"HAC" (space) message & send to 7575

مہلت

وقت گزر رہا ہے، تحریک انصاف نہیں سمجھ رہی۔ یوں کہیے کہ عمران خان صاحب ہی نہیں سمجھ پا رہے کہ انہیں لوگ اداروں کی اصلاحات اور بہتر معیشت کے لیے اقتدار میں لائے تھے۔ ان دونوں معاملات پر کام کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی ساری توانائی غیر ضروری سیاسی لڑائیوں میں صرف کر دی۔ سمجھانے والوں نے انہیں کئی بار سمجھایا لیکن انہوں نے سن کر نہیں دی۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد جب ان کے قریب ترین دوستوں کی نگاہیں بھی بدلنے لگی ہیں تو وہ کچھ متحرک ہوئے ہیں۔ اپنے جن وزرا کی دریدہ دہنی اور زبان درازی کی داد وہ برسر مجلس دیا کرتے تھے، اب پتا چل رہا ہے کہ ان کا یہ ہنر ملک چلانے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اپنے کپڑوں اور گالیوںکی تراش خراش میں مگن وفاقی کابینہ کے وزرا کا گروہ اتنا نکمّا ہے کہ اس میں سے کسی کو خراب سائیکل کی مرمت کرانے کا کہا جائے تو نہ کرا سکے۔ الا ما شااللہ۔ تکبر اتنا کہ ہر با عزت شخص ان کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا کرتا ہے۔ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ جس وفاقی وزیر کو کراچی کے نالے صاف کرنے بھیجا گیا ہے، وہ یہ بھی نہیں کر پائیں گے۔ وہی ہوا، کراچی میں ادھر ادھر کی ہانک کر واپس اسلام آباد کے ٹی سٹالوں پر بیٹھے ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ وزیر اعظم کی بارگاہ میں باریابی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کیونکہ اس کا نام بھی اس فہرست میں ڈالا گیا ہے جنہیں بیک بینی و دو گوش باہر کرنا ہے۔ لیکن انہیں یا ان جیسے چند اور کو کابینہ سے نکالنا مسئلے کا حل نہیں۔ حل ہے کہ مردانِ کار مہیا کیے جائیں، جن کی نیت اور اہلیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ وہ ٹیم میدان میں اترے جس کی امید عمران خان نے عام اور خاص سبھی کو دلائی تھی۔ وہ ٹیم کہیں نظر نہیں آتی۔ اب انگلیاں کپتان کی طرف اٹھنے لگی ہیں، گو وقت ایسے مقام تک نہیں پہنچا جہاں سے لوٹ نہ سکے، لیکن پھر بھی بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ بہت کم وقت میں بہت کچھ کر کے دکھانا ہے ورنہ...
مسئلہ الجھاتے رہیں تو دوسری بات ہے ورنہ پہلی ترجیح ہے گورننس۔ تحریک انصاف نے گورننس کا معیار اتنا گرا دیا ہے کہ اس کے سامنے پیپلز پارٹی بھی ماہرین کی جماعت معلوم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی تو کبھی کاغذ پر بنے منصوبے کو زمین پر اتار ہی نہیں پائی لیکن موجودہ حکومت کاغذ پر بھی کچھ نہیں بنا پائی۔ اس نالائقی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نظام میں کام کرنے کی صلاحیت ہی مفقود ہو چکی ہے، اب بڑے پیمانے پر اس کی اصلاح کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ایک افسر نکال کر دوسرا لانے کی فضول مشق ایک سال سے جاری ہے لیکن حکومت کی گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ حد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد ہے، لیکن پنجاب میں اس کو درست کرنے کے لیے ایک سال میں سات صوبائی سیکرٹری بدلے جا چکے ہیں مگر خود عمران خان صاحب کے حلقے عیسٰی خیل کے کالج میں اساتذہ نہیں ہیں۔ پولیس کی اصلاحات تبدیلی منشور کا دوسرا بنیادی پتھر ہے‘ مگر سیاست کاری کی وجہ سے پہلے سابق آئی جی ناصر درانی مایوس ہو کر چلے گئے اور اب ہر ایم پی اے اور ایم این اے من مرضی کے تھانیدار لگوا کر سیاست سے آلودہ پولیس کو آلودہ تر کرنے میں جُتا ہے۔ بلدیاتی نظام کو بالکل اسی طرح لپیٹ دیا گیا ہے جیسے ان سے پہلے والے کیا کرتے تھے، سو عوام کا جو تھوڑا بہت کام نیچے ہو جاتا تھا اب وہ بھی نہیں ہو پاتا۔ ان مسائل کا حل آسان بھی ہے اور سادہ بھی۔ کرنا صرف یہ ہے کہ صوبے میں سی ایس پی افسروں کی جگہ دنیا بھر کی مانند پیشہ ورانہ اہلیت کے لوگوں کو لگانا ہے۔ شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا سربراہ لگا کر دیکھ لیا کہ پروفیشنل آدمی ٹیکس کے نظام کو بڑی حد تک پٹڑی پر چڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔ بس قواعد میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے ہر وزارت کا سیکرٹری اسی طرح کے آدمی کو لگانا ہے۔ جب تعلیم کی وزارت کا سیکرٹری تجربہ کار استاد، صحت کی وزارت کا سیکرٹری تجربہ کار ڈاکٹر اور زراعت کا سیکرٹری ماہر زراعت ہو گا تو معاملات میں فوری بہتری آنے لگے گی۔ رہ گئی بات بیوروکریسی کی ناراضی کی تو وہ پہلے کون سا کوئی کام کر رہی ہے جو اس کی ناراضی کسی پر بھاری پڑے گی۔ 
گورننس کی اصلاحات کے ساتھ ہی معاشی اصلاحات جڑی ہیں۔ اگر قرضے، غیر ملکی امداد اور دوستوں سے ملنے والی بھیک کی بجائے عزت کا راستہ اختیار کرنا ہے تو وہ ملک میں چھوٹی صنعتوں کا فروغ ہے۔ چھوٹے صنعت کاروں کی مجبوری ہے کہ جہانگیر ترین، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور رزاق داؤد کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔ اگر جانتے ہیں تو یہ صاحبان ان سے ملنا گوارا نہیں کرتے۔ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے ان لوگوں کے ٹھکانے گوجرانوالہ، سیالکوٹ، وزیر آباد، حیدر آباد اور گجرات ہیں مگر ان شہروں کو جاتے ہوئے ان شخصیات کے پاؤں کی مہندی اترتی ہے۔ یوں بھی یہ خرادیے، ویلڈر، لوہار اور ترکھان جیسے محنت کش تھوڑی بہت اردو سمجھتے ہیں، ولایتی صاحب لوگ ان سے کہاں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ جن کے خون پسینے سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چلتا ہے، انہیں گلے لگانے سے تو بابا لوگ بیمار پڑ جائیں گے۔ چلیے ان سے نہ ملیے اپنے منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کی لاج تو رکھ لیجیے۔ آبادی کے اعتبار سے پچاس لاکھ نوکریاں تو سیدھے سبھاؤ پنجاب میں پیدا کرنا ہوں گی۔ اس کے لیے منصوبہ سیدھا سا ہے۔ پہلے ایک پروفیشنل آدمی کو سیکرٹری صنعت لگائیے پھر ایک سو ارب روپے کے قرضے چھوٹے صنعتکاروں کو سات سے دس سال کے لیے رائج شرح سود سے نصف پر دے دیجیے۔ قرضوں کی شرط یہ ہو کہ قرضہ لینے والا صرف مقامی مشینری خریدے گا۔ جب یہ سرمایہ منڈی میں آئے گا تو موجود صنعت خود ہی چلنے لگے گی۔ روپے کی قدر میں کمی اور درآمدات میں کمی کی پالیسی کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں کے لیے حالات اچھے ہیں۔ تھوڑی سی رہنمائی اور مدد مل جائے تو معجزہ ہونے لگے گا۔ مثال کے طور پر عرض ہے کہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ ملک میں موجود رکشوں اور موٹر سائیکلوں میں پٹرول انجن کی بجائے بجلی کی موٹریں لگائی جائیں گی۔ یہ موٹریں پاکستان میں بنانا بالکل بھی مشکل نہیں۔ گوجرانوالہ اور گجرات ایسے کاریگروں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ کام نہایت آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اگر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت رکشے اور موٹر سائیکل میں لگنے والی چند سو موٹریں بنا کر ان کاریگروں کو دے دے اور انہیں بنانے کا طریقہ بھی اردو زبان میں بتلا دے تو ملک کی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ڈیڑھ کروڑ موٹر سائیکل پٹرول کی بجائے بیٹری پر چلنے لگیں گے۔ یہ کوئی ناقابل عمل منصوبہ نہیں، چین میں ایسا ہو چکا ہے اور بھارت میں ایسا ہو رہا ہے۔ اگر ہم بھی یہ کریں تو لاکھوں لوگ روزگار پر لگ جائیں گے، لیکن نہیں کریں گے کیونکہ ہماری پیاری حکومت صرف باتیں بنا سکتی ہے۔ 
گورننس ٹھیک کرنی ہو یا معیشت، دنیا نے ترقی کرنے کے تمام فارمولے کتابوں میں لکھ رکھے ہیں۔ عظمت کے سب راستے گوگل (google) پر ایک بٹن دبا کر مل جاتے ہیں۔ کھانا پکانے سے لے کر جہاز بنانے تک کا عملی طریقہ یو ٹیوب (youtube) پر دستیاب ہے۔ سمجھنا صرف یہ ہے کہ ان میں سے آپ کے لیے موزوں کیا ہے اور کرنا بس یہ ہے کہ ڈھنگ کے لوگوں کو صحیح جگہ پر لگانا ہے۔ یہ دونوں کام ہی دنیا کے مشکل ترین کام ہیں۔ تحریک انصاف سے یہی دو کام نہیں ہو پا رہے۔ عمران خان جس سے جواب طلب کرتے ہیں وہ اپنی نالائقی دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔ پنجاب کے نکھٹو اپنی نا اہلی عثمان بزدار کے سر ڈال کر نچنت ہو جاتے ہیں اور مرکز میں یہ ایک دوسرے سے لڑ کر اپنا پردہ رکھ لیتے ہیں۔ خیر، اب مسئلہ یہ ہے کہ مہلت سالوں کی نہیں مہینوں کی بچی ہے۔ کشمیر کی چادر اوڑھ کر کوئی کتنی دیر سخت موسموں سے بچے گا۔ آئندہ دو مہینوں میں ٹیم کچھ اچھی ہو گئی تو کپتان صاحب بھی کھیل میں رہیں گے اور کھلاڑی بھی۔ اگر نہیں تو کیا ٹیم، کیا کپتان!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں