"HAC" (space) message & send to 7575

غربت

چین کے دارالحکومت بیجنگ کے پوش علاقے کی ایک کثیر منزلہ عمارت ملک میں غربت کو ختم کرنے کے لیے قائم کردہ ادارے کے دفاتر کے لیے مختص ہے۔ غربت کے خاتمے کا یہ دفتر بہترین علاقے میں واقع ہونے کے باعث باہر سے تو بڑا خوبصورت ہے لیکن اندر سے اسے شاید جان بوجھ کر سادہ رکھا گیا ہے کہ یہاں کام کرنے والوں کو غربت اور غریب کا احساس رہے۔ ڈاکٹر ہوانگ چنگ وی اس ادارے کے سربراہ ہونے کی حیثیت میں ملک بھر میں غربت کے خاتمے کے جاری پروگراموں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ لباس اور اطوار کے لحاظ سے یہ عام سا آدمی جب بولنے لگتا ہے تو کتابی علم اور تجربے کا گہرا شعور اس کی باتوں میں جھلکتا ہے۔ وہ تین بار پاکستان آ چکے ہیں ، اس کے چاروں صوبوں میں خوب سفر بھی کیا ہے اس لیے انہیں ہمارے لوگوں کی غربت کا بھی خوب اندازہ ہے۔ بیجنگ میں انہوں نے پاکستانی صحافیوں کے لیے خاص طور پر وقت نکالا اور اپنے حیران کن تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ہوشربا حد تک سادہ دس نکاتی فارمولا بھی بتا دیا‘ جو ان کے خیال میں دنیا کے کسی بھی ملک میں آزمایا جائے تو وہاں سے غربت کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ 
ان کے بیان کردہ فارمولے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ غربت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک حکومت اسے ختم نہ کرنا چاہے۔ لہٰذا سیاسی عزم غربت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہے، اگر یہ نہیں ہو گا تو کچھ بھی نہیں ہو پائے گا‘ اور غربت کے خاتمے لیے سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو پھر اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ چین میں یہ اتفاق رائے پیدا کرنا اس لیے آسان رہا ہے کہ وہاں ایک پارٹی کی حکومت ہے، جو ایک بار طے ہو گیا سو ہو گیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں سمیت صوبائی حکومتوں کو اس کام کے لیے تیار کرنا اہم ترین بھی اور مشکل ترین بھی۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غربت کے خاتمے کا آغاز منتخب دیہات سے کیا جائے۔ دیہی آبادی زراعت سے جڑی ہوتی ہے اور ان کے حالات میں آنے والی بہتری کا پہلا نتیجہ زرعی پیداوار کے اضافے کی صورت میں نکلتا ہے‘ جس کا فائدہ براہ راست ملکی معیشت کو پہنچتا ہے۔ چین نے اپنے ہاں غربت کے خاتمے کے لیے بیک وقت پورے ملک میں پروگرام شروع کرنے کی بجائے دس فیصد یا بیس فیصد دیہات کو منتخب کر کے کام شروع کیا۔ وہاں کے سیاسی ماحول میں یہ کام شاید آسان ہو گا مگر پاکستان کے چاروں صوبوں میں اس طرح کے منصوبے ایک ہی وقت میں شروع کرنا ناگزیر ہو گا ۔ اور اس کے لیے بھی سیاسی اتفاق رائے ضروری ہو گا۔ 
تیسرا نکتہ ہے کہ غریب علاقوں اور امیر علاقوں کے درمیان شراکت داری قائم کی جائے۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ کراچی شہر کے ذمے لگایا جائے کہ وہ ٹھٹھہ کے غریب علاقوں کے لیے کام کرے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر سے رضا کاروں کو تیار کیا جائے کہ وہ اپنے پڑوسی ضلعے کے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ اسی طرح کسی ضلعے یا ڈویژن میں علاقے مختص کر کے کسی خوشحال علاقے کے ساتھ منسلک کر دیے جائیں۔ ہمارے پاس اس کا بہترین حل ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی صورت میں موجود ہے‘ جس میں امیر و غریب علاقے ایک اکائی میں جڑ جاتے ہیں اور یہ نچلی ترین سطح تک ہوتا ہے۔ کرنا فقط یہ ہے کہ اس نظام کو غربت کے خاتمے لیے تیار کیا جاتا رہے۔ 
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ امیر علاقوں میں کام کرنے والے افسروں کو غربت زدہ علاقوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ یہاں کے ماحول کو بھی اپنے پسندیدہ معیار تک لانے کی کوشش کریں۔ چین کے تجربے کے برعکس پاکستانی تصور یہ ہے کہ اچھے سرکاری ملازم کو اس کی من پسند جگہ پر پوسٹنگ دی جائے۔ اب ذرا تصور کریں کہ پاکستان کے بہترین افسر تھرپارکر میں تعینات ہوتے تو کیا وہاں بھوک سے بچے مر رہے ہوتے، زرعی ملک کے ہی ایک حصے میں قحط پڑا ہوتا؟ بلوچستان میں تجربہ کار افسر مقرر ہوتے تو کیا وہاں بہتری کے آثار نہ پیدا ہو چکے ہوتے؟
پانچواں یہ کہ سرکاری اور نجی تجارتی اداروں کو غربت کے خاتمے کے پروگرام میں رضا کارانہ طور پر طے شدہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ تجربہ صرف چین نے ہی نہیں اس سے پہلے دنیا کے کئی ملکوں نے کیا کہ بڑی بڑی کمپنیوں کو دیہی علاقوں میں اپنے دفاتر بنانے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی گئی۔ اس سے جہاں شہروں میں آبادی کا دباؤ کم ہوا‘ وہاں پسماندہ علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ اس طرح کا ایک تجربہ آئی سی آئی پاکستان کا ہے کہ جس نے پنڈ دادن خان اور کھیوڑہ میں کئی ایسے کام کیے جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آئی۔ ہمیں اسی تجربے کو ملک کے دوسرے حصوں میں دہراتے چلے جانا ہے اور اس کے لیے ٹیکس کی چھوٹ بھی دینی پڑے تو دی جائے۔
چھٹا نکتہ یہ کہ قانون سازی کے ذریعے یقینی بنایا جائے کہ مرکزی حکومت، صوبائی حکومتیں‘ حتیٰ کہ شہری حکومتیں بھی غربت کے خاتمے لیے سرمایہ مختص کریں۔ غربت کے خاتمے کے لیے نعرے بازی کی بجائے قانون سازی زیادہ مؤثر رہتی ہے۔ اگر واقعی غربت ختم کرنا ہے تو پھر ہمیں وفاق سے لے کر نیچے تک بجٹ میںکسی علاقے کا نام بتا کر ہر سال کچھ پیسے رکھنا ہوں گے، تاکہ ساری کوششیں نتیجہ خیز بھی ہو سکیں۔ پھر ان پیسوں کا مناسب استعمال بھی یقینی بنانا ہو گا‘ کیونکہ ہمارے ہاں پیسے تو بجٹ میں رکھ لیے جاتے ہیں مگر سال کے آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سے کچھ لگا ہی نہیں۔
ساتواں نکتہ یہ کہ سرکاری ملازمین اور غربت کے خاتمے کے پروگرام سے منسلک افراد کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ پالیسی سازی میں رائے دیتے ہوئے اور کسی مخصوص پالیسی کو نافذ کرتے ہوئے غربت کے خاتمے کو مدنظر رکھیں۔ پاکستان میں شاید اس سے اہم کام ہی کوئی نہیں۔ آپ اسلام آباد میں پالیسی سازوں سے غربت کی بات کریں تو وہ آپ کو دنیا بھر کے تجربے غلط سلط انداز میں بتا دیں گے‘ مگر انہیں اپنے ملک کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو گا۔ اِدھر اُدھر کی مار کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مخاطب کو قائل کر لیا ہے‘ جبکہ یہ اناپ شناپ سننے والا ان کی لا علمی کا ماتم کرتے ہوئے خاموشی سے اٹھ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو سمجھائیں کہ غریب علاقوں میں انہیں تعلیم و تربیت کا نظام کیا رکھنا ہے۔ طے شدہ اہداف حاصل کیسے کرنے ہیں، اداروں کے کام میں یکسانیت کیسے پیدا کرنی ہے۔ ورنہ سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرنے والے دعوے کرتے رہیں گے اور ہو گا کچھ بھی نہیں۔ 
آٹھواں نکتہ یہ کہ جو لوگ غریب ہیں انہیں سمجھایا جائے کہ غربت ان کا مقدر نہیں، انہیں روشن مستقبل کی امید دلائی جائے۔ یہ کام تبھی ممکن ہے جب لوگ اپنے لیے کچھ ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کھوکھلی تقریریں سن کر لوگ سمجھیں کہ وہ امیر ہو گئے ہیں۔ انہیں پولیس ، ہسپتال اور دیگر سرکاری سہولیات تک عزت سے رسائی ملے گی تو صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔
نواں نکتہ یہ کہ غربت کے خاتمے کے پروگرام کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔ اس پروگرام سے متعلق لوگوں کے لیے پہلی شرط ہی خود کو مسلسل احتساب کے لیے پیش کرتے رہنا ہے۔ پہلے سے طے کردہ پیمانوں پر کارکردگی جانچتے رہنا اس طرح کے پروگراموں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ مانیٹرنگ کا یہ نظام اندرونی بھی ہو سکتا ہے اور نجی شعبے کے ذریعے زمینی حقائق جاننے کا بھی کوئی نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ دیکھنا ہے کہ جو منصوبہ بنایا گیا تھا وہ رو بہ عمل ہے یا نہیں۔ 
دسواں اور آخری نکتہ یہ ہے کہ غربت کے خاتمے کا کوئی معیار اپنے ماحول کے مطابق بنائیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے بہتر بناتے جائیں۔ چین نے ابتدا میں غربت کی تعریف وہ رکھی جو ورلڈ بینک کے معیار سے نیچے تھی‘ اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آج وہاں غربت کا پیمانہ ورلڈ بینک کے طے کردہ معیار سے اوپر چلا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی ضروریات کے مطابق غربت کی پاکستانی تعریف کرنا ہو گی تاکہ ہم عالمی اداروں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ بھاگتے رہیں بلکہ اپنے طے کردہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ 
غربت کے خاتمے کا یہ چینی فارمولا صرف اس لیے لکھا ہے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ پاکستانیوں کو کچھ پتا نہیں۔ ہمیں سب پتا ہے، بس ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم واقعی غربت ختم کرنا چاہتے تو چین کے اس پروگرام کے نغمے گانے والے ہمارے وزیر اعظم چین کے پنج روزہ دورے میں ڈاکٹر ہوانگ چن وی سے نہ مل لیتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں