انیس سو پینسٹھ کے آغاز کا واقعہ ہے کہ پنجاب کے ایک سابق آئی جی پولیس سردارمحمد چودھری مرحوم جب اے ایس پی بھرتی ہوئے تو انہیں ایبٹ آباد تعینات کیا گیا۔پولیس تفتیش کے اسرار و رموز بتانے کے لیے ایک تجربہ کار تھانیدا کو ان کے ساتھ لگا دیا گیا۔ ایک روز تھانے میں تین افراد کے خلاف ایف آئی درج ہوئی جس کے مطابق تین افراد نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔ تھانیدار کے ساتھ نوجوان اے ایس پی موقع پر پہنچا۔ تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ دراصل ایک ہی شخص ہے جس نے قتل کیا ہے۔ باقی دو افراد کے نام مقتول کے لواحقین نے دشمنی کی وجہ سے ایف آئی آر میں درج کرائے ہیں۔ مقامی لوگوں کی مدد سے بہت جلد قاتل کو پکڑ لیا گیا اور وہ لوگ بھی مل گئے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ سیدھا سادہ کیس تھا جو عدالت میں جاتا اور مجرم قرار واقعی سزا پاتا۔ جب پولیس کے ایک تجربہ کار تھانیدار نے کاغذی کارروائی مکمل کرکے تصدیق کے لیے چودھری سردار کو پیش کیے تو انہوں نے دیکھا کہ موقعے کے گواہوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کا کوئی تعلق ہی اس واقعے سے نہیں تھا۔ اسی طرح اصلی ملزم کے ساتھ دو بے قصور افراد کو بھی نامزد کیا گیا تھاجن کا کوئی لینا دینا ہی قاتل یا مقتول سے نہیں تھا۔ نوجوان اے ایس پی نے یہ سارے کاغذات دیکھے اور مسترد کردیے۔ تھانیدار کو حکم دیا کہ صرف اصل ملزم کے بارے میں ثبوت و شواہد پر مبنی چالان تیار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ تھانیدار نے بہت سمجھایا کہ عدالتی نظام میں اصلِ واقعہ کی اہمیت نہیں بلکہ گواہیوں کی تعداد کی ہے۔ اے ایس پی نہ سمجھا اور اصل واقعہ کے مطابق ہی چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ نتیجہ بالکل وہی نکلا جس کے بارے میں تجربہ کار تھانیدار پہلے ہی بتا چکا تھا، یعنی تمام ثبوتوں اور شواہد کے باوجود اصل قاتل کے بری ہونے کے امکانات عدالت میں روشن ہونا شروع ہو گئے اور محکمہ پولیس نے تھانیدا ر کے خلاف ''کیس خراب کرنے‘‘ کے الزام میں کارروائی شروع کردی۔
پاکستان میں جرم، تفتیش اور قانون کے باہمی تعلق میں جھوٹی گواہی اتنی اہمیت کی حامل رہی ہے کہ پولیس والے واقعات اوراس میں کرداروں کی اصلیت جاننے کے باوجود حقیقی واقعہ پیش کرنے کی بجائے عدالت کے سامنے ایک مکمل طور پر جھوٹی کہانی پیش کرنے پر مجبور ہوتے تھے تاکہ ملزم کو مجرم ثابت کیا جاسکے۔ قانون کے نفاذ کے اندر سے نکلنے والی اس لاقانونیت کی ایک بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ ہماری عدالتوں نے مفروضہ قائم کررکھا تھا کہ پاکستان میں گواہ جھوٹ بولتے ہیں اور جج کا کام جھوٹ کے اس انبار میں سے سچ تلاش کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب گواہوں کو جھوٹا تسلیم کرلیا جائے تو عدالتی کارروائی کی بنیاد قانون نہیں جج کی ذات بن جائے گی ۔ قانون کی دنیا میں یہ ایسی عجیب و غریب چیز تھی جسے ماضی میں برطانیہ کی پریوی کونسل نے بھی بطور اصول تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ پاکستان میں نظریہ ضرورت کے بانی جسٹس منیر احمد نے اس گواہوں کے جھوٹ کے لایعنی مفروضے کو اصول کی شکل دے دی اور اسے پاکستان کے قانونی نظام کا حصہ بنا دیا۔ اعلیٰ ترین عدالت کا یہ فیصلہ فوجداری جرائم میں بطور نظیر نچلی عدالتوں میں بھی استعمال ہونے لگا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک کا نظام انصاف ہی دیوالیہ ہوکر رہ گیا۔ ''گواہ جھوٹ بولتے ہیں‘‘ کے نظریے کے طفیل تفتیشی افسروں نے جھوٹ کو صفحہء مثل پر منتقل کرنا شروع کیا اور انجام یہ ہوا کہ جھوٹے گواہوں کی ایک پوری صنعت وجود میں آگئی۔یہ طے شدہ امر ہوگیا کہ ایک ہی گواہ کے بیان کے جس حصے کو بھی جج چاہے قبول کرلے اور جسے چاہے مسترد کردے۔ دنیائے قانون سر پیٹتی تھی کہ آخر ایک جج کے پاس ایسا کیا ہے جس کے ذریعے وہ ایک ہی گواہ کے بیان میں سے جھوٹا فقرہ الگ کرلے اور سچ پر مبنی جملہ الگ۔ دنیا بھر میں رائج اصول کے مطابق اگر گواہ کے بیان میں ذرا سا بھی جھوٹ پایا جائے تو اس کا پورا بیان ہی جھوٹ سمجھا جاتا ہے، مگر پاکستان میں صورتحال مختلف تھی۔ معلوم نہیں کتنے قاتل چھوٹ گئے اور کتنے بے قصوروں نے سزا بھگتی۔ اگر پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ بنتے تو شاید یہ سلسلہ کتنی دیر اور کتنی دور تک چلتا رہتا۔
چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وہ کیا ہے جو ان کے پیش روؤں کا کرنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ان میں سے اکثر اپنی اپنی ذات کے یوں اسیر ہوئے کہ انہیں اپنے سواکچھ دکھائی ہی نہ دیا۔ تاریخ میں زندہ رہنے کی بے محابا خواہش میں انہوں نے ہمارا حال تباہ کردیااور مستقبل تاریک۔ بجائے اس کے کہ تصفیہ طلب قانونی نکات پر وہ دیگر ججوں کو بٹھا کر انہیں طے کرڈالتے ، انہوں نے اختیار عدالت کو اپنی ذات کی توسیع بنا ڈالا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے سے پہلے والوں کے بالکل برعکس کوئی دعوے نہیں کیے بلکہ پینسٹھ برس سے قانون کے کنویں میں پڑی گندگی کو نکال دیا ۔ اسی مہینے یعنی چارمارچ کو ایک فوجداری متفرق درخواست پر جاری ہونے والے ایک فیصلے میں انہوں نے واضح طور پر لکھ دیا کہ گواہی کو مکمل طور پر قبول کیا جائے گا یا مکمل طور پر مسترد کیا جائے گا۔ اب یہ نہیںہوگا کہ گواہ کے بیان کا ایک حصہ تو درست مانا جائے اور دوسرے کو غلط قرار دے دیا جائے۔ اب یہ فیصلہ قانو ن بن کر پورے ملک کی عدالتوں میں لاگو ہوگا۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ ضلعی عدالتوں میں کسی کو سزائے موت ملے، ہائیکورٹ میں عمر قید میں تبدیل ہوجائے اور جب مقدمہ سپریم کورٹ میں آئے تو پتا چلے کہ واقعے کا عینی گواہ ہونے کا دعویدار واردات کے وقت اس جگہ سے سینکڑوں میل دور بیٹھا تھا لیکن وہ عینی شاہد بن کر عدالت میں گواہی دینے چلا آیا اور اس کی گواہی سے کسی کو پھانسی دے دی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایسے لاتعداد مقدمات میں لوگوں کوبری کیا جن کے خلاف گواہیاں جھوٹی تھیں لیکن نچلی عدالتوں میں کسی نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا اور جب تک معاملہ سپریم کورٹ تک آیا تو رہا ئی پانے والوں میں کئی ایک قیدِ حیات سے ہی رہائی پاچکے تھے۔
ہمارے فوجداری نظام میں جھوٹ کا آغاز ایف آئی آر سے ہوتا ہے۔ ایف آئی آر کو ایسی مقدس دستاویز حیثیت دے دی گئی ہے جسے عدالتوں میں مکمل سچ کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں جس شخص کو نامزد ملزم لکھوا دیا جائے اب پولیس پورا زور لگا کر اسے مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ملزم کا دفاع کرنے والا وکیل اسی ایف آئی آر میں رخنے تلاش کرتا ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ایف آئی آر عام طور پر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے ، جس میں بعض نام صرف اس لیے ڈال دیے جاتے ہیں کہ ان سے مدعیوں کی دشمنی ہوتی ہے۔ پولیس اصلِ واقعہ تک پہنچنے کی بجائے اس جھوٹ کو سچ بناکر دکھانے کے لیے جھوٹے گواہ پیش کرتی ہے اور یوں نظام انصاف نظام ظلم بن جاتا ہے۔ اس طریق کار کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ اگر ایک ایف آئی آر کے مطابق ''الف‘‘ نے ''ب ‘‘ کو قتل کیا ہے لیکن عدالت میں ''الف ‘‘ پر جرم ثابت نہیں ہوا تو یہ معلوم کرنے کا کوئی نظام نہیں کہ ''ب ‘‘ کا قاتل کون ہے؟اگر ایف آئی آرکی یہ تقدیس ہمارے قانونی نظام میں ختم ہوجائے تو پولیس کی تفتیش بھی بہتر ہوسکتی ہے، استغاثہ کو جب سچ کا ساتھ دینا ہوگا تو اس کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی اور اصل مجرم کے لیے قانون کی دراڑوں میں چھپ جانا بھی ممکن نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے ایک ایسا دن ہو‘ جب یہ کام بھی ہوجائے۔ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس کھوسہ نے جھوٹی گواہی کا راستہ بند کرکے امیدیں بہت بڑھا دی ہیں۔