جناب عمران خان وزیر اعظم بن کر ملک تو چلا نہ پائیں مگر اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کریں، معیشت کو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور رضا باقر جیسوں کے حوالے کرکے مطمئن ہو جائیں، میڈیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں، کان میں پڑنے والی ہر یاوہ گوئی کو خبر مانیں، اپنی دیانتداری کے بھاشن دیں مگر جان بوجھ کر بے ایمانوں میں گھر جائیں۔ دعوے کریں مگر پورے نہ کر پائیں۔ ان کی کابینہ میں کم از کم چار بونے شامل ہوں اور ان میں سے ایک ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے دعوے بھی کرے، تو ان کے خلاف کم از کم جو کچھ ہو سکتا ہے‘ وہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ہے جسے وہ پیار سے آزادی مارچ کہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ حکومت جو ایک برس پہلے پورے قد سے کھڑی تھی آخر یونہی تو گھٹنوں پر نہیں آ گئی۔ اس کے لیے جس فقیدالمثال نالائقی کی ضرورت ہے، وہ پاکستان میں صرف تحریک انصاف کا خاصہ ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستانیوں کو بالعموم اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بالخصوص بامعنی تبدیلی کا یقین دلایا تھا۔ عوام کے ووٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ جیسے دو عناصر بیک وقت مل جانے کے باوجود گزشتہ سولہ مہینوں میں حرام ہے جو اس جماعت نے ایک قدم بھی بامعنی تبدیلی کی طرف بڑھایا ہو۔ اس نے کہا تھایکساں نصاب ہو گا، پنجاب اور خبیر پختونخوا میں صوبائی حکومتیں مل جانے کے باوجود اب تک نہیں ہو پایا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بلدیاتی نظام کو طاقتور کریں گے، عمل یہ کہ آتے ہی پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو توڑ ڈالا اور اب تک الیکشن کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اس نے بیوروکریسی کے نظام میں تبدیلیوں کا خواب دکھایا تھا لیکن یہاں بھی وہی ازکار رفتہ نظام اب تک چل رہا ہے جو اس ملک کے آگے بڑھنے میں گزشتہ پچاس برسوں سے رکاوٹ ہے۔ یہ دریا کے کنارے مر جانے والے جانور کا بھی ذمہ لینے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی مگر اس کے دور میں سانحہ ساہیوال کے قاتل دندناتے ہوئے رہائی پا جاتے ہیں۔ اس جماعت نے لوگوں کو ہنر سکھانے کی بات کی تھی مگر یہ خود بے ہنروں کا دنیا میں سب سے بڑا گروہ بن کر ابھری ہے۔ سو اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے پر ہونے والا دھرنا محض مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کے شوقِ اقتدار کی کوشش نہیں بلکہ اُس کم عقل ہجوم کو سمجھانے کی ادنیٰ سی کوشش ہے جو قوم کے اعصاب پر حکومت بن کر سوار ہو گیا ہے۔ یہ موجودہ حکومت کی نااہلی پر نظام کے اندر سے اٹھنے والی چیخ ہے جسے نہ سنا گیا تو پھر ان کی بھی نہیں سنی جائے گی جو سب کو سنانے کی قوت رکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دینا، ان کے والد کے ماضی بعید کے سیاسی نظریات پر تنقید کرنا یا عالمی حالات اور خطے کی سکیورٹی صورتحال سے اسے جوڑ کر دیکھنے پر لوگوں کو مائل کرنا دراصل بچگانہ طرز عمل ہے۔ اس طرز عمل کا مظاہرہ تحریک انصاف کرے تو سمجھ میں آتا ہے کہ نظام سقے کی طرح یہ بے چارے ایک سیاسی حادثے کی پیداوار ہیں اور انہیں سیاست کے نشیب و فرازکا بنیادی شعور بھی نہیں۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب سیاست کا طویل تجربہ رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح کی گفتگو کا مطلب ہے کہ انہوں نے موجودہ حکومت کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور اس کی ناکامی پر ہونے والی تنقید کو خود پر تنقید تصور کر لیا ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پھر اس حکومت کے سیاسی مخالفین حکومت کی بجائے کسی اور کو اپنا ہدف قرار دے لیں گے۔ کسی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ادارے شخصیات کے ساتھ قانون کے دھاگے سے جڑے ہوتے ہیں، ذاتی پسند ناپسند کی رسیوں میں بندھے نہیں ہوتے۔ اس لیے پاکستان کے ہر شخص اور ہر ادارے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر نواز شریف کی بیماری پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیتی ہے یا مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے خطۂ پوٹھوہار کے سارے شہر لرزنے لگتے ہیں تو اس کی وجہ عالمی سیاست نہیں بلکہ مقامی سیاسیات میں پیدا ہو جانے والی نفرت ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتی ہے اور سیاستدان بھی۔ کاروبارِ دنیا انہی دونوں کے تال میل سے چلتا ہے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کھیل کے اصول ٹوٹتے ہیں۔ پاکستان میں کھیل کا قابل قبول ضابطہ یہ ہے کہ سامنے آ کر کھیلیں، آپ سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے جب ٹی وی پر بیٹھ کر توہین آمیز جگتیں لگائیں گے تو اچھے سے اچھا دوست بھی ناراض ہو جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اب اپنی کامیابی کے لیے وزیراعظم کے استعفے کا محتاج نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے حکومت کو جان کنی میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے بھی یہ حکومت پندرہ ماہ میں کچھ نہیں کر پائی تھی لیکن اب یہ کچھ کرنا بھی چاہے تو نہیں کر پائے گی۔ 'وقت پر لگائے جانے والے ایک ٹانکے سے بڑے بڑے طوفان ٹل جاتے ہیں، ایسی عقل مندی کی باتیں سمجھنا اس گروہِ سرمستاں کی بساط سے باہر ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ عمران خان ناکام ہو چکے ہیں، سوال صرف یہ ہے کہ وہ مزید کتنا عرصہ وزیراعظم رہ پاتے ہیں۔ اب ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک طوفان اٹھتا رہے گا اور زیادہ سے زیادہ اگلے بجٹ تک یہ وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے چلے تھے۔ اس تقدیر مبرم سے بچنے کے لیے ان کے سامنے دو راستے ہیں جن پر انہیں بیک وقت چلنا ہو گا۔ پہلا راستہ خود احتسابی ہے۔ اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کریں۔ اس امیر زادے وزیر کو ہٹا دیں جو کام تو دھیلے کا نہیں کرتا بس انہیں آ کر بتاتا ہے کہ اسلام آباد میں کون کیا کر رہا ہے اور اس کی بیشتر مخبریاں لوگوں کی کچھ سرگرمیوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ اس نوجوان معاون سے بھی جان چھڑا لیں جو ان کے ساتھ دورے پر جا کر بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو لندن میں بنی ایک کمپنی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے احباب کو بھی گھر بھیجیں جو انہیں میڈیا کی مشکیں کسنے کے مشورے دیتے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب کو ایک بار پھر خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنا دیں، وہ بہت سے مسائل خود ہی حل کر دیں گے۔ پنجاب میں عثمان بزدار صاحب کو ہر مہینے ایک ایسا کاغذ دیں جس پر ایک خانے میں کام لکھے ہوں اور دوسرے میں ہر کام کے مکمل کرنے کی تاریخ۔ ان کی مدد کے لیے اعظم خان اور ارباب شہزاد کے مشورے سے ہٹ کر قابل افسر مقرر کریں۔ قابل افسروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ان کی مخالفت میں اعظم خان اور ارباب شہزاد زمین آسمان ایک کر ڈالیں گے۔ وزیر اعظم جس باقاعدگی سے معیشت پر بے معنی سا ایک اجلاس بنی گالہ میں منعقد کرکے بے موقع اعداد و شمار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، اسی باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے صرف یہ سوال پوچھیں کہ کامیاب نوجوان سکیم کے تحت کتنے قرضے دیے گئے اور ملک میں کتنے کارخانے نئے لگ رہے ہیں۔ باقی سب کچھ فضول ہے۔ احتساب کی بجائے معیشت پر توجہ دیں اور جب بھی تقریر کریں وزیر اعظم بن کر کیا کریں، نام نہاد صوفیا کی طرح فلسفے میں لتھڑے مذہبی فقروں سے گریز کریں۔
عمران خان کے سامنے اس مصیبت سے نکلنے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ فوری طور پر شہباز شریف سے رابطہ کرکے الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کریں۔ یہ مسئلہ حل ہوگیا تو دیگر سیاسی مسائل کے حل کے راستے کھلنے لگیں گے۔ اس کے بعد وہ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلا سکیں گے اور ویسی قانون سازی بھی ہو جائے گی جو ان کے منشور کا حصہ ہے۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ وزیراعظم بن کر ہر ہفتے پارلیمنٹ میں جاؤں گا۔ ہر ہفتے جانا تو دور کی بات ہے، عملی طور پر پارلیمنٹ کا ہر اجلاس حکومت کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے جب بھی کراچی جائیں اپنی سیاسی مخالفت بھول کر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ لازمی ملاقات کریں۔ یاد رکھیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے زوال کا آغاز پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کو نظر انداز کرنے سے ہوا تھا۔ ضروری ہے کہ جناب عمران خان اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں، اب وہ کرکٹ کی گیارہ رکنی ٹیم کے کپتان نہیں، بائیس کروڑ لوگوں کے وزیر اعظم ہیں۔