"HAC" (space) message & send to 7575

اناڑی

دس برس ہوتے ہیں کہ دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہاکی میچ دیکھنے کااتفاق ہوا۔ سٹیڈیم بھارتی تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا اور ہم چند پاکستانی یوں سمجھ لیجیے کہ کونے میں لگے بیٹھے تھے۔ بھارت کی ٹیم میدان میں اتری تو سٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہماری ٹیم آئی تو ہم چند لوگ تھے جو تالیاں بجا رہے تھے۔ اتنے بڑے میدان میں چند لوگوں کی تالیاں صوتی اثر تو کیا ڈالتیں مگر یہ ضرور ہوا کہ ہمارے اردگرد بیٹھے لوگوں نے ہماری حوصلہ افزائی کے لیے ہمارا ساتھ دیا۔ میچ شروع ہوا تو یوں لگافضا میں بجلیاں کڑکنے لگی ہیں۔ بھارت کے کھلاڑی کے پاس گیند ہوتی تو سارے تماشائی داد دینے لگتے اور جب ہمارے کھلاڑی گیند لے کر مخالف کے گول کی طرف چلتے تو ہم لوگ تالیاں پیٹنا شروع کردیتے۔ پہلے پندرہ منٹ تو یہی ہوتا رہا کہ گیند کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف رہتی۔ پندرہ منٹ بعد مجھے اپنے کھلاڑیوں پر تھکن طاری ہوتی نظر آنے لگی اور ساتھ ہی بھارت نے پہلا گول کر لیا۔ اس کے بعد کے وقت میں پاکستانی ٹیم کی حالت یہ تھی قدموں میں توازن رہا تھا نہ ہاکی پر کوئی قابو۔ ایسے لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم نوجوانوں پر نہیں میرے جیسے سست الوجود ادھیڑ عمروں پر مشتمل ہیں جو ذرا سی جسمانی مشقت کے بعد ہی ہانپنے کانپنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد بھارت کی طرف سے مسلسل گول پر گول ہو رہے تھے اور ہماری بدحواس ٹیم اناڑیوں کی طرح ادھر ادھر ہاکیاں گھماتی پھر رہی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر میرے سامنے کی رو میں بیٹھے ایک بھارتی نوجوان نے سر پیچھے گھما کر مجھے مخاطب کیا اور اتنا کہا،''پاکستان کواپنی پروفیشنل ٹیم بھیجنی چاہیے تھی، آپ کے لڑکوں نے لٹیا ہی ڈبو دی ہے‘‘۔ غیر ملک میں کوئی پاکستان کے بارے میں بُرا کہے تودل پر چھری سی چل جاتی ہے اور بھارت میں میں یہی بات سنی تو گویا کہنے والے نے بھالا ہی مار دیا تھا۔ میرا دل چاہاکہ اس ٹیم کو کان پکڑوا دوں اور کوچ کو جیل بھیج دوں جس نے ان اناڑیوں کو میدان میں اتارا ہے۔
دس سال گزر گئے پھرکبھی خیالات میں اتنا تلاطم نہیں آیا کہ کسی کو سزا دینے پر دل مائل ہو، مگر گزشتہ جمعہ کو پھر وہی کیفیت دلِ ناداں پر طاری ہوئی جب صبح سویرے ڈالر کو ایک سو چونتیس سے ایک سو بیالیس روپے تک جاتے دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بائیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی حکومت ہے نہ کوئی وزیرخزانہ۔ کسی کو کاروبار کی سمجھ بوجھ ہے نہ معیشت کی سدھ بدھ۔ سارے کے سارے فیاض الحسن چوہان اور فواد چودھری جیسے زبان آور لوگ ہیں جن سے باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسد عمر پر غصہ آیا کہ یہ شخص تو حکومت میں آنے سے پہلے خاصی معقول باتیں کیا کرتا تھا، اب اسے کیا ہو گیا ہے؟حد تو یہ ہے کہ حکومت کی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل ثاقب شیرانی، فیصل باری ، نوید حامد اور ڈاکٹر اشفاق حسن خان جیسے ماہرین معاشیات کی صلاحیتوں پربھی شک ہونے لگا۔ وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد کے بارے وسوسے اٹھنے شروع ہوگئے۔یہ وہ لوگ ہیں جن سے ایک زمانہ معیشت پڑھتا ہے اور یہ لوگ حکومت کو اتنا بھی نہ سمجھا سکے کہ اس تیزی سے روپے کی گراوٹ کے بعد کوئی پاگل ہی ہوگا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوگا! سہ پہر کے قریب وزیراعظم عمران خان کسی تقریب سے خطاب فرما رہے تھے، جب انہوں نے کہا کہ''روپے کی قدر کم ہونے سے پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ تو مایوسی اور بھی زیادہ ہوگئی۔ یقین ہوگیا کہ اس حکومت کو سمجھانے والے تو بہت ہوں گے مگراس کے پاس سمجھنے والا کوئی نہیں۔ اپنی مدت کے پہلے سو دن میں ہی یہ تھک چکی ہے اور حالات کی باگیں اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ یہ تھکی ہوئی حکومت ملک سنبھالنا تو دور کی بات ہے خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہوگی۔ یہ اناڑیوں کی ٹیم ہے جو باتیں بناتی رہے گی ، اس سے کوئی کام نہیں ہونے والا۔ میں دس سال پہلے کی طرح آج بھی بے بس ہوں۔ اس ٹیم کو کان پکڑوا سکتا ہوں نہ اس کے کوچ کو جیل بھیج سکتا ہوں۔
معیشت کے بارے میں عمران خان سے لے کر فیصل واؤڈا تک اس حکومت کے لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے سن کر لگتا ہے کہ نازو نعم میں پلے ان لوگوں کو کاروبار، سرمایہ کاری، شرح نمو، روپے کی قدر اور افراط زر کے بارے میں سرے سے کچھ علم ہی نہیں۔ان لوگوں نے بلا سوچے سمجھے بیانات دے دے کر حکومت کے پہلے تین ہفتوں میں ہی ملکی معیشت پر سے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کرڈالا تھا۔ اس کے بعد احتساب ، احتساب کا ایسا غُل مچایا کہ سرکاری افسروں نے سوائے تنخواہ کے کسی چیک پر دستخط کرنا ہی چھوڑ دیے۔ ٹھیکیداروں کی ادائیگیاں رک گئیں، ٹھیکیدار جہاں سے مال اٹھاتے تھے وہاں بروقت پیسے نہ دے سکے، جو انہیں مال دیتاتھا وہ کارخانے والے کا مقروض ہوگیا اور کارخانے والا بینکوں کو ادائیگی کرنے سے لاچارہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہم بجلی کے گردشی قرضے کو روتے تھے اب بازار میں گردشی قرضے کا ماتم کریں گے۔ حکومت کی طرف سے پیسے کی بندش نے بازار ٹھنڈ ے کرکے رکھ دیے ہیں اور جو رہی سہی کسر تھی وہ ڈالر کے اتار چڑھاؤ نے پوری کر دی ہے۔ معیشت کا بھٹہ بٹھانے کے بعد مرغیاں اور کٹّے پالنے کے مشورے سن کر ملک کا کاروباری طبقہ اپنا سر نہ پیٹے تو کیا کرے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ اس حکومت کو ملکی معیشت اچھے حال میں نہیں ملی۔ بڑھا ہوا تجارتی خسارہ اور ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی کمی جیسے مسائل کسی بھی حکومت کے لیے مشکلا ت کا باعث بنتے ہیں لیکن ایسے میں حکومت کے اوسان خطا ہوجائیں تو مصیبت ٹلتی نہیں، بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ حکومت اپنے کام میں اناڑی نہ ہوتی تو یہ پہلے سو دنوں میں مقامی مشینری سے کام کرنے والی چھوٹی صنعتوں کوقرضے دینے کے لیے قدم اٹھا چکی ہوتی نہ کہ پالیسی کا اعلان کررہی ہوتی۔ بے تحاشا درآمدات کو روکنے کے لیے غیر معیاری اشیا کی درآمد روک دیتی تاکہ آئندہ ایک دو سال میں چھوٹے مقامی صنعتکاروں کے جی اٹھنے کا امکان پیدا ہوتا۔ اسے کچھ پتا ہوتا توحکومت کے ترقیاتی کام روکنے کی بجائے انہیں زیادہ تیزی سے چلانے کی کوشش کرتی تاکہ لاکھوں مزدور بے روزگار نہ ہوتے۔ ان میں سے کسی ایک شخص کو منڈی کی معیشت اور بازار کا پتا ہوتا تو وہ وزیراعظم اور اسد عمر کے قدموں میں بیٹھ جاتا کہ کم ازکم ایک سال تک روپے کی قدر میں مزید کمی نہ ہونے دیں تاکہ وہ سرمایہ کار جو ابھی نئے منصوبے بنا رہے ہیں، انہیں کاغذ سے زمین پر لے آئیں۔ گزشتہ سو دنوں میں معلوم ہوا کہ معیشت کی خرابی ہمارا مسئلہ ہے، لیکن اب اس سے بڑا مسئلہ حکومت کی نالائقی ہے۔ ان سے پوچھو‘ آئی ایم ایف کے پاس جاؤگے تو صاف جواب دینے کی بجائے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ان سے روپے کی قدر میں کمی کا پوچھو تو منڈی میں طلب و رسد کی لا یعنی سی دلیل دینے لگتے ہیں۔ ان سے کساد بازاری کی بات کرو تو کہتے ہیں ''ہم احتساب کریں گے‘‘۔ ان کا ہر شخص ہر چیز جاننے کا دعویٰ کرتا ہے اور جب عمل کا وقت آتا ہے تو اناڑیوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتا ہے۔ عذاب یہ ہے کہ ہم ان اناڑیوں کا کچھ کر سکتے ہیں‘ نہ ان کے کوچ کا۔ 
یہ حقیقت ہے کہ اس حکومت کو ملکی معیشت اچھے حال میں نہیں ملی۔ بڑھا ہوا تجارتی خسارہ اور ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی کمی جیسے مسائل کسی بھی حکومت کے لیے مشکلا ت کا باعث بنتے ہیں لیکن ایسے میں حکومت کے اوسان خطا ہوجائیں تو مصیبت ٹلتی نہیں، بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ حکومت اپنے کام میں اناڑی نہ ہوتی تو یہ پہلے سو دنوں میں مقامی مشینری سے کام کرنے والی چھوٹی صنعتوں کوقرضے دینے کے لیے قدم اٹھا چکی ہوتی نہ کہ پالیسی کا اعلان کررہی ہوتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں