گزشتہ پندرہ مہینوں میں یہ بات تو پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ پہیے کی ایجاد، لباس کا استعمال اور چقماق پتھر سے آگ لگانے کے طریقے کی دریافت تحریک انصاف کے ہی کارنامے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام میں سے کون ایسی ہمت کر سکتا ہے کہ وہ دیانت داری، صداقت شعاری اور انصاف کاری کی کوئی مثال اگست دو ہزار اٹھارہ سے پہلے کے زمانے سے لے آئے۔ ذاتی طور پر تو میں یہ ماننے کے لیے بھی تیار ہوں کہ ہم ایک عہدِ تاریک میں زندہ تھے، عمران خان صاحب کی قیادت میں تحریک انصاف ہی نے ہمیں ترقی کی روشنی دکھائی۔ بطور پاکستانی آپ پر بھی یہ مان لینا فرض ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے پاکستان میں کوئی ٹیکس دیتا تھا نہ کبھی ترقی کا کوئی دور اس ملک پر گزرا تھا۔ بس ایک جنگل تھا جسے گزشتہ پندرہ ماہ کی محنت شاقہ کے بعد گل و گلزار کر دیا گیا ہے۔ تسلیم کیجیے کہ آسمان سیاست پر اگر عمران خان طلوع نہ ہوتے تو عثمان بزدار، محمود خان، فیصل وائوڈا، مراد سعید، علی زیدی اور فیاض الحسن چوہان جیسے ستارے بھی کہیں نہ چمکتے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر جیسے عبقری بھی اس قوم میں پیدا نہ ہوتے۔ جب سے بزم گیتی میں یہ طائفۂ انصاف اترا ہے ہر طرف خوشیوں کی ملہار، پرندوں کی چہکار اور چمن میں بہار کی مہکار کا سماں ہے۔ اہالیان اسلامی جمہوریہ پاکستان بن مانگی خوشیوں کے نشے میں سرشار ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے اپنے جنت نظیر وطن کو تکا کرتے ہیں۔ انہیں دکھ ہے تو بس اتنا کہ اس عہدِ عمرانی و شادمانی تک پہنچنے میں اتنا زمانہ کیوں لگا۔ یہ ہے خیال کا نیا پاکستان جہاں ہمارے پیارے وزیراعظم کی قیادت میں ان کی کابینہ اور دیگر متوسلین ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں اور اب میڈیا کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ عوام کو پرانا پاکستان چھوڑ کر اسی نئے پاکستان میں بس جانے پر راغب کرے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا تو کم ازکم حقائق بتا کر بور نہ کرے۔
جن زمینی حقائق کے ذکر سے بابا لوگوں کو بوریت ہوتی ہے وہ قوم کے سوہان روح بن گئے ہیں۔ ان میں سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ لڑکے بالے ابھی مزید پینتالیس مہینے اس ملک پر حکومت کریں گے۔ پہلے پندرہ ماہ میں تو انہوں نے اپنے کمالِ فن سے چھ فیصد شرح پر ترقی کرتی معیشت کو لگ بھگ تین فیصد پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر اس شرح میں سے آبادی کا سالانہ فیصد اضافہ منہا کردیا جائے تو اصل شرح ترقی صرف ایک فیصد یا اس سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ اس عرصے کے دوران برآمدات میں صرف چار فیصد اضافے پر بغلیں بجانے والے اس گروہِ طفلاں کو یہ سمجھانے والا بھی کوئی نہیں کہ روپے کی قدر میں تینتیس فیصد کمی کے بعد بھی چار فیصد اضافہ آپ کی نالائقی کا نہایت ادنیٰ ثبوت ہے۔ برآمدات میں چار فیصد اضافے کو قومی ترانہ بنا لینے والوں کو اتنا علم بھی نہیں کہ ملک میں کارخانوں کی شرحِ پیداوار مسلسل گرتی جارہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب یہ کارخانے اپنے ملازمین کی تعداد میں کمی پر مجبور ہوجائیں گے۔ یوں بیروزگاری کا طوفان‘ جو ابھی ساحل سے دور دکھائی دے رہا ہے‘ بہت جلد ہمارے شہروں سے آٹکرائے گا۔ اس کے بعدجو تباہی آئے گی اس کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے وزیرخزانہ جتنا معاشیات کا علم نہیں صرف اوسط درجے کی عقل چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد معیشت میں آنے والی سستی کی پیش بندی کے طور پر چھوٹی صنعتیں لگانے کے لیے رعایتی قرضے دیے جاتے مگر ہوا یہ کہ ساری حکومت احتساب اور انتقام میں پھنس کر رہ گئی۔ کسی نے سمجھانے کی کوشش کی تو اسے دھتکار دیا گیا۔ وزیراعظم کے بارے میں گمان تھا کہ وہ معیشت پر توجہ دیں گے لیکن جس عطار کے لونڈے سے وہ دوا لیتے ہیں اسے زمینی حقائق کا علم اتنا ہے کہ ڈھائی سو روپے کلو بکتے ٹماٹروں کی قیمت سترہ روپے بتلاتا ہے۔ وہ وزیراعظم کو بھی اسی طرح کے اعدادوشماربتا کر فیصلے کرا لیتا ہوگا جنہیں بائیس کروڑ لوگ اپنی جانوں پر جھیل رہے ہیں۔ جو شخص وزیراعظم کو گرتی ہوئی پیداوار بتائے بغیر درآمدات میں کمی کا عدد بتا کر کہے کہ معاشی پالیسیاں رنگ لارہی ہیں‘ اس سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔ فرض کرلیں اگلے پینتالیس مہینے میں حالات ٹھیک بھی کرلیے جاتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟ بس یہ کہ تین فیصد کی شرح ترقی چار پانچ فیصد پرپہنچ جائے گی اور ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں دوہزار اٹھارہ میں تھے! دائرے کا ایک اور بے فائدہ سفر۔
دوہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے کو ٹھیک کرنے کے دعوے تو سب کو یاد ہوں گے۔ ان میں سے کسی ایک ادارے میں کوئی ایک اصلاح؟ ظاہر ہے کوئی نہیں۔ پی آئی اے میں صرف رفوگری کا کام جاری ہے جو کتنی ہی مہارت سے کیا جائے کپڑے کو نیا نہیں کرسکتا۔ ماضی کی ہر انتظامیہ کی طرح تحریک انصاف کی لائی ہوئی انتظامیہ کا عالم بھی وہی ہے یعنی ایک آدھ پرانے جہاز کو ٹھیک کرکے اڑالینے پر اظہار مسرت اور نئے جہازوں کے لیے نئے قرضوں کی منظوری کی نوید۔ یہ وہ راگ ہے جو میں بطور رپورٹر پچھلے بیس برسوں میں کم ازکم بیس بار سن چکا ہوں۔ ہر دفعہ کوئی نیا گلوکار اس میں ایک آدھ مرکی آگے پیچھے کرکے گاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ سٹیل ملز کا عالم یہ ہے کہ پانچ سات نامعلوم افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو ادھر ادھر کی مارتی رہتی ہے، کوئی فیصلہ کر پائی ہے نہ آئندہ سو برس میں کرپائے گی۔ امید واثق ہے کہ اگلے پینتالیس مہینے بھی یہ مل سفید ہاتھی بند کر ہم پر سوار رہے گی۔ ریلوے کی حالت یہ ہے کہ حادثوں پر حادثے ہورہے ہیںاور اس کا وزیر پوری 'استقامت‘ سے ٹی وی پر بھی آتا ہے، بیان داغتا ہے مگر اپنے وزیراعظم کے فرمودات کی روشنی میں استعفیٰ نہیں دیتا۔ کل بھی یہ ادارہ تیس ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ نقصان کرتا تھا، آج بھی یہ تیس ارب روپے سے زیادہ ہڑپ کرجاتا ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں اصلاح احوال کی جو کوشش ان تین اداروں کو ٹھیک کرنے کی ہوئی ہے، اس کو دیکھا جائے تو اگلے پینتالیس مہینے کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ کیا اس بربادی کے بعد کچھ سنبھل بھی سکے گا؟
پاکستان کے بہت سے معاشی، سماجی اور قانونی مسائل کی جڑیں گورننس کے اس پرانے نظام میں پیوست ہیں جو ہمیں انگریز نے دیا تھا۔ اس نظام کو چلانے والی بیوروکریسی کا ڈھانچہ اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اس کو بدلے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے کی طرف نہیں اٹھا سکتے۔ تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس نظام میں اصلاحات لائے گی۔ آج پندرہ ماہ بعد ہمیں یقین ہے اصلاح کی کوشش اس جماعت کے بس کی بات نہیں۔ الٹا ناتجربہ کاری اور احتساب کی جھونک میں اس نے موجودہ بیوروکریسی کو اتنا ناراض کرلیا ہے کہ اب وزیراعظم خود افسروں کے سامنے صفائیاں دیتے پھرتے ہیں اور کوئی سنتا نہیں۔ ایماندار حکومت کبھی ایک کاغذ اور کبھی دوسرا، کبھی اِس قاعدے اور کبھی اُس ضابطے میں اتنا الجھ گئی ہے کو کچھ کر ہی نہیں پارہی۔ پچھلے وفاقی سیکرٹریوں کے اجلاس میں خود وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے خلاف مقدمے ہم نے نہیں بنوائے۔ اس پر کوئی کچھ بولا تو نہیں بس اجلاس کے خاتمے پر سب لوگ مسکراتے ہوئے اپنے اپنے دفتر چلے گئے۔ اب حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ پل میں تولہ، پل میں ماشہ ہوجانے والی یہ حکومت خود کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ کر بھی لے تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیا کوئی ملک مزید تین سال اورنو مہینے کے لیے اس بے عملی کا متحمل ہوسکتا ہے؟
انیس سو تہتر کا دستور کہتا ہے کہ کوئی بھی حکومت پانچ سال تک برقرار رہے گی اگر اسے قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل رہتی ہے۔دستور میں اس بات کا کوئی تعین نہیں کیا گیا کہ اگر کوئی حکومت معاشی تباہی کے راستے پر قدم رکھ دے تو اسے کیسے روکا جائے۔ دستور کا کوئی آرٹیکل یہ بھی نہیں واضح نہیں کرتا کہ بے عمل حکومت کو کام کی طرف راغب کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ سبز کتاب میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ کوئی حکومت مخالفین کو ہر وقت گالیاں ہی دیتی رہے تو اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب تاریخ سے ملتے ہیں۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی حکومت کو اس کے دوست ہی گھر بھیجتے ہیں۔ پینتالیس مہینے کی مہلت کوئی نہیں دیتا۔