیش کر رہا ہے۔ وہ ملک جہاں کوئی ضلعی پولیس افسر اس لیے ہٹا دیا جائے کہ اس نے کسی صاحب کو پروٹوکول نہیں دیا تھا، وہاں عام آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایک ڈی پی او ہٹانے پر عدالت کے سامنے معذرت کرنا پڑ رہی ہے۔ صوبہ سندھ میں جہاں سرکاری افسر سیاستدانوں کا اشارۂ ابرو نہ سمجھنے پر نکال دیے جاتے تھے، وہاں کے سیاستدان بھی عدالت کے خوف سے کینڈے میں آ رہے ہیں۔ سیاست اور بیوروکریسی کے درمیان مٹی ہوئی لکیریں قانون کے قلم سے پھر سے نمایاں ہو رہی ہیں۔
مغرب کے ایک ماہر سیاسیات نے کہا تھا ''قانون کی خشک ہڈیوں پر روایات جِلد کی طرح ہیں جو اسے قابلِ قبول شکل دیتی ہیں‘‘۔ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کا نتیجہ ہے کہ یہاں نئی دستوری روایات جنم لے رہی ہیں۔ ان میں سے ایک انتظامیہ پر عدلیہ کی مسلسل کڑی نظر بھی ہے۔ اس کڑی نظر کے نتائج کیا رہے ہیں اور کیا ہوں گے، یہ فیصلہ آج نہیں کچھ سالوں بعد ہو گا۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس روایت کو بڑھتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ فی الحال تو جناب چیف جسٹس وہی کر رہے ہیں جو عوام کے دل میں ہے۔ تجزیہ کار اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر جو چاہے کہتے رہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں