فرض کریں اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر عمران خان کی حکومت گرا لیتی ہیں تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی، نیا الیکشن یا کچھ اور، اس بارے میں کئی اپوزیشن رہنماؤں سے پوچھا مگر جواب نہیں مل پایا۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ پہلے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرو‘ اس کے بعد دیکھیں گے۔ پیپلز پارٹی میں یہ رائے ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں قومی حکومت بن سکتی ہے‘ جس میں تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتیں شامل ہوں۔ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے میزبان مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے موجودہ نظام سے اتنے بیزار ہیں کہ انہوں نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کے اصرار کے باوجود عمران خان کی خالی کردہ بنّوں والی نشست سے ضمنی انتخاب لڑنا بھی گوارا نہیں کیا۔ وہ صرف تحریک انصاف کو نکالنا چاہتے ہیں‘ چاہے اس کے بعد کوئی بھی صورت ہو۔ جب منجھی ہوئی سیاسی جماعتیں بغیر کسی متبادل انتظام کے حکومت گرانے کی باتیں کریں تو اس کا مطلب ہے کہ ذاتی انتقام سیاست پر غالب آ گیا ہے۔ مقصد کلیجے ٹھنڈے کرنا ہے‘ چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ بگڑی ہوئی معیشت مزید بگڑ جائے‘ کسی کو کیا!
پاکستانی معیشت کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک گروہ یا جماعت پر ڈالنا نا انصافی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی آزادی کے پہلے دن سے ہم نے اپنی معاشی خود مختاری کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ ایک آدھ کوشش اگر کسی نے کی بھی تو اتنی نالائقی سے کی کہ اس کا الٹا نقصان ہی ہوا۔ پرویز حسن، سرتاج عزیز اور ڈاکٹر عشرت حسین اپنی اپنی کتابوں میں واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ہم نے طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کا تکلف کبھی کیا ہی نہیں۔ انیس بیس کے فرق سے ہر حکمران نے بڑے بڑے دعوے کرنے کے بعد وہی کچھ کیا جو اس سے پہلے والے کرتے رہے تھے۔ کوئی بہت زیادہ اتاولا ہوا تو اس نے قومی ضرورت کے لیے نہیں اپنے شوق کے لیے منصوبے بنا لیے تو بنا لیے‘ اصل کام پر توجہ نہیں دی۔ زراعت کو ترقی کیسے دینی ہے، صنعت کو آگے کیسے بڑھانا ہے، نوجوانوں کو ہنر کون سے سکھانے ہیں، لوگوں کو کاروبار کرنے کی طرف راغب کیسے کرنا ہے، چھوٹے صنعت کاروں کا ہاتھ کیسے تھامنا ہے، یہ سب کبھی کسی نے سوچا نہ کیا۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی ناکام ترین جماعت ہے، مسلم لیگ ن الجھے ہوئے معاشی خیالات کا شکار ہونے کے باوجود قدرے بہتر ریکارڈ کی حامل ہے اور مولانا فضل الرحمٰن نے دو ہزار دو سے دو ہزار آٹھ تک ایک صوبے کی حکومت میں ہی جو غضب ڈھایا تھا‘ اس سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ ان تینوں جماعتوں کی مجموعی نالائقی اکٹھی ہو کر تحریک انصاف کی صورت میں مجسم ہوئی اور سامنے آ گئی۔ اس حکومت سے یہ توقع تو ہرگز نہیں کہ یکسو ہو کر کسی معاشی منصوبے پر عمل کر لے گی‘ لیکن اس کے مقابلے میں اپوزیشن کو بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان حالات میں ہونے والا ان سے بھی کچھ نہیں۔ جب سیاست کے یہ سارے فریق انیس بیس کے فرق سے ایک جتنے نالائق ہیں تو بہتر راستہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ نالائقوں کو ہی چلنے دیں۔ اس طرح کم از کم مزید ایک پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر لے گی تو شاید ہمارا سیاسی نظام کسی ڈھنگ کی حکومت کو جنم دینے کے قابل ہو جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت خواہ کتنی ہی بے ڈھنگی ہے، بہرحال اس نے ملک میں سول فوجی تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ نواز شریف کی طرح کا اَن چاہا تناؤ پیدا کرنے اور آصف علی زرداری کی طرح نظام پر خود کُش حملے کی دھمکیاں دے کر کام نکالنے کی حکمت عملی ناکامی کے نسخوں کے سوا کچھ نہیں۔ اسباب چاہے کچھ بھی رہے ہوں عمران خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بڑی حد تک درست کر لیے ہیں۔ ہماری قومی سیاست کا یہ پہلو عام طور پر سیاستدانوں کی کمزوری ہوا کرتا ہے، عمران خان نے اسے اپنی طاقت بنا لیا ہے۔ اس طاقت کا اظہار فروری میں بھارت کے مقابلے میں ہوا‘ اور عمومی طور پر اس کے ملکی معیشت پر بھی کچھ نہ کچھ مثبت اثر نظر آتا ہے۔ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف جو بیانیہ ترتیب دیا ہے، اس میں سر فہرست نکتہ ہے ہی یہ کہ انہیں دوسری قوتیں اقتدار میں لے کر آئی ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ان کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی کوشش اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو ایک طویل عرصے کے لیے ہم پھر کچھ خرابیوں میں الجھ سکتے ہیں۔ یعنی ان کی جگہ آنے والی سیاسی حکومت ریاستی نظام کے ایک اہم جزو سے الجھ کر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بلکہ نفرت کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو فیض آباد میں دھرنا دے کر زچ کر دیا تھا، اب عمران کے خان کے خلاف صف آرا ہونا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے دیگر عناصر بھی اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی عوامی سطح پر کوئی تحریک نمودار ہو‘ وہ اس کا حصہ بن جائیں۔ میری اطلاعات کے مطابق ان لوگوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے رابطے بھی کیے ہیں‘ لیکن ان دونوں جماعتوں نے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں دیا؛ تاہم یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔ ایک بار کوئی تحریک شروع ہوئی تو یہی جماعتیں ان عناصر کی مدد لینے کے لیے مجبور ہو جائیں گی‘ اور انتہا پسندی سے نکلنے کی جو کامیاب کوششیں گزشتہ دس برس میں ہم نے بحیثیت قوم کی ہیں، تباہ ہو جائیں گی۔ کیا اپوزیشن عمران خان سے نفرت میں اس حد تک آگے چلی جائے گی؟ اس کا جواب مستقبل قریب میں چھپا ہوا ہے۔
خالصتاً سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کو سب سے پہلے اپنے احتساب کے بارے میں کوئی ایسا موقف اختیار کرنا ہو گا‘ جس پر کوئی اعتراض نہ اٹھ سکے۔ آصف علی زرداری کی دلیرانہ مسکراہٹ اور کاٹ دار فقرے اپنی جگہ لیکن ان کو عدالت کے باہر بھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حمزہ شہباز کو بھی عام فہم انداز میں بتانا ہو گا کہ ان کے اثاثوں میں ہونے والا اضافہ باہر سے چکر لگا کر آنے والے مشکوک پیسے کا مرہون منت نہیں۔ یہ بھی مشکل ہو گا کہ مریم نواز کے دو بھائی پاکستانی نظام انصاف کا سامنا کرنے سے گریزاں ہوں، شہباز شریف کے ایک صاحب زادے اور داماد عدالتی مفرور ہوں اور ملک میں حکومت مخالف تحریک کی قیادت انہی کے ہاتھ میں ہو۔ گویا سب سے پہلی جنگ جو اپوزیشن کو حکومت کے خلاف لڑنی ہے‘ وہ بیانیے کی جنگ ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ممکن ہے احتسابی عمل کو شفاف نہ سمجھتے ہوں‘ لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے خیال میں احتساب کا عمل آگے بڑھنا چاہیے، خواہ کچھ بھی ہو جائے۔
اپوزیشن کوئی متبادل معاشی منصوبہ پیش نہ کرے، کوئی متبادل حکومت پیش نہ کرے، اس کے رہنماؤں کے اثاثوں پر سوالات اٹھ رہے ہوں اور پھر بھی حکومت گرانے کے پروگرام بن رہے ہوں تو ایسے حالات میں دنیا میں کہیں تحریک نہیں چلا کرتی۔ یہ عمران خان صاحب کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے اپنے نالائق وزیروں اور نالائق ترین مشیروں کی مدد سے صرف دس ماہ میں اپوزیشن کو اس قابل کر دیا ہے کہ وہ ان کی حکومت گرانے کے درپے ہیں۔ ہر میدان میں نالائقی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد عملی طور پر ان کی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کی سکت کھو چکی ہے۔ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دوسرے کندھوں کے سہارا دستیاب ہے۔ اس کی وجہ عمران خان کی محبت نہیں۔ صرف یہ ہے کہ اب ہر کوئی پارلیمنٹ کو پانچ سال پورے کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف نے دو ہزار چھ میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے کیا تھا۔ اس میثاق کے اب وہ بھی قائل ہیں‘ جنہوں نے اس پر دستخط نہیں کیے تھے۔ عمران خان کی حکومت اسی میثاق جمہوریت کے تحت چلے گی۔