گزشتہ بیس برس میں یہ تیسرا موقع ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب سے اتنی مالی امداد میسر آئی ہے جس کی بنیاد پر اسے آئندہ ایک سال تک بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پریشانی کی ضرورت نہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ دیگر دوست ملکوں سے ملنے والے آسان قرضے اور آئی ایم ایف سے امکانی طور پر مل جانے والا پیکیج بھی حساب کتاب میں رکھا جائے تو دو سال تک بیرونی قرضوں کا معاملہ بڑی حد تک قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ گویا حکومت کو دو سال کا وقت مل گیا ہے کہ وہ میدان عمل میں اتر کر ملک میں صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافے کی نتیجہ خیز کوششیں کر سکے۔ اگرچہ ملک کی اندرونی معیشت کو سیدھا کرنے کا کوئی براہ راست تعلق بیرونی قرضوں سے نہیں ہے‘ لیکن پھر بھی اقتصادی معاملات میں اس حکومت کی نالائقی کی حد کو چھوتی ہوئی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اسے یہ رعایت مل جانی چاہیے کہ اس نے اب تک کا سارا وقت بیرونی قرضوں کا توازن بحال کرنے میں لگا دیا اور اس عرصے میں کوئی دوسرا کام نہیں کر سکی۔ لیکن اب بیرونی ادائیگیوں میں توازن کی منزل کے حصول کے بعد ایک دن کا زیاں بھی درحقیقت اربوں روپے ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔
عمران خان صاحب سے پہلے یہ موقع دو ہزار تیرہ میں نواز شریف صاحب کو بھی ملا تھا۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہیں بھی سعودی عرب، چین اور آئی ایم ایف سے اتنے ہی اچھے پیکیجز ملے تھے۔ انہوں نے یہ سارا سرمایہ سڑکیں اور موٹر وے بنانے پر خرچ کیا جبکہ پیداواری شعبے کو لا وارث چھوڑ دیا کہ دنیا کے مقابلے میں بغیر کسی مدد کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو خوب ورنہ اس کی تدفین کر دی جائے گی۔ ان کی اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اقتدار کے پہلے دو برسوں میں چھوٹا کاروباری تباہ ہو گیا اور آخری دو سالوں میں بڑی فیکٹریوں پر بھی تالے پڑنے لگے۔ وجہ صرف یہ کہ دنیا کے ردّی مال کے لیے ہمارے دروازے کھلے تھے اور ہمارا چھوٹا صنعت کار حکومت کے نزدیک اچھوت قرار پا چکا تھا۔ پاکستان کی کمائی تیزی سے چین کے صنعت کار کی جیب میں منتقل ہو رہی تھی اور ہماری صنعتیں برباد ہو رہی تھیں۔ اس سارے عمل کا خاتمہ یوں ہوا کہ خود مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال میں معیشت پر اس کا کوئی زور نہیں چل رہا تھا۔ نئی حکومت آئی تو اس کے پاس بھی مانگنے تانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
نواز شریف سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی حلیف بننے پر انعام کے طور پر امریکہ اور سعودی عرب سے بہت کچھ ملا تھا۔ اس دور میں معیشت میں تیزی تو آئی لیکن اس میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بینکوں کے ذریعے عام آدمی کی جیب میں قرض کا پیسہ ڈال کر اشیا کی طلب پیدا کی گئی‘ اور اس طلب کی بنیاد پر جو حرکت ہوئی اسے معاشی ترقی سے تعبیر کیا گیا۔ بجلی کی پیداوار پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، صنعتی شعبے کے لیے نمائشی اقدامات کے سوا کچھ نہیں ہوا‘ اور زراعت میں بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ کاروں کو صنعتیں لگانے کی طرف راغب کیا جاتا‘ مگر ہوا یہ کہ ہر سرمایہ کار زمینوں کے کاروبار میں گھس گیا۔ اس مصنوعی اور غیر پیداواری سرگرمی سے صنعتوں کی تباہی کا آغاز ہوا‘ اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ بے شمار کارخانوں نے کاروبار بند کیا اور اپنی زمین بیچ کر آسان منافع کما لیا۔ جیسے ہی امریکہ نے ذرا سی آنکھیں پھیریں پرویز مشرف کی معیشت دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ رہی سہی کسر دو ہزار چھ میں چین سے آزاد تجارت کے معاہدے نے پوری کر دی۔ اس معاہدے کی وجہ سے ہر وہ چیز جو پاکستان میں بنتی تھی‘ چین سے بھی آنے لگی اور بازار میں غیر مساویانہ مقابلے کی وجہ سے صنعتوں کا بیڑا ہی غرق ہو گیا۔
اس وقت ہمیں ساڑھے سینتیس ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک دن میں چھ کروڑ چھتیس لاکھ ڈالر (آٹھ ارب چالیس کروڑ روپے) کا مال برآمد کرتے ہیں اور سولہ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر (بائیس ارب چوہتر کروڑ روپے) کا مال باہر سے منگواتے ہیں۔ گویا روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کو دس کروڑ چوبیس لاکھ ڈالر (چودہ ارب چوبیس کروڑ روپے) اپنے پلے سے بیرونی دنیا کو صرف اور صرف درآمدی مال کے لیے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسی معیشت میں درآمدات و برآمدات کا اتنا بڑا فرق ملک کی تباہی کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہے۔ اور اس فرق کو کم کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ملکی پیداوار میں اضافہ تاکہ کم از کم اپنی ضرورت کی اشیا‘ جو دساور سے منگوائی جاتی ہیں، مقامی طور پر پیدا کی جا سکیں۔ برآمدات بڑھانے کی کوشش کی کامیابی کی کوئی فوری امید نہ رکھیں۔ گزشتہ دو عشروں کی نالائقی کی وجہ سے آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس بیرونی دنیا کو بیچنے کے لیے کچھ ہے نہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم کچھ بنا پاتے ہیں۔ ہمارے ملک کا پیداواری شعبہ اتنا بکھر چکا ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ چین کے موقعے پر ایک وزیر سے اس کے چینی ہم منصب نے پوچھا کہ، ''آپ ہمیں کیا بھیج سکتے ہیں‘‘ تو اس کے پاس صرف ایک جواب تھا، ''آلو‘‘۔ اس میں ہمارے وزیر کا قصور نہیں تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس باہر بھیجنے کے لیے اگر کچھ ہے تو تھوڑا بہت آلو ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ جو معمولی سی ٹیکسٹائل کی مصنوعات ہم باہر بھیجتے ہیں وہ بھی دراصل اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکسٹائل مل والوں کو دیتے ہیں تو وہ کچھ برآمد کر کے امیر سے امیر تر ہوئے جاتے ہیں ورنہ اپنے پاس کچھ بھی ایسا نہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہو۔ عملی طور پر ہماری حیثیت دنیا کی مصنوعات کی منڈی کی ہو چکی ہے یا پھر آج سے سو برس پہلے کے ہندوستان کی طرح زراعت کی وجہ سے کچھ خام مال برآمد کرنے کے لیے ہماری تھوڑی بہت اہمیت رہ گئی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی معاونت سے عمران خان کو پاکستان کے لیے جو کچھ ملا ہے‘ وہ ان سے پہلے والوں کو بھی میسر رہا ہے۔ ان سے پہلے والوں نے اس طرح کے موقعے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کی بجائے اگلا الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیے اور مکمل طور پر ناکام رہے۔ وجہ صرف یہ کہ ہر ایک نے زمین پر کام کرنے کی بجائے مصنوعی خوشحالی کی فضا کو ہی اپنی بقا کا سبب جانا اور بری طرح مات کھائی۔ عمران خان صاحب اگر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اب ملک میں صنعتی اور زرعی پیداوار بڑھانے پر توانائیاں لگانی ہیں، نوجوانوں کو کاروبار اور پیشہ ورانہ تربیت کی طرف لے کر آنا ہے اور ملکی معیشت کو گاڑیاں بنانے والے، ٹیکسٹائل کی مصنوعات بنانے والے اور چینی بنانے والے لاڈلوں کے ہاتھوں سے نکال کر چھوٹے کاروباری کے ہاتھ میں دینا ہے تو وہ اصلی تبدیلی بھی لے آئیں گے اور اگلا الیکشن جیت بھی جیت جائیں گے۔ اگر ان کا انحصار اپنی کابینہ کے کچھ نابغوں پر ہی رہتا ہے تو پھر وہ بھی وہی غلطی کریں گے جو ان سے پہلے والوں نے کی تھی اور پاکستان یہ تیسرا موقع بھی ضائع کر بیٹھے گا۔
اقتصادی معاملات میں اس حکومت کی نالائقی کی حد کو چھوتی ہوئی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اسے یہ رعایت مل جانی چاہیے کہ اس نے اب تک کا سارا وقت بیرونی قرضوں کا توازن بحال کرنے میں لگا دیا اور اس عرصے میں کوئی دوسرا کام نہیں کر سکی۔ لیکن اب بیرونی ادائیگیوں میں توازن کی منزل کے حصول کے بعد ایک دن کا زیاں بھی درحقیقت اربوں روپے ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔