"HAC" (space) message & send to 7575

نیا کچھ بھی نہیں!

راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوکیا سامنے آئی ، رنگ برنگی آوازوں سے ملک بھر گیا۔ مسلم لیگ ن اس کو تاریخی کامیابی بتا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی طنز فرما رہی ہے ۔ تحریک انصاف کو پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا شوق اتنا ہے کہ اس کے زبان آور ترجمان حزبِ اختلاف پر پل پڑے ہیں۔ ان نالائقوں کو یہ بھی علم نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اس ویڈیومیں نظر آرہا ہے نہ ہی متعلقہ جج صاحب ان کے کسی مقدمے کی بابت فرما رہے ہیں، اس لیے ان کا بہترین مؤقف خاموشی ہے۔ اس ہلڑبازی میں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ اصل مسئلے پر غور کرکے سوالات اٹھائے جاتے۔ اصلِ معاملہ یہ ہے کہ جج ارشد ملک صاحب کی مبینہ ویڈیو پاکستان کی تاریخ میں پہلے سے موجود سلسلۂ واقعات کی ایک تازہ کڑی تو ہے ،پہلی ہرگز نہیں۔ اس سے چونسٹھ برس پہلے جسٹس تمیزالدین خان کیس میں گورنرجنرل غلام محمد مرحوم کے سٹاف کا ایک افسر کس طرح پھرتیاں دکھا رہا تھا اس بارے میں قدرت اللہ شہاب مرحوم لکھ چکے ہیں۔جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹوپر مقدمۂ قتل کے بارے میں جو کچھ فرمایا تاریخ کا حصہ ہے۔سیف الرحمن اور ملک قیوم کے درمیان گفتگو کا ٹیپ بھی سامنے آچکا ہے۔ شہباز شریف کی بنفسِ نفیس ایک جج صاحب کو فون کال کی ریکارڈنگ آج بھی یو ٹیوب پر سنی جاسکتی ہے ۔ نواز شریف کی شکایت بھی وہی ہے جس کے ثبوت میں ان کی بیٹی ایک ویڈیو پیش کررہی ہیں۔گویا چونسٹھ سال پہلے جو سوال اٹھا تھا وہ آج بھی جواب طلب ہے۔ وقت کے بہاؤمیں اداکار بدل گئے ہیں، کردار نہیں بدلے۔ 
سیاستدانوں کو ہی لے لیجیے۔ یہ لوگ آج بھی تو وہی کردار ادا کررہے ہیں جس میںانہیں اپنی ذات کے سوا کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا۔ اگر سیاستدانوں میں سے کسی ایک کا بھی ماضی اقرباء پروری، ذاتی وفاداروں کو ریاست پر جان دینے والوں پر ترجیح دینے، مشکوک ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت اور بدعنوانی سے صرفِ نظر سے پاک ہوتا تو آج ملکی نظام کا یہ حال نہ ہوتا۔ یہ اعتراض اپنی جگہ کہ سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیا گیا لیکن یہ سوال بھی تو اپنی جگہ ہے ناںکہ اگر انہیں آزادانہ کام کرنے دیا جاتا تو نجانے ہم کس پستی کو پہنچ چکے ہوتے۔دستور بنانے میں تاخیر سے لے کر اس میں من چاہی ترامیم تک کیا کیا نہیں کیا ہمارے اہلِ سیاست نے۔ ملکی تاریخ کی سات دہائیوں میں سے ایوب خان کا عشرہ نکال دیا جائے توہمارے پاس ترقی کی کونسی ایک مثال ہے جو پیش کی جاسکے۔ جن سیاستدانوں کو اپنے دورِ حکومت میں ترقی کا دعویٰ ہے، انہیں یہ بھی تو سمجھنا ہے کہ انہوں نے معیشت کا فطری توازن تباہ کرڈالا۔ ایک آتا ہے تو ملکی نظام کو درست کرنا دور کی بات باقاعدہ بگاڑ کر جاتا ہے۔ دوسرا آتا ہے تو اس پرمکمل قبضے کو ہی جمہوریت سمجھتا ہے۔ ایک دوسرے پر غلاظت اچھالنے والوں نے کون سی جمہوری روایت ہے جسے اپنے پاؤں تلے نہیں روندا۔ وہ کون سا ادارہ ہے جس میں اپنے وفاداروں کو بھر کر تباہ نہیں کر ڈالا۔ پھر رونا روتے ہیں یہ مخلوق اور وہ مخلوق!
سیاستدانوں پر ہی کیا موقوف۔ آمر جب جب آئے تو انہوں نے کیا کیا ظلم نہیں توڑے اس قوم پر۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عدلیہ پر حملہ آور ہوئے، دستور کا حلیہ بگاڑا، معاشرے میں غیر فطری رجحانات پیدا کرکے نسلیں تباہ کرڈالیں۔ اپنے لوگ اور سرزمین دوسروں کے مقاصد کے لیے استعمال کرکے پیسے کھرے کرنے کی کوشش کی۔ سیاستدانوں کو پہلے ان کی اوقات دکھائی پھر بغل میں لے کر ان کا ضمیر جگا لیا۔ عدلیہ نے انہی کے بنائے ہوئے قانون کو نافذ کرنا چاہا تو ججوں کو باغی سمجھنا شروع کردیا۔چلیے مان لیا کہ کسی آمر سے دستور و قانون کی پابندی کی امید نہیں لگائی جاسکتی لیکن ملکی معیشت استوار کرنے کی توقع تو کی جاسکتی ہے ۔ جنوبی کوریا کا جنرل پارک بھی تو اسے ہر مہینے پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کرنے کے قابل بنا گیاتھا۔ سنگاپور کا نیم آمر لی کوآن اپنی سات سو بائیس مربع کلو میٹر(کراچی کا ایک چوتھائی) کی ریاست کو دنیا میں قابل عزت بنا سکتا ہے تو ہمارے مکمل آمروں کو کیا ہوا تھا؟ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی جنرل پارک یا لی کوآن کی طرح محنت کرتا تو شاید قائد اعظم کے بعد سب سے بڑا لیڈر مانا جاتا۔ ہماری بربادی کی داستان ہمارے آمروں کے بغیر کہاں مکمل ہوتی ہے۔ 
ہمارے نظام انصاف کو بھی داد ملنی چاہیے‘ جس میں وکیل چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ جس طرح سیاستدان میں موروثیت کے رجحانات پائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہ نظام بھی وکلا کے کلب کی شکل میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ بار اور بینچ کی یک رنگی کی وجہ سے کوئی دور رس تبدیلی کرنا غالباً ممکن ہی نہیں رہا۔ اس نظام کا تماشا دیکھیے کہ اوائل عمری میں سول جج بن جانے والے کو کچھ پتا نہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا لیکن ہر وکیل کے پاس اونچی ترین کرسی پر بیٹھ جانے کا موقع موجود ہے۔ یہ ویڈیو والا کیس درحقیقت اس نظام کی کمزوری ہی کا نتیجہ تو ہے۔ ارشد ملک صاحب کی یہ ویڈیو کچھ اور بتائے نہ بتائے یہ تو بتا رہی ہے کہ وکالت اور منصفی کا درمیانی فاصلہ موصوف طے ہی نہیں کر پائے۔ اپنی وضاحت میں خود فرما رہے ہیں کہ راولپنڈی میں وکالت کے زمانے سے ان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کسی کو جرأت ہی کیونکر ہوئی کہ ان سے ایک خاص مقدمے میں ہونے والے فیصلے پر گفتگو کرسکے۔ اگر کسی نے یہ ہمت کر ہی لی تھی تو جناب میں اتنی ہمت کیوں نہیں تھی کہ اسے گھر سے نکال باہر کرتے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا کچھ تو مظاہرہ کہیں ہوتا۔اس معاملے پر اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔ 
دنیا جانتی ہے کہ مسائل کو ہمیشہ دو سطح پر دیکھا جاتا ہے یعنی واقعاتی اور حقیقی۔واقعاتی تجزیہ نئے واقعات کی پیش بینی میں مدد دیتا ہے اور حقیقی تجزیہ مسائل کی تفہیم اور ان کے حل کی کوئی راہ سجھاتا ہے۔ واقعاتی سطح پر جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے بعد اگلا واقعہ اس ویڈیو کی تفتیش و تحقیق ہے، اس کے بعد اگلا واقعہ عدالت میں اس کے بطور ثبوت قبول یا ردّ کیے جانے کی بحث ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے جائیں تو کسی حتمی واقعے کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ حقیقی سطح پر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس طرح کے واقعات بار بار کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ہر چند سال پر ہمارے نظام کے دامن پر کوئی نیا داغ کون لگا دیتا ہے؟ قانون پیشہ افراد میں ایسے لوگ کہاں سے آتے ہیں جو مبینہ طور پر خوفزدہ ہوسکتے ہیں؟ اس سطح پر بات ہوگی تو شاید نتیجہ خیز بھی ہوگی۔ اس طرح کے سوالات پر غور کرنے کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے، جہاں اراکینِ پارلیمان سُود و زیاں کی پروا کیے بغیر بات کریں تو اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں اگر یہ ممکن نہیں تو میڈیا پر یہ موضوع چھیڑا جا سکتا ہے اور میڈیا پر بھی مشکل ہو تو پھر اہل حل و عقد کے ساتھ کہیں بند کمرے میں ہی بیٹھ جائیں۔ اس طرح کے مسائل پر تو حکومتیں میزبانی کرتی ہیں، لوگوں کو بٹھا کر بات کرتی اور سنتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ کرے تو کون، ہمارے وزیر اعظم؟ جو نرگسیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور جو مخالفین کو مطعون کرنے کے سوا کسی کام میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے۔ بیٹھے تو کون، حزب اختلاف؟ جو اپنی سیاست گری میں خوار ہے۔ 
سیاستدانوں کو ہی لے لیجیے... اگر سیاستدانوں میں سے کسی ایک کا بھی ماضی اقرباء پروری، ذاتی وفاداروں کو ریاست پر جان دینے والوں پر ترجیح دینے، مشکوک ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت اور بدعنوانی سے صرفِ نظر سے پاک ہوتا تو آج ملکی نظام کا یہ حال نہ ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں