پچیس تیس سال پہلے کے ہائی سکول کے طلبہ کو کمپیوٹر میسر تھا نہ چوبیسوں گھنٹے چلنے والا ٹی وی۔تازہ معلومات کا واحد ذریعہ اخبارات تھے اور نظریاتی تشکیل کے لیے وہی قدیم کتابیں جنہیں پاکستان بنانے والوں نے پڑھ کر پاکستان بنایا تھا یا پاکستان بنانے کے بعد لکھا تھا۔نئی کتابیں میسر نہ تھیں اور ان کتابوں نے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ پر ایک عجیب سی مذہبیت طاری کررکھی تھی‘ جس کے تابع امت مسلمہ کے انتشار پر کڑھتے رہنا نوجوان دانش کا اہم ترین جزو تھا۔رہی سہی کسر جنرل ضیا الحق کے سرکاری اقدامات نے پوری کردی تھی جس کی وجہ سے پچیس سال سے کم عمر ہر پاکستانی خود میں ایک مجاہد تلاش کرتا رہتا تھا۔ اس فضا میں مسلم اقوام کے اتحاد‘ مشترکہ کرنسی ‘ مشترکہ فوج وغیرہ وغیرہ کے تصورات پنپا کرتے تھے۔پچیس سال سے زیادہ عمر کے لوگ چونکہ کام کاج میں لگ جاتے ہیں اور اصل دنیا کے تقاضے ان سے اپنا خراج وصولنے لگتے تو وہ ان خیالات سے جان چھڑا لیتے۔ ہائی سکول کے یہ نظریات زیادہ سے زیادہ یونیورسٹی تک ساتھ دیتے اورپھر ہوا ہوجاتے۔ مختصر یہ کہ جو جتنی جلدی تعلیمی اداروں سے نکلا اتنی ہی جلدی اس نے اردگردکی دنیا کو حقائق‘ عقل اور منطق کی روشنی میں دیکھنا شروع کردیا۔ جماعت اسلامی والے بعض دوست اس اصول سے مستثنیٰ ہیں کہ یہ لوگ سفید بالوں کے ساتھ بھی ہائی سکول ذہنیت کے ساتھ ہی دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری مثال عمران خان ہیں جنہوں نے پچپن ساٹھ سال کی عمر میں ہائی سکول کی کتابیں پڑھ کر''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘‘مسلمانوں کو یکجا کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ آپ خود کو عالمی لیڈر بھی سمجھنے لگے ہیں اور پاکستان آپ کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے چھوٹا معلوم ہونے لگا ہے‘ اس لیے کبھی ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا بے معنی خیال سوجھتا ہے اور کبھی موجودہ زمانے کی حرکیات سے ناواقفیت کی بنیاد پر ملائیشیا‘ ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر دنیا تبدیل کرنے کی سوجھتی ہے۔ زیادہ بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ ان خیال و خواب کی باتوں پر مشورہ کرنے کے بھی قائل نہیں ‘ محض تقریر کی صورت اپنے دہن مبارک سے نکال کر سمجھتے ہیں کہ دنیا بدل ڈالیں گے۔
اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے متوازی ملائیشین وزیراعظم اور ترک صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد جب انہوں نے ان دونوں ملکوں کے ساتھ مل کر ایک ٹی وی چینل کی بات کرنا شروع کی تو اسی وقت بہت سو ں کا ماتھا ٹھنکا۔جب کوالالمپور کانفرنس کا اعلان ہوا تو اس وقت بھی کئی ایک نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسی مجلس جہاں ملائیشین وزیراعظم‘ ترک صدر‘ ایرانی صدر اور قطر کے امیر بیٹھے ہوں‘وہاں پاکستان کے وزیراعظم کے لیے تشریف رکھنا مشکل ہے۔ وزارتِ خارجہ نے تو باقاعدہ خاموشی اور گریز کا مشورہ دیا‘ لیکن وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے نابغوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ جب پانی سر سے گزرا تو حالت یہ ہوگئی کہ خود سعودی عرب جا کر اپنی کہی ہوئی باتوں کی نفی کرنا پڑی۔ اسی طرح کا مسئلہ عرب امارات میں بھی پیدا ہوگیا جسے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاکر سلجھانا پڑا۔ ''میں سب کچھ کرسکتاہوں‘‘ کے مغالطے میں مبتلا ہوکر ہمارے وزیراعظم اتنے آگے نکل گئے کہ خواہ مخواہ عالمی سطح پر ملک کی سبکی کرا لی‘ جس کا حاصل وصول بھی کچھ نہیں۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا ‘اگر وزیراعظم ان معاملات سے آگہی رکھنے والوں سے بات کرلیتے ۔ انہیں معلوم ہوجاتا کہ عرب سفارتکاری کا انداز کیا ہے۔
پاک عرب تعلقات کے پیچ وخم کی نزاکت کا اندازہ دبئی ایکسپو 2020 کے معاملے سے لگا لیجیے۔ ہوا یوں کہ صدر آصف علی زرداری نے ترکی کو دوہزار گیارہ میں کہہ دیا تھا کہ اس عظیم الشان نمائش کے انعقاد کے لیے پاکستان کا ووٹ اس کے حق میں پڑے گا۔ معلوم نہیں کیوں‘دوہزار بارہ میں اس وقت کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم مرحوم نے از خود ہی عرب امارات کو خط لکھ دیا کہ پاکستان کا ووٹ اس کے حق میں جائے گا۔ دسمبر دوہزار تیرہ میں جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو ترکی اور متحدہ عرب امارات دونوں پاکستان کو وعدے یاد دلانے کے لیے آگئے۔ اب حکومت بدل چکی تھی ‘ نواز شریف وزیراعظم تھے اور وہ پاکستان کا ووٹ ترکی کو دینا چاہتے تھے‘ لیکن عرب امارات کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت اسحٰق ڈار کو امارات بھیجا گیا کہ وہ پاکستان کی مجبوریوں سے انہیں آگاہ کریں۔ وہ گئے بھی لیکن امارات کے شیوخ نے ان کی بات سننے سے انکار کردیا۔ انہیں بھی تقریباً اسی مطلب کی بات سننا پڑی جیسی عمران خان کو ریاض میں سننا پڑی۔ اس دباؤ کے باوجود پاکستان نے اپنا ووٹ ترکی کے حق میں دیا اور امارات سے اپنا تعلق کمزور کرلیا۔ اس کے بعد دوہزار پندرہ میں جب عربوں کو یمن کے مسئلے میں پاکستانی مدد کی ضرورت پڑی تو ہمارے ''غیرجانبدارانہ‘‘ رویے نے انہیں مزید برگشتہ کردیا۔ اُن دنوں ہم چونکہ سی پیک کے ذریعے آنے والی خوشحالی سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے اس لیے چند ماہ بعد ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نواز شریف نے ایران کے صدر کو دورۂ پاکستان کی دعوت دے ڈالی۔ یادرہے کہ اس ملاقات سے پہلے ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار وزیراعظم کے پاس آئے اور ان سے ایرانی صدر سے ملاقات منسوخ کرنے کے لیے کہا۔ اس فرمائش پر نواز شریف کا چہرہ سرخ ہوگیااور انہوں نے شکریہ کہہ کر ملاقات ختم کردی اور ایرانی صدر سے ملاقات کے لیے چل پڑے۔نواز شریف کا یہ انداز ہمارے عرب دوستوں کے لیے کتنا ناپسندیدہ تھا اور پھر کیا ہوا‘ اس کو سمجھنے کے لیے بہت تھوڑی سی عقل سے بھی کام چل جائے گا‘ ویسے پاناما کیس میں بننے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں بھی کئی اشارے موجود ہیں ۔
ہمارے موجودہ وزیراعظم اگر کچھ سیکھ سکتے تو دوہزار سولہ میں پاکستان میں تلور کے شکار کے خلاف اپنی چلائی ہوئی مہم سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ اس وقت انہوں نے ٹوئٹر پر ارشار فرمایا کہ ''تلور کا شکار غیر قانونی ہے اور میں خیبرپختونخوا کی حکومت سے کہوں گا کہ وہ کسی کو بھی اس کے شکار کی اجازت نہ دے‘‘۔ سب جانتے ہیں کہ تلورکا شکار عربوں کا مشغلہ ہے اور ان کے اس مشغلے سے پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ جب خان صاحب وزیراعظم بنے تو ماضی کے ان گنت بیانات کی طرح انہیں اپنا یہ فرمان بھی واپس لینا پڑا۔ ان کی اپنی حکومت نے نہایت فرمانبرداری سے تلور کے شکار کے اجازت نامے جاری کیے اور عرب دوستوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کیا۔پریشانی یہ ہے کہ ان کے ذہن میں کوالالمپور سربراہی کانفرنس بھی تلور جیسا معاملہ ہے‘ جس پر یوٹرن بھی لے لیا تو کچھ نہیں ہوگا۔
کوالالمپورسربراہی کانفرنس میں شرکت کے اعلان کے بعد شرکت نہ کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ پاکستان نے گزشتہ دس برسوں میں خارجہ پالیسی میں جو توازن بڑی مشکل سے پیدا کیا تھا‘ وزیراعظم عمران خان کی وجہ سے وہ ایک بار پھر بگڑ گیا ہے۔ یہ صورتحال اتفاقی طور پر نہیں پیدا ہوئی‘ بلکہ اس میں سراسر حکومت کی کم فہمی اور نالائقی کا دخل ہے۔اگر وزیراعظم کے اردگردعالمی سیاست کو سمجھنے والے افراد ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حالت یہ ہے کہ اتنے نازک معاملے میں بھی مشورے کے لیے ان کا بھروسہ دو ایسے لوگوں پر رہا جنہیں خارجہ امور کی ''خ ‘‘کا بھی علم نہیں۔ حد یہ ہے کہ ان میں سے ایک تو وہ نوجوان ہے ‘جس کے بارے میں خود ہمارے دوستوں کی درخواست ہے کہ کم ازکم اُن کے معاملات سے اسے دور رکھا جائے۔دوسرا وہ سرکاری افسر ہے جو ایک سمری بھی ڈھنگ سے تیار نہیں کرسکتا ‘لیکن خود کو وزیراعظم کے دفتر کا مالک و مختار سمجھتا ہے۔ اگر وزیراعظم کی مشاورت کا معیار یہی رہنا ہے تو یقین مانیے ہماری جگ ہنسائی کا یہ واقعہ آخری نہیں۔