انیس سو نواسی میں یعنی آج سے تیس سال پہلے پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یونین کے انتخابات ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے ابھی اقتدار سنبھالا ہی تھا اور انہوں نے ہی طلبہ یونین پر جنرل ضیاء الحق کی لگائی ہوئی پابندی کا خاتمہ کیا تھا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یونین کے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوئے‘ لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرا دی گئی۔ اس کے بعد حکومتیں آتی جاتی رہیں، خود محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی آئی لیکن طلبہ یونین کے الیکشن کبھی نہ ہوئے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد دو ہزار آٹھ میں ان کی پارٹی کو حکومت ملی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے طلبہ یونینز پر سے پابندی ہٹانے کا اعلان تو کیا لیکن اس اعلان پر عمل نہ ہو سکا۔ یوں تیس سال گزر گئے، لاکھوں طلبہ تعلیمی اداروں سے نکل کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ جس شخص کی عمر چالیس برس ہے اور وہ کسی کالج یا یونیورسٹی سے پڑھا ہے، اسے یہ علم ہی نہیں کہ طلبہ یونین کیا ہوتی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں سے بھی اس حوالے سے بات کریں تو طلبہ تنظیموں پر اعتراضات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی جمعیت طلبہ، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن یا پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن جیسی طلبہ کی تنظیموں پر اعتراضات بجا لیکن طلبہ یونین تو چیزے دگر ہے۔ سو آپ اگر یہ کالم پڑھتے ہوئے طلبہ تنظیم اور طلبہ یونین میں فرق نہیں کر پا رہے تو کوئی بات نہیں۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ یونین دراصل تعلیمی اداروں کی منتخب اسمبلی ہوتی ہے جس میں شامل ہونے کے لیے طلبہ تنظیمیں اپنے اپنے نمائندے جتوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی ان اسمبلیوں کی مدت صرف ایک سال ہوتی ہے اور اس کے نمائندوں کے پاس کوئی بڑے فنڈز ہوتے ہیں نہ اختیارات۔ بس یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو ووٹ کے تقدس کا احساس ہو جاتا ہے لیکن اس کا عملی فائدہ بے پناہ ہے کہ معاشرے کو جاوید ہاشمی، مجیب الرحمٰن شامی، سجاد میر، ڈاکٹر محمد مالک (سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان) جیسے لوگ مل جاتے ہیں۔
طلبہ یونین کا معاملہ چند برس اور دبا رہتا تو شاید پرانے زمانے کے ٹی وی‘ ریڈیو سیٹس کی طرح تاریخ کے کباڑ خانے میں پڑا پڑا غبار ہو جاتا۔ وہ تو بھلا ہو ان نوجوانوں کو جو چند دن پہلے ملک کے تمام بڑے شہروں میں باہر نکلے اور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ زور دار انداز میں کر ڈالا۔ ان نوجوانوں کی اکثریت بظاہر بائیں بازو کے اشتراکی نظریات سے کچھ متاثر نظر آتی تھی۔ 'کچھ‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ان کے نعرے، اندازِ فکر اور تقریریں یہی ظاہر کر رہے تھے کہ اشتراکی نظریات نے انہیں اتنا ہی متاثر کیا ہے‘ جتنا آج کل سردی کے موسم میں انسان کو ہلکا پھلکا زکام متاثر کر دیتا ہے، یعنی آتا ہے، چلا جاتا ہے اور یاد بھی نہیں رہتا۔ ان نوجوانوں نے سرخ جھنڈے اٹھا کر جب ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگایا تو ہم جیسے ہنسی نہ روک پائے۔ یہ نعرہ جس ایشیا میں لگایا جاتا تھا‘ وہاں چین اور روس جیسی طاقتیں بھی اشتراکی نظریات کی رکھوالی کر رہی تھیں۔ آج یہ دونوں ملک بھی سرخ ایشیا کو بھول بھال کر منڈی کی معیشت پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لہٰذا پاکستان میں ایشیا سرخ ہے کا نعرہ سوائے لطیفے کے اور کیا ہے! لیکن اس لطیفے کی تہہ میں چھپا ہیجان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ جو پاکستانی معاشرے کے نوجوانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ یہ ایک طرح سے پاکستان میں پھیلی ہوئی مذہبیت کے خلاف احتجاج ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں مذہبیت کا متضاد عقل پسندی کی بجائے اشتراکیت سمجھا جاتا ہے تو ان نوجوانوں نے اپنے جلوسوں کا حلیہ ازمنۂ رفتہ کے اشتراکی جلسوں جیسا رکھا۔ دوسرا معاملہ ان مظاہروں میں ریاست کے ڈھانچے پر نوجوانوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات تھے۔ ہر تجربہ کار عملیت پسند کو علم ہے کہ اس وقت ریاستی ڈھانچے پر ایک خاص حد سے زیادہ تنقید کرنے کا مطلب مصیبتوں کو دعوت نامہ بھیج کر بلانے جیسا ہے۔ نا تجربہ کار نوجوانوں کو ان حدود کا علم نہیں ہے اور ان سے بہت زیادہ ذمہ داری کی توقع ہو بھی نہیں سکتی۔ انہیں ذمہ دار بنانے کے لیے ہی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تعلیمی اداروں میں یونین کے انتخابات ہوتے رہیں تاکہ متحرک نوجوانوں کو اپنے نظریات دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا بھی آ جائے اور انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ نظریات، ادارے، افراد اور انفرادی تعلق کہاں کہاں جڑتے اور الگ ہو جاتے ہیں۔ انہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سرخ، سبز، نیلے یا پیلے کی آزادانہ بحث کرنے دیں پھر اپنے اپنے رنگ پر ووٹ بھی مانگنے دیں۔ جیتنے دیں، ہارنے دیں، یہ ہمارے ہی بچے ہیں، وقت انہیں سب کچھ سکھا دے گا جیسے ان سے پہلے والوں کو سکھا چکا ہے۔ ان بحثوں کو پڑھے لکھے لوگ علم کی آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ نکتہ سینکڑوں سال پہلے مغرب نے سیکھ لیا تھا۔ اسی لیے آج سے ایک سو سینتیس برس پہلے اٹھارہ سو بیاسی میں جب انگریز نے پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی تو اسی وقت قانون میں لکھ دیا تھا کہ طلبہ یونین بھی ہو گی‘ اس کے نمائندے بھی ہوں گے اور وہ یونیورسٹی کے سینیٹ اور سنڈیکیٹ میں بھی بیٹھیں گے۔ وہ تو استعماری دور تھا، کیا یہ استعمار سے بھی گیا گزرا دور ہے؟
معلوم نہیں طلبہ یونین کی بحالی کوئی جرم ہے یا اشتراکیت کے نعرے خلاف قانون ہیں لیکن یونین کی بحالی کے نعرے لگانے والے مظاہرین کے خلاف پنجاب پولیس نے پرچے ضرور کاٹ دیے ہیں۔ کوئی بعید نہیں، نوجوانوں نے کوئی غیر ذمہ دارانہ بات بھی کر دی ہو گی‘ مگر ریاست کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تاؤ کھا کر اپنی طاقت دکھانے پر اتر آئے۔ ویسے بھی یہ جمہوری حکومت ہے، جمہوریت برف کی ڈلی نہیں، چائے کی پیالی ہوا کرتی ہے۔ گرما گرم ہی مزا دیتی ہے اگر یہ گرمیٔ گفتار بھی نہ رہے تو پھر اسے چائے کہا جا سکتا ہے نہ جمہوریت۔ آج کے وزیر اعظم عمران خان جب خود اپوزیشن میں ہوتے تھے تو کیا کیا نعرے انہوں نے نہیں لگائے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے بارے میں ہر ناگفتنی وہ کہہ ڈالتے تھے۔ انہیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ آج لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اگر لوگ بول رہیں تو انہیں بولنے دیں۔ یہ کیا کہ ذرا ذرا سی بات پر قومی مفاد کے نام پر قانون کی لاٹھی لے کر پِل پڑے۔ اس سے ریاست کا نام بھی خراب ہوتا ہے اور حکومت کا بھی۔ اور ہوا بھی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل بھی بول پڑی کہ ان مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائیاں روکی جائیں۔ یہ اتنی نا معقول حرکت تھی کہ ایک وزیر بھی ان بے ضرر مظاہرین کے خلاف پرچے کٹنے پر کہہ اٹھے کہ جمہوریت میں مطالبہ کرنا غلط ہے نہ آواز اٹھانا۔ پھر وزیر اعظم صاحب نے بھی کہا کہ ان کی حکومت تعلیمی اداروں میں یونین کا نظام نافذ کرے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی کچھ ایسا ہی خواب دکھایا۔ لیکن یقین نہیں آتا۔
یقین اس لیے نہیں آتا کہ پہلے بھی ایک وزیر اعظم نے ہی کہا تھا مگر یونین سے پابندی نہیں ہٹی تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا بارہواں سال ہے، وہاں بھی نہیں ہٹی تو اب کیسے ہٹے گی۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی یونین کی بحالی کے حق میں ہیں‘ مگر جب انہی کو دو ہزار دو میں خیبر پختونخوا کی حکومت ملی تھی تو انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ رہ گی مسلم لیگ ن تو اس بے چاری کو اس طرح کے دانشورانہ جھمیلوں سے نہ پہلے کبھی لینا دینا تھا نہ اب ہے۔ یقین اس لیے بھی نہیں آتا کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں ایک بار پھر یونین کے الیکشن کا سلسلہ بحال ہوا تو یقینی طور پر نئے خیالات سامنے آئیں گے۔ نوجوان تعلیم کے موجودہ نظام کو بدلنے پر زور دیں گے۔ ان میںسے جو لوگ اٹھیں گے وہ ریاست کی فکری ساخت پر بھی سوال اٹھائیں گے۔ یہ سوال اٹھنا شروع ہو گئے تو پھر بہت کچھ بدلنا پڑے گا۔ اتنے خوش قسمت ہم ہیں نہیں کہ نئے خیالات اور نئے سوالات کو ہمارے حکمران برداشت کر سکیں۔