"HAC" (space) message & send to 7575

چین میں پانچ دن …(1)

اسلام آباد سے بیجنگ جانے کے لیے پی آئی اے کی جو پرواز میسر آئی اس میں یہ انتظام تھا کہ مسافر اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے جہاز کے کیبن کی چھت سے لٹکی ہوئی سکرین پر کوئی فلم دیکھ سکے۔ نئے جہازوں میں تو ہر سیٹ پر ایک سکرین لگا دی جاتی ہے اور مسافر اپنی مرضی کا پروگرام دیکھ سکتا ہے۔ ہمارا جہاز کچھ پرانا تھا، اس لیے اس میں ٹی وی سکرین کے انتظامات بھی پرانے ہی تھے۔ عام طور پر زمین پر کھڑے جہاز میں یہ سکرینیں سوائے ایئر لائن کے نام کے اور کچھ نہیں دکھاتیں، لیکن پرواز کے ہموار ہوتے ہی ان پر کچھ نہ کچھ چلا دیا جاتا ہے۔ اس جہاز میں نجانے کیا تھا کہ یہ تمام سکرینیں مکمل طور پر بند تھیں۔ جب جہاز اڑا تو خیال گزرا کہ اب تب میں کوئی نہ کوئی فلم یا ڈرامہ ان سکرینوں پر دکھائی دینے لگے گا۔ جہاز کی پرواز ہموارہو گئی، اچھا خاصا وقت گزر گیا لیکن ہر سکرین تاریک تھی۔ اچانک یاد آیا کہ ہمیں تو وہ ہیڈ فون بھی نہیں دیا گیا جو بین الاقوامی پروازوں کے دوران مسافروں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ سکرین پر چلتی فلم کی آواز سننا چاہیں تو وہ سنیں یا جہاز میں فراہم کردہ موسیقی وغیرہ سن لیں۔ سوچا کہ ایئر ہوسٹس سے پوچھ کر معلوم کر لیا جائے کہ ان ہیڈ فونز کا کیا بنا۔ ذہن میں یہ خیال گزرا ہی تھا کہ جہاز کسی ایئر پاکٹ میں داخل ہوا اور اسے ہلکا سا جھٹکا لگا۔ اس جھٹکے کے ساتھ ہی جہاز کی چھت کے ساتھ لگی تمام سکرینیں بیک وقت روشن ہو گئیں اور ان پر جہاز میں موجود مسافروں کے لیے خیر مقدمی کلمات جگمکانے لگے۔ ایک دو منٹ ہی گزرے تھے کہ جہاز کو ایک ہلکا سا جھٹکا اور لگا تو یہ تمام سکرینیں تاریک پڑ گئیں۔ دو چار منٹ بعد پھر جھٹکا لگا تو یہ سکرینیں زندہ ہو گئیںاور ان پر ایک نقشہ نمودار ہوا جس کے مطابق ہمارا جہاز چین کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد لگنے والے جھٹکے میں سکرینیں پھر مردہ ہو گئیں۔ اس کے بعد تقریباً ہر جھٹکے میں یہی ہوتا کہ کبھی آن اور کبھی آف۔ تقریباً اس لیے کہا ہے کہ کچھ جھٹکے ایسے تھے جن کے بعد بھی سکرین اگر روشن تھی تو روشن ہی رہی یا تاریک تھی تو تاریک ہی رہی؛ البتہ جب بیجنگ پہنچے تو اس وقت جہاز کی ہر سکرین روشن تھی اور اس پر بنے نقشے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ہم چین پہنچ چکے ہیں۔ 
بیجنگ ایئر پورٹ غیر معمولی نہیں لگا۔ جہاز سے بس کے ذریعے مسافروں کو امیگریشن کے لیے لے جایا گیا۔ وہ برقی زینہ جہاں سے امیگریشن کے لیے جانا تھا، خراب ہو چکا تھا۔ ایک چھوٹی سی لفٹ تھی جس کے سامنے مسافروں کی ایک لمبی قطار تھی۔ آخر کار باری آئی تو ہم رات بھر کے جاگے اپنا اپنا سامان اور خود کو گھسیٹ کر اس میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد طویل راہداریوں سے گزر کر وہاں پہنچے جہاں پاسپورٹ پر داخلے کی مہر لگتی ہے۔ سادہ سا ہال تھا جہاں تھکا دینے والی سست رفتاری سے کام چل رہا تھا۔ پاک چین دوستی کی ہمالیہ سے زیادہ بلندی اور سمندر سے زیادہ گہرائی کا کوئی تاثر کم از کم اس ہال میں نہیں ملا۔ پاکستانی پاسپورٹ پر چین میں داخلے کی مہر لگانے والے نے سوکھے منہ سے خوش آمدید بھی نہیں کہا۔ ویسے تو سوائے یورپ اور امریکا کے ہر جگہ امیگریشن کاؤنٹر پر بیٹھا شخص درشتی کے ساتھ ہی پیش آتا ہے مگر چین کے امیگریشن افسر پاکستان کے امیگریشن افسروں کی طرح ہی بے مروّت سے لگے۔ سوچا، جب بیرونِ ملک سے واپس پاکستان آتے ہیں تو ہمارے افسر اگر اپنے ہم وطنوں کو خیریت سے وطن واپس آنے پر مسکرا کر خوش آمدید کہہ دیا کریں تو کتنا اچھا لگے۔ اگر بلند اور گہری دوستی والے ملک میں ہمیں چینی افسر مسکرا کر خوش آمدید کہہ دیتے تو کتنا اچھا لگتا۔ البتہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ امیگریشن سے فارغ ہوتے ہی ہمارا سامان گھومنے والے پٹے پر پڑا مسلسل گھوم رہا تھا۔ سامان لے کر باہر نکلے تو فضا میں کچھ خنکی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے بارش بھی ہوئی تھی اس لیے ماحول غیر معمولی طور پر صاف نظر آ رہا تھا۔ 
بیجنگ میں ہماری معاونت کے لیے دو چینی خواتین مقرر تھیں جو ہمیں ایک بس تک لے گئیں۔ بس میں بٹھانے سے پہلے انہوں نے مشینی انداز میں ہمیں گنا تو ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے بھی اسی وقت معلوم ہوا کہ ہمارا وفد تیرہ لوگوں پر مشتمل ہے، جس میں دس صحافی، ایک لکھاری، ایک فوٹو گرافر اور ایک سابق سفارت کار‘ شامل ہیں۔ بس میں بیٹھ کر یہ بھی علم ہوا کہ ہماری رہنمائی کی ذمہ داری ہمارے ساتھ موجود ڈاکٹر ظفر محمود صاحب پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب چینی زبان چینیوں کی طرح بولتے ہیں اور پاکستان کی طرف سے بیجنگ میں سی پیک کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وفد میں میرے سمیت چار لوگ وہ تھے جو پہلی بار چین آئے تھے اور باقی تمام لوگ وہ تھے جو کئی بار یہاں آ چکے تھے۔ بس چلی تو ڈاکٹر صاحب سے سوال جواب شروع ہو گئے۔ سی پیک کیا ہے، اس میں گھپلا کہاں کہاں ہے، ''چائنا‘‘ کا مال اتنا گھٹیا کیوں ہوتا ہے، مسلم لیگ ن والوں نے سی پیک سے مال کہاں کہاں بنایا وغیرہ وغیرہ ۔ ڈاکٹر صاحب چین پر بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے تاریخ، شماریات اور سیاسیات کے علوم ان کی گفتگو میں گندھ گئے ہیں لیکن مجال ہے کسی ایک فقرے سے بھی علم کا رعب ٹپکے۔ جہاں ضرورت محسوس کی مستند حوالہ دے دیا اور بس۔ چین میں جا کر ان کے جوہر کھلنا شروع ہوئے اور کھلتے ہی چلے گئے۔ اسی گفتگو میں بیجنگ شہر نظر آنا شروع ہو گیا اور وہ سب کچھ جو چین کے بارے میں پڑھ یا سن رکھا تھا بہت کم بلکہ غلط معلوم ہونے لگا۔ 
بیجنگ میں دو کروڑ لوگ بستے ہیں۔ اس کی سڑکوں پر دنیا کی بہترین گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ میں نے بیجنگ کی صرف وہی تصویریں دیکھ رکھی تھیں جن میں چین کی مخصوص قسم کی قدیم عمارتیں ہی دکھائی گئی تھیں۔ آج کی صورت یہ ہے کہ اس شہر کی جدت، قدامت کو نگل گئی ہے۔ عورتیں ہیںمرد، ان میں سے کوئی ایک بھی روایتی چینی لباس میں نظر نہیں آتا۔ ہر ایک نے جدید تراش کا مغربی لباس اپنا لیا ہے۔ سڑکیں اتنی صاف ہیں کہ نئی بنی معلوم ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا یہ احساس کہ یہ شہر اچانک ملی ہوئی دولت سے تعمیر نہیں ہوا بلکہ دن رات کی مشقت سے بنا ہے۔ ارشاد احمد عارف‘ جو اس شہر میں آخری بار تیس برس پہلے آئے تھے‘ بتانے لگے کہ اس وقت ایئر پورٹ سے شہر کو جانے والی سڑک پر چلتے ہوئے ہم بیجنگ کا مقابلہ لاہور سے کر رہے تھے اور لاہور ہمیں اس سے بدرجہا بہتر نظر آتا تھا۔ آج جبکہ لاہور نے بھی پچھلے تیس برس میں بڑی ترقی کی ہے لیکن بیجنگ کی ترقی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس نے تیس برس میں دو صدیوں کا سفر طے کر لیا ہے۔ میں بس کی کھڑکی سے نظر آنے والے بیجنگ سے ایک دیہاتی کی طرح مبہوت ہو چکا تھا۔ حیرت میں گم مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ بس رک چکی ہے۔ فوٹو گرافر عامر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ''حبیب بھائی، گاڑی سے اتریں‘‘۔ میں نے اپنا آپ سنبھالا اور ایک ایسی عمارت میں داخل ہو گیا‘ جس کا ہر گوشہ صبح کے ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی سے منور تھا۔ مجھے اپنا آپ اس غریب جیسا لگا جو اپنے امیر دوست کے گھر پہلی بار آیا ہے اور ہر چیزکو دیکھ کر اسے اپنی غربت کا احساس کچھ زیادہ ہونے لگا ہے۔ (جاری) 
مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ میں نے بیجنگ کی صرف وہی تصویریں دیکھ رکھی تھیں جن میں چین کی مخصوص قسم کی قدیم عمارتیں ہی دکھائی گئی تھیں۔ آج کی صورت یہ ہے کہ اس شہر کی جدت، قدامت کو نگل گئی ہے۔ عورتیں ہیںمرد، ان میں سے کوئی ایک بھی روایتی چینی لباس میں نظر نہیں آتا۔ ہر ایک نے جدید تراش کا مغربی لباس اپنا لیا ہے۔ سڑکیں اتنی صاف ہیں کہ نئی بنی معلوم ہوتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں