یہ کسے معلوم نہیں کہ جب خرچے آمدن سے بڑھ جائیں تو دو کام کرنا ہوتے ہیں: خرچے کم کیے جائیں اور آمدن کو بڑھایا جائے۔ یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ جب قرضے سر چڑھ جائیں اور لینے والے دروازے پر بیٹھے ہوں تو پہلا کام جھولی پھیلا کر مزید قرض لیا جاتا ہے تاکہ دروازے پر بیٹھے لوگوں کی ادائیگی کی جائے اور پھر فوری طور پر آمدن بڑھانے کی فکر کی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر معاشی کتاب کا پہلا اور آخری سبق یہی ہے‘ باقی سب کچھ اس بنیادی اصول کی تفصیل ہے۔ یہ اصول اتنا اہم ہے کہ جدید علم معاشیات کے بانی ایڈم سمتھ کو بھی اپنا گھر بار چلانے کے لیے اسی پر عمل کرنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی صرف قرض اتارنے کے لیے جھولی تو پھیلا لے‘ مگر آمدن بڑھانے کے لیے کام نہ کرے تو علمِ معاشیات کی رُو سے اس کی حماقت میں شک نہیں ہو سکتا۔ مگر پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے اور ہماری پیاری حکومت کے غیر معمولی ''خلوص اور دیانت‘‘ کی وجہ سے معاشیات کے اصول بھی بدل چکے ہیں‘ اس لیے اس نے قرض لینے پر تو کمر باندھ رکھی ہے مگر ملک میں آمدن بڑھانے کے لیے اب تک دھیلے کا کام بھی نہیں کیا۔ اس حکومت کے پہلے ایک دو ماہ تو یوں لگا کہ شاید ترجیحات کا معاملہ ہے‘ اس لیے ابھی توجہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے پر مرکوز ہے۔ تیسرے ماہ یہ مسئلہ حل ہو چکا تو خیال آیا‘ اب اس طرف توجہ ہو گی۔ چار ماہ گزرے تو پریشانی ہونے لگی کہ ملکی معیشت ڈوبتی چلی جاتی ہے، یہ لوگ کچھ کرتے کیوں نہیں ۔ اب پانچ ماہ گزرے ہیں تو لگتا ہے کہ اس حکومت کو تو سرے سے کچھ پتا ہی نہیں۔ اس میں شامل وزیروں کو معیشت کی جان یعنی کاروبار کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں۔ اپنے بزرگوں کے کمائے ہوئے پر عیش کرنے والے ان لاڈلوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے زندگی میں کوئی کاروبار کیا ہو۔ اوپر سے یہ انٹرنیٹ کے دانشور بھی ہیں‘ جن کے سامنے کوئی بھی مسئلہ پیش آئے تو یہ گُوگل سے فوری طور پر دستیاب معلومات کی روشنی میں فتویٰ دے ڈالتے ہیں۔ ان شوقیہ موٹر سائیکل چلانے والوں، فلمی اداکاروں جیسے کپڑے پہننے والوں، یورپ کی فٹبال ٹیموں کے پرستاروں اور امریکی فلموں کے غنڈوں جیسی انگریزی بولنے والے بابا لوگ ہمارے حکمران بن گئے ہیں اور مجبوری یہ ہے کہ اب کچھ عرصہ انہی کے ساتھ گزارہ کرنا پڑے گا۔ اب چونکہ گزارہ کرنا ہی ٹھہرا تو مناسب ہو گا کہ معیشت اور پاکستان کے بارے میں وقتاً فوقتاً کچھ بتایا جاتا رہے تاکہ انہیں پتا چلے کہ کاتبِ تقدیر نے انہیں کس قسم کے مسائل حل کرنے لیے حکومت سونپی ہے۔
کاش کوئی ان کو جا کے بتائے کہ اے تحریک انصاف کے تحریکی وزیرو، یہ سمجھ لو کہ پاکستان کے فوری معاشی مسائل یعنی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آپ کو مناسب پیسہ آپ کو دوست ملکوں سے مل چکا ہے، اس لیے کم از کم ایک سال کے لیے پریشان ہونا چھوڑو اور اس ایک سال کو ملک میں پیداوار بڑھانے میں لگاؤ‘ یعنی کاروبار پر توجہ دو۔ جب ملک میں پیداوار بڑھے گی تو برآمدات خود ہی بڑھتی جائیں گی اور درآمدات کم ہوتی جائیں گی۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹی صنعتوں پر توجہ کرو۔ نئے کاروبار کرنے کے خواہش مندوں کو رعایتی شرح سُود پر قرضے دو اور قرضے دینے کے لیے بینکوں پر انحصار کرنے کی بجائے ہر صوبے میں قائم سمال انڈسٹریز کارپوریشن کو فعال بناؤ۔ قرضہ صرف ایسے کارخانے کے لیے دو جس کی مشینری پاکستان میں بنتی ہو۔ اس طرح پہلے سے موجود صنعتیں نئی طلب پیدا ہونے سے چل پڑیں گی اور نئی بننے والی صنعتیں اس بڑھتی ہوئی طلب میں از خود اپنی جگہ بناتی چلی جائیں گی۔ کوئی بڑا کارخانہ آج لگنا شروع ہو تو پیداوار تک پہنچنے کے لیے اسے تین سے پانچ سال لگیں گے‘ جبکہ چھوٹی صنعت ایک سال کے اندر اندر مال بنا کر بازار میں لے آتی ہے۔ اس طرح ایک سال کے اندر اندر ملکی ترقی کی شرح میں مناسب اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اس خواہش میں بھی کیا حرج ہے کہ کوئی ان بابا لوگوں کو یہ مشورہ بھی دے ڈالے کہ اس ایک سال میں پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کر لو۔ یعنی زمین مختص کر لو، فلیٹ بنانے ہیں تو عمارتوں کے نقشے بنوا لو، ان پر اٹھنے والے اخراجات کے تخمینے لگا لو اور جیسے ہی دو ہزار بیس کا سورج نکلے اس کے ٹینڈر دے دو۔ یہ بھی فیصلہ کر لو کہ ان مکانات میں لگنے والی ہر چیز پاکستان کی بنی ہوئی ہو گی۔ جب پچاس لاکھ گھروں میں ایک کروڑ پنکھے، دو کروڑ دروازے، ڈیڑھ کروڑ کھڑکیاں، ساڑھے سات کروڑ بجلی کے سوئچ، ڈیڑھ کروڑ کلومیٹر بجلی کے تار، دو کروڑ ٹونٹیاں، دو سو پچاس ارب اینٹیں اور ایک کروڑ ٹن سریا لینے کے لیے حکومت بازار میں آئے گی تو نئی لگنے والی صنعتیں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائیں گی۔ یہی چھوٹی صنعتیں پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں بھی پیدا کر ڈالیں گی‘ یوں پاکستان ایک جست میں معاشی طور پر کہیں آگے نکل جائے گا۔ ہو سکتا ہے‘ مشورہ دینے والا یہ بھی بتا دے کہ پنجاب میں صنعت کا ایک وزیر ہے اسلم اقبال، جس نے پچیس صفحوں کی ایک پالیسی انگریزی میں (معلوم نہیں بابا لوگوں کو درست انگریزی آتی بھی یا نہیں!) لکھی ہے جس میں چھوٹی صنعتوں کے قیام کا طریقہ بھی لکھ دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس میں پیسے کی ضرورت نہیں؛ البتہ معمولی سی عقل درکار ہو گی۔ اتنی معمولی کہ میرے جتنی عقل سے بھی کام چل جائے گا۔
کہتے ہیں‘ خواہشیں اگر گھوڑے بن جاتیں تو فقیر ان پر سوار ہوتے۔ اگر ایک خواہش گھوڑا بن سکے تو اس پر کوئی سوار ہو کر اسلام آباد میں وزیر اعظم کے دفتر پہنچے اور ان کو بتائے کہ جناب عالی! آپ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں‘ دوسرے ملکوں میں جا کر بھی پاکستان کو کوسنے دینے سے گریز کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے وزیر اعظم یہ بات ٹھنڈے دل سے سن لیں تو ہمت پکڑ کر یہ بھی کہہ ڈالے کہ آپ کے وزیروں سے جو کوئی معاشی شرحِ نمو کی بات کرے، روزگار پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی سوال کرے یا نئے کارخانوں کی بابت کچھ پوچھ لے تو اسے انتہائی بد تمیزی سے بتایا جاتا ہے کہ ''پچھلی حکومتیں سب کچھ برباد کر گئیں‘‘۔ مان لیا ایسا ہی ہو گا، یہ بھی مان لیا کہ ملک میں آج تک کوئی ہوائی اڈا بنا، ٹرین چلی، موٹر وے بنی نہ سڑک نکلی۔ یہ بھی تسلیم کہ آپ کو پولیس، بیوروکریسی، قانونی نظام بھی میسر نہیں آیا۔ آپ کا یہ دعویٰ بھی سر آنکھوں پر کہ ستر سال کا گند ہے چند دنوں میں صاف نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی درست کہ ملک میں بجلی پانی گیس کچھ بھی نہیں بلکہ یہ بھی ٹھیک کہ بنجر زمین پر پڑے مجھ سمیت بیس کروڑ پسماندہ لوگوں کے ہجوم کی ذمہ داری آپ کو ملی۔ آپ کے ''پر خلوص اور ایماندار‘‘ منہ سے نکلی ہوئی ہر بات سر آنکھوں پر۔ آپ کے کہنے سے ہم مان لیتے ہیں کہ پچھلی بہاروں میں جو پھول کھلتے رہے ہیں وہ کاغذی تھے، اصل بہار تو آپ کی تشریف آوری کے بعد آئی ہے۔ آپ کے اس عہدے پر آنے سے پہلے چاند نے کبھی چودھویں نہ دیکھی تھی، کبھی ستارے ٹمٹمائے نہ تھے، صحراؤ ں میں بادِ نسیم آپ کے دم سے ہی چلنے لگی ہے، بحیرہ عرب میں کشتیوں نے بس ابھی تیرنا شروع کیا ہے، دیوسائی کے میدان میں آپ ہی رنگینی لائے ہیں۔ ہم سب کچھ مان لیتے ہیں مگر تحریک انصاف کے من چلے اور شوخ ادا وزراء کو کہیں کہ کچھ دوسروں کی عزت کا خیال کرنا اور کام سیکھنا بھی شروع کر دیں۔ انٹرنیٹ پر گاڑیوں کی اقسام، موٹر سائیکلوں کی تصویریں اور یورپی فٹبال ٹیموں کی کارکردگی دیکھنے کی بجائے اپنے اپنے محکموں کی ویب سائٹ ہی ملاحظہ فرما لیں۔ غضب خدا کا آپ کی حکومت (اگر پانچ سال چلی) کے ساٹھ مہینوں کا بارہواں حصہ گزر گیا اور بابا لوگ کھیلے جاتے ہیں۔ آخر ہمارے صبر کی بھی تو کوئی حد ہو گی۔