دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو بنے ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں نے نئی حکومت کے طرز عمل کے بارے میں پوچھا تو یکلخت انہوں نے بیوروکریسی کا عمامہ سر پر رکھا اور بات گھما دی۔ میں نے بھی اصرار نہیں کیا لیکن تھوڑی دیر بعد مختلف الفاظ میں اپنا سوال دہرا دیا۔ انہوں نے پھر طرح دی‘ اور چند باتوں کے بعد میں نے پھر پوچھ لیا تو طنزیہ انداز میں کہا، ''میں تو تمہیں تجزیہ کار سمجھنے لگا ہوں لیکن تم رپورٹر کے رپورٹر ہی رہے‘‘۔ میں نے بات ٹالی اور اپنے سوال پر اٹکا رہا۔ آخر تنگ آکر بولے، ''تحریک انصاف کے لوگ اتنے کم فہم ہیں‘ جس کا تصور بھی محال ہے۔ ان لوگوں نے خود کو درست نہ کیا تو جلد ہی گھر بھیج دیے جائیں گے‘‘۔ ان صاحب نے جو کہا وہ چند ہی دنوں میں ثابت ہونے لگا۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے لڑکوں بالوں نے وہ ابتری مچائی کہ خدا کی پناہ۔ خود ان صاحب نے وقت سے پہلے اس لیے ریٹائرمنٹ لے لی کہ سرکاری نوکری کے عروج پر ان سے چہار سُو پھیلتی ہوئی نالائقی برداشت نہیں ہوئی۔ چند مہینے ہی گزرے تھے کہ تحریک انصاف کے متبادل پر غوروفکر شروع ہوگیا۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ وقت کا تعین بھی ہوگیا اور تبدیلی کا طریق کار بھی۔ اس منصوبے پر عمل ہوتا تو شاید اگلے مہینے تک نئے پاکستان کی کہانی پرانی ہو چکی ہوتی۔ ہم جیسے لوگ لکھتے رہے، بتاتے رہے کہ اپنی کارکردگی بہتر بناؤ ورنہ معاملات بگڑ رہے ہیں مگر حکومت حکومت ہوتی ہے۔ سچ، حقیقت اور عوام سے اس کا تعلق واجبی سا ہی رہ جاتا ہے‘ لہٰذا اس کی دشنام طِرازی کا ہدف وہی لوگ رہے جو انہیں سمجھا رہے تھے کہ سنبھل جاؤ۔ عوامل جو بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو طے ہو چکا تھا، نہیں ہوا اور تحریک انصاف کی حکومت منہ کے بل گرتے گرتے بچ گئی۔ وہ طوفان جس میں پہلے پنجاب اور پھر وفاق کی حکومت نے غرق ہونا تھا، کچھ عرصے کے لیے ہی سہی تھم گیا ہے؛ البتہ اس طوفان کے تھپیڑے کھا کر عمران خان صاحب نے اپنے جہاز کا راستہ درست کرنے کی کوشش شروع کردی ہے اور اب ان کی حکومت کچھ کرتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔ اگرچہ اب بھی حکومتی ٹیم کی صلاحیت پرکسی کو اعتماد نہیں لیکن اپنے کپتان کی سرکردگی میں کم ازکم ٹامک ٹوئیاں تو مارتی نظر آنے لگی ہے۔
تحریک انصاف نے خاص و عام کو جو کچھ بتا کر ووٹ لیے‘ اس کے پانچ بنیادی نکات بیوروکریسی اور پولیس میں اصلاحات، مضبوط بلدیاتی ادارے، ملک میں صنعتوں کا قیام، زرعی ترقی اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ تھے۔ ان پانچ پالیسی نکات کی سیاسی شکل ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور اصلاحات کا نعرہ تھا‘ جبکہ احتساب کا شور ایک سیاسی حربہ تھا جس کے ذریعے مخالفین کو دفاعی پوزیشن میں رکھ کر عمران خان نے الیکشن جیت لیا۔ جب حکومت بن چکی تو احتساب کا سیاسی حربہ نجانے کیسے ایجنڈے میں سرفہرست آ گیا اور حکومت اپنے ہی لگائے ہوئے نعروں کی قیدی بن کر اتنی آگے چلی گئی کہ پھر اسے خود احتساب کے قانون میں ترمیم کرکے اس سے جان چھڑانا پڑی۔ اب چونکہ حکومت کو لاحق احتساب کے مرض میں بڑی حد تک افاقہ ہو چکا ہے اس لیے اس نے چھوٹا سا قدم وفاقی بیوروکریسی میں معمولی اصلاحات کرکے اٹھا لیا ہے۔ اس قدم سے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ تحریک انصاف کو آخرکار اپنا ایجنڈا یاد آرہا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ کم از کم دو ماہ سے وزیر اعظم کے دفتر سے جو خبریں آرہی ہیں، ان سے بھی یہی پتا چل رہا ہے کہ وہ ہاتھ میں چابک پکڑے اپنے لاچار گھوڑوں کو دوڑانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثال آٹے کا بحران ہے۔ جیسے ہی میڈیا پر آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی خبر آئی وزیراعظم نے چابک لہرانا شروع کردیا اور دو دن کے اندر اندر حالات معمول پر آگئے۔ اسی طرح سبزیوں کی طرف تھوڑی سی توجہ کی تو ان کی قیمتیں بھی کم ہونے لگیں۔ روزمرّہ کے یہ معاملات نمٹانے سے حکومت کے تاثر میں ہلکی سی بہتری آئی ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا عمران خان صاحب اس ایجنڈے کو پورا کرپائیں گے جو وہ لے کر اقتدار میں آئے تھے؟
ایک کروڑ نوکریوں کو ہی لے لیجیے۔ حکومت کے پانچ سالوں میں سے ڈیڑھ برس کچھ کیے بغیرگزر گیا ہے اور اس عرصے میں بھی نوکریاں کم ہوئی ہیں بڑھی نہیں۔ اب باقی کے ساڑھے تین برس میں اگر یہ حکومت چھوٹے قرضوں کا پروگرام جارحانہ انداز میں چلاتی ہے تو ایک کروڑ نہ سہی تیس چالیس لاکھ نوکریاں ضرور پیدا کی جا سکتی ہیں۔ عثمان ڈار کی سربراہی میں 'کامیاب نوجوان‘ کے نام سے قرضوں کا پروگرام اگرچہ جاری ہے لیکن ابھی تک یہ نمائشی حیثیت سے باہر نہیں نکل پایا۔ اس کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے، اس کا حکومت کے اکثر لوگوں کو علم ہی نہیں۔ پورے تام جھام سے جاری کرنے کے باوجود اس پروگرام کے تحت قرضوں کے اجرا کی رفتار نہایت مایوس کن ہے۔ جب تک اس کے طریقہ کار میں چند بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی، اس کا کوئی فائدہ ہو گا نہ اثر۔
پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ بھی دراصل کاروبار سے جڑا ہے۔ ان گھروں کی تعمیر تو دور کی بات حکومت کو ڈیڑھ سال بعد یہ بھی نہیں پتا کہ یہ کرنا کیسے ہے۔ اشتہارات کے ذریعے ملک کے دوردراز علاقوں میں مکانات کی تعمیر کا اعلان کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ کام شروع ہوگیا۔ اگر واقعی یہ کام کرنا ہے تو پھر اس کے لیے بڑے شہروں کی ان آبادیوں پر توجہ کرنا ہوگی جو کچی بستیوں سے ہوتی ہوئی گھروں کے بے ترتیب جنگل میں بدل گئی ہیں‘ مثلاً لاہور کے قلعہ گجر سنگھ یا کراچی کے لائنز ایریا کو لے لیں۔ یہ علاقے شہروں کے بیچوں بیچ ہیں لیکن یہاں رہنے والوں کو شہری سہولیات کی مکمل فراہمی ہی ممکن نہیں۔ اگر حکومت واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے تو ان علاقوں میں بڑی بڑی عمارتیں بنا کر یہاں کے مکینوں کو ان میں فلیٹ دے کر شہروں میں ہی اتنی جگہ نکال سکتی ہے جہاں نجی شعبہ سرمایہ کاری کرکے تیزی سے گھروں کی تعمیر کا کام کرسکتا ہے۔ دوردراز کے علاقوں کی ترقی کی خواہش خوب ہے لیکن اس کے لیے پہلے بڑے شہروں میں ہی ماڈل بنانا پڑیں گے۔
بیوروکریسی میں اصلاحات دراصل ایسا عنوان ہے جس کی ذیل میں بلدیاتی اداروں کی تشکیل آتی ہے۔ ایک کے بغیر دوسرا بے معنی اور کسی حد تک نقصان دہ ہے۔ اس معاملے میں حکومت اتنے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے کہ پھونکیں ہی پھونکیں رہ گئی ہیں‘ قدم نہیں اٹھ رہے۔ اس کی وجہ یہ خوف ہے کہ جیسے احتساب کے معاملے پر بیوروکریسی نے کام چھوڑ دیا تھا کہیں اصلاحات کا نتیجہ بھی یہی نہ نکلے۔ یہ خوف اس لیے بلا جواز ہے کہ خود بیوروکریسی کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ اگر آج اصلاحات نہ ہوئیں تو آنے والے کل میں اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑی بہت جو اصلاحات حالیہ دنوں میں ہوئی ہیں ان میں سے اکثر اعلیٰ افسران کی اپنی تجویز کردہ ہیں۔ اصل تبدیلی کے لیے صوبوں تک ان اصلاحات کا آنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ بلدیاتی نظام کا بھی۔ مصیبت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس میں نالائقی کا جو بے مثال مظاہرہ اس حکومت نے کیا ہے، اس کا سوچ کر اب اسے خود ہی بلدیاتی الیکشن سے خوف آنے لگا ہے۔ اس خوف سے نکلے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ عمران خان صاحب کی سیاسی طاقت اب بھی اتنی ضرور ہے کہ بلدیاتی الیکشن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
چند دن پہلے تک تحریک انصاف سے بہتری کی امید باندھنا دو وجہ سے ناممکن تھا۔ ایک وجہ تو اس حکومت کا لڑکپن تھا اور دوسرے اسے درپیش سیاسی خطرات۔ اب خبر یہ ہے کہ سیاسی خطرات تو کچھ عرصے کے لیے ٹل گئے ہیں اور پچھلے دوہفتوں کے اقدامات دیکھ کر یہ بھی لگ رہا ہے کہ کچھ سنجیدگی آچلی ہے۔ تاریخِ پاکستان کی تکرار سے بچ نکلنے کا موقع کم کم ہی کسی کو ملا ہے۔ عمران خان کو ملا ہے تو اب انہیں وہ کرکے دکھانا ہے جو بتا کر اقتدار میں آئے تھے۔ وہ عدالتوں میں الجھے رہے یا حریفوں سے لڑتے رہے تو موقع ضائع ہوجائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔