"HAC" (space) message & send to 7575

اعجاز احمد کا کپتان کہاں ہے؟

چند دن پہلے پاکستان کے سابق کرکٹر اعجاز احمد سے عمران خان کے اندازِ کپتانی پر بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے: کرکٹ میں عمران خان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے کبھی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ اور کبھی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا۔ میں نے کہا، مثال سے بتائیے۔ بتایا کہ جب عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو جاوید میانداد اور سلیم ملک کے ساتھ انہیں کچھ رنجش تھی۔ ان کے درمیان تعلقات اتنے خراب تھے کہ عمران خان کی ان دونوں کے ساتھ کبھی دوستی نہیں ہو سکی۔ پریکٹس کے دوران بھی یہ لوگ آپس میں کم ہی بات کرتے۔ اتنے خراب تعلقات کے باوجود جب بھی ٹیم کی میٹنگ ہوتی عمران خان تمام نئے کھلاڑیوں کو جاوید میانداد سے رہنمائی لینے کا حکم نما مشورہ دیتے۔ ''اپنے تجربے کی بنیاد پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان ذاتی تعلقات کی نوعیت کو پیشہ ورانہ ضرورت پر ترجیح نہیں دے سکتے‘‘، اعجاز احمد نے زور دے کر کہا۔ میں نے پوچھا: میرٹ کی کوئی مثال؟ اس پر اعجاز نے اپنی طرف اشارہ کیا اور کہا، ''میں نے ایک بار کسی نئے کھلاڑی کی سفارش ان سے کی۔ میری سفارش سن کر انہوں نے سر ہلایا اور چل دیے۔ چند دن گزر گئے لیکن اس نئے کھلاڑی کو انہوں نے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ میں نے پھر یاد دلایا تو انہوں نے ہوں ہاں کی لیکن ملاقات پھر نہیں کی۔ میں نے کچھ روز بعد پھر اپنی بات دہرائی تو کہا: اعجاز‘ اگر وہ ٹیم میں آ گیا تو تمہیں نکلنا ہو گا۔ میں نے پوچھا: یہ فیصلہ پسند ناپسند پر ہو گا یا میدان میں کارکردگی پر؟ کہا: صرف کارکردگی پر۔ بہرحال عمران خان نے میرے کہنے پر اس کھلاڑی سے ملاقات کر لی اور کچھ عرصے بعد میں ٹیم سے نکل گیا۔ ایک سال کے لگ بھگ میں قومی ٹیم کی بجائے مقامی ٹیموں میں کھیلتا رہا‘ اور یہاں میری کارکردگی دیکھ کر مجھے دوبارہ قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس وقت میں نے عمران خان سے پوچھا کہ یہ فیصلہ میدان کا ہے یا آپ کا، تو ہنس پڑے اور کہا، ''میدان کا‘‘۔ اعجاز احمد نے مجھے یہ بھی سمجھایا کہ وہ نئے کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کی کوشش کرتے اور اس کے لیے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی مدد بھی لیتے۔ اعجاز نے عمران خان کی حکمت عملی کے بارے میں بھی بتایا‘ مگر میں بے چارہ ایک سادہ صحافی یہ سوچتا رہا کہ عمران خان کی قیادت کا وہ انداز وزیر اعظم بننے کے بعد نظر کیوں نہیں آتا۔ بے شک سیاست کی ضروریات کرکٹ کے تقاضوں سے مختلف ہیں‘ مگر ٹیم اور ایجنڈے کے انتخاب میں عمران خان اپنے دورِ کپتانی کے تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہے؟
وزیر اعظم کی بنیادی ٹیم تو کابینہ ہوا کرتی ہے جس کا انتخاب اسے بڑی حد تک پارٹی اور علاقائی سیاست کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے۔ چلیے مان لیا کہ سیاست کا یہی میرٹ ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ بعض ایسے لوگ کابینہ میں کیا کر رہے ہیں‘ جو کچھ نہیں کر سکتے؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو عمران خان کے بغیر اپنے گھر کے ووٹ نہیں لے سکتے‘ اس لیے ان کا کوئی سیاسی بوجھ عمران خان کو نہیں اٹھانا ۔مگر یہ کیا کہ حکومت ملتے ہی وزارتیں انہی پر برس پڑیں۔ فیصل واؤڈا کے مالی معاملات پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پانی کی وزارت میں انہوں نے کوئی کارنامہ نہیں دکھایا، ذمے داری کا عالم یہ ہے کہ جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ اس سب کے باوجود وزیر ہیں۔ علی زیدی صاحب کے پاس بندرگاہوں اور جہاز رانی کا قلم دان ہے‘ لیکن ایک سال ہونے کو آیا‘ بندرگاہوں میں کوئی بہتری آئی نہ جہاز رانی میں کسی نے سرمایہ کاری کی۔ انہوں نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ پاکستان میں شپنگ کمپنیوں کو لانا چاہتے ہیں، کوئی چھوٹا بڑا بحری جہاز بنانا یا بنوانا چاہتے ہیں، ہاں دوسرے معاملات پر وہ ضرور بیانات دیتے رہتے ہیں۔ مراد سعید صاحب وزیر مواصلات ہیں‘ لیکن ان کی زبان سے ہم نے آج تک سڑکوں کی بہتری یا مواصلات کے دیگر معاملات میں بہتری لانے کا کوئی پروگرام نہیں سنا۔ ویسے تو الا ماشااللہ کسی بھی وزیر با تدبیر سے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا، مگر ہمہ وقت متکلم نابغوں سے قوم کام کی بات بھی سننا چاہتی ہے۔ وزرا میں کون سی خوبیاں ہیں جو ہمارے کپتان کو نظر آتی ہیں، اب تک معلوم نہیں ہو سکیں۔ یہ میرٹ ہے؟ 
اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ انیس سو بانوے میں ورلڈ کپ کے میچوں میں قسمت ہمارے ساتھ یوں تھی کہ دوسری ٹیموں کی ہار جیت سے ہمیں سیمی فائنل میں آنے کا موقع مل گیا‘ مگر سیمی فائنل اور فائنل میچوں میں عمران خان خوب سوچ سمجھ کر ٹیم کھلاتے رہے اور مخالف کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھاتے چلے گئے۔ ورلڈ کپ کے برعکس‘ حکمت عملی کا پہلو بھی عمران خان کی وزارت عظمٰی میں دکھائی نہیں دیتا۔ قسمت نے انہیں اقتدار تک تو پہنچا دیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد منصوبہ بندی کا فقدان ان کی حکومت کا نمایاں ترین وصف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ملکی معیشت کی سمت کا تعین کرتے۔ انیس سو سینتالیس سے لے کر دو ہزار انیس تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برآمدات بڑھانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔ مطلب یہ کہ معیشت کو برآمدات کے لیے تیار کرنا ہے تو اس کے لیے کئی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ برآمدات کی بجائے مقامی منڈی کی ضروریات کے لیے صنعت کو فروغ دینا ہے تو اس کے لیے مختلف انداز میں پالیسیوں کی تشکیل ہو گی۔ مطلوب یہ ہے کہ پاکستان سنگاپور یا دبئی کی طرح صرف تجارت سے پیسہ بنائے تو اس کے لیے کچھ دیگر لوازمات ہیں۔ سیاحت سے آمدنی بڑھانی ہے تو اس کے لیے الگ کام کرنا ہے۔ معیشت کو ہمہ گیر بنانا ہے تو اس کے تقاضے دیگر ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ حکومت کیسی معیشت چاہتی ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ 
معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی درجہ حرارت کو کم رکھنا پہلی ضرورت ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ عمران خان کی ہدایات پر تحریک انصاف کے اراکین مسلسل قومی اسمبلی میں جارحانہ رویہ اختیار کرکے اسمبلی کی کارروائی آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔ ماحول ایسا بن چکا ہے کہ وزیر اعظم ہو کر بھی عمران خان اسمبلی میں تقریر نہیں کر پا رہے۔ نفرت کا یہ کاروبار اتنا عروج پر ہے کہ مخالفین ان کی حکومت گرانے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی انا اتنی بلند ہوتی جا رہی ہے کہ انتہائی ضروری آئینی معاملات کو سلجھانے کے لیے بھی قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے بات کرنا انہیں گوارا نہیں۔ معیشت معیشت کا ورد لاکھوں دفعہ کر لیں‘ لیکن عملی طور پر اسمبلی کے بجٹ سیشن کو مذاق بنا دیا جائے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے۔ یہ کہ حکومت کے نزدیک معیشت سرے سے اہمیت ہی نہیں رکھتی۔ اور شاید استحکام بھی اس کے لیے بے معنی سا لفظ ہے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ وہ حکومت میں آ کر لوگوں میں سرمایہ کاری کریں گے، نوجوانوں کو مختلف مہارتیں سکھائیں گے، علوم و فنون میں طاق کر دیں گے۔ ملک میں چار سُو بڑھتی ہوئی نالائقی سے تنگ آئے لوگوں نے جانا اب کچھ بہتری آئے گی۔ اب حکومت کے دس ماہ بعد پتا چلا کہ نالائقی نے کرکٹ کے میدان میں بھی پنجے گاڑ دیے ہیں، وہ بھی ایک سابق کرکٹر کی حکومت میں۔ خیر یہ تو ہونا ہی تھا۔ جس ملک میںکلرک سے لے کر چیف سیکرٹری تک اپنے کام سے نا آشنا ہوں وہاں کھیل میں بھی زیادہ دیر تک سبقت برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ اس ماحول کو بدلنے کے لیے ہی تو عمران خان آئے تھے۔ کوئی کام اس حوالے سے ہوا ہو ؟ جواب ہے بالکل نہیں۔ 
اعجاز احمد نے اپنے کپتان عمران خان کو میرٹ کی بالادستی یقینی بناتے دیکھا، ذاتی نفرتیں بھلا کر اچھے لوگوں کو ساتھ ملا کر چلتے دیکھا، خوب سوچ سمجھ کر منصوبے کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ ہم جس عمران خان کو دیکھ رہے ہیں وہ نالائقوں میں گھرا ہے۔ ذاتی نفرتوں کا اسیر ہے، منصوبہ بندی سے بیگانہ ہے۔ اعجاز احمد کا کپتان کہیں کھو گیا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں