'' میں تمہیں گولی مار دوں گا‘ واپس اپنے مورچے کی طرف چلو‘‘‘ مشرقی پاکستان کے علاقے کاک ڈانگا میں ایک نوجوان کپتان اپنے سے سینئر کپتان کی طرف بندوق تان کر کھڑا تھا۔ سینئر کپتان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے مورچہ چھوڑنے کے راستے میں یوں کوئی آجائے گا۔ اس نے جونیئر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مورچہ چھوڑنا اس لیے ضروری تھا کہ دشمن زیادہ تعدادمیں ہے اور چند سپاہیوں کے ساتھ زیادہ دیر مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔ جونیئر کپتان کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مورچہ چھوڑ دینے کی کوئی دلیل اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اسے سرحد پر صرف مقابلہ کرنے کا پتا تھا۔ بندوق کے زور پر وہ اپنے سینئر کپتان اور سپاہیوں کو ہانک کر واپس مورچے پر لے ہی آیا۔ جم کر لڑائی کی اور مورچہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ سینئر کپتان کی پیٹی اتروا کر اس کے بارے میں اعلیٰ افسران کو رپورٹ کردی۔ جونیئر کپتان کے خیر خواہوں نے اسے زندگی کی اونچ نیچ بتائی‘ سینئر کے با اثر باپ کے بارے میں بتایا‘ لیکن وہ تو پاگل تھا‘دنیا کا حساب کتاب اس کی سمجھ میں کب آتا تھا۔ اس کے لیے بھاگ جانے کا تصور ہی کراہت انگیز تھا۔ وہ یہاں بھی ڈٹا رہا۔ یہاں سے کہانی اور زندگی مختلف موڑ لیتی ہوئی انجام کو پہنچی تو معلوم ہوا کہ ''سینئر کپتان‘‘ تو بیوروکریسی میں آکر اعلیٰ عہدے پر پہنچ گیا اور ڈٹ جانے والا پاکستان کی گلیوں ‘ کھیتوں اور جیلوں میں وقت گزارتا رہا۔
افسر الدین مشرقی پاکستان کے شیام نگر میں حکومت پاکستان کا چپراسی تھا۔ 14اگست 1947ء کو اسی نے سرکاری طور پر شیام نگر میں پاکستان کا جھنڈا بلند کیا تھا۔ اس وقت سے اس کے فرائض میں شامل تھا کہ ہر صبح جھنڈا لہراتا اور شام کو اتار لیتا۔ عام سا چپراسی ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ سفید کپڑے پہن کر پریڈ کے سے انداز میں چلتا ہوااس پول کی طرف جاتا جہاں جھنڈا لہرایا جاتا تھا۔ 1971ئمیں فضا بدلی تو اس ضلعے پر باغیوں نے بھارت کی مدد سے قبضہ کرلیا۔ قبضے کے بعد ایک تقریب کا اعلان ہوا جہاں باقاعدہ طور پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا جانا تھا۔ فاتحین نے ایک نئے ملک کے جھنڈے کی رونمائی کے لیے افسرالدین کو ہی چنا تاکہ حالات کے ہمیشہ کے لیے بدل جانے کا پیغام دیا جاسکے۔ وقت مقررہ پرپنڈال شہر کے لوگوں سے بھر گیا۔ اب پاکستان کا جھنڈا اتارا جانا تھا۔ اپنی روایت کے مطاق افسر الدین سفید لباس پہن کر پریڈ کرتا ہوا جھنڈے تک پہنچا اور پول کے ساتھ لپٹ کر دھاڑ یں مار مار کر روتے ہوئے بولا‘ 'یہ جھنڈا نہیں اترے گا‘۔ حالات بدل چکے تھے لیکن افسرالدین نہیں بدلا تھا۔ سارا پنڈال دم بخود تھا۔ مکتی باہنی کے کمانڈر کے حکم پر اسے زبردستی پول سے الگ کرکے سٹیج پر ہی کھڑا کردیا گیا۔ آواز آئی 'فائر‘ ۔ افسرالدین نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند گیا اور اپنے رب کے حضور سرخرو ہوگیا۔ لشکر کا کپتان یہ سب جاننے کے باوجود ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے شیام نگر پر دوبارہ قبضے کے لیے جو کچھ کیا اس کی داستان بہادروں کے تو دل گرما دے‘ میرے جیسے بزدلوں کے لیے اسے سننا یا پڑھنا بھی دشوار ہے۔
یہ کپتان سقوط ڈھاکہ سے پہلے ہی لاہور بلا لیا گیا تھا۔یہ فوج میں رہتا تو بہت آگے تک جاتا‘ لیکن ہوا یہ کہ ضیا الحق کا مارشل لاء آگیا۔ اب کپتان سے میجر ہوجانے والے اس افسر کے دل میں اپنا وہ حلف کلبلانے لگا جو اس نے ملٹری اکیڈمی پاسنگ آؤٹ پریڈ پراٹھایا تھا۔ اس حلف کا پاس رکھنے کا اس نے انوکھا طریقہ اختیار کیا۔بھٹو کی پھانسی کے بعد اس نے اپنے جیسے دیوانے اکٹھے کیے اور ضیا الحق کے خلاف بغاوت کا پروگرام بنانا شروع کردیا۔ اگر یہ کامیاب ہوجاتا تو نجانے کیا ہوتا‘ لیکن یہ ناکام رہا‘ بلکہ اڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہوکر اٹک قلعے میں قید کردیا گیا۔ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کراچی میں قید تھیں۔ اس نے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی بجائے اپنے حلف کی عبارت پڑھ کر فوجی عدالت کو سنائی اور بغاوت کی کوشش کو عین قانون کے مطابق قرار دے کر ضیا الحق کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرڈالا کہ ۔ اس نے تفتیش کے دوران بھی اپنے مقصد کو سامنے رکھا اور اس انداز سے اپنی کچی پکی سازش کو بیان کیا کہ ضیاالحق کو بے نظیر بھٹو سے جان چھڑانے کے لیے انہیں باہر بھیجنا پڑا۔ یہی وہ موقع تھا جب بے نظیر بھٹو نے اسے اپنا تیسرا بھائی قرار دیا۔
بہن وزیراعظم بنی تو اس 'بھائی‘ کو رہائی نصیب ہوئی۔ اس نے جیل سے باہر آکر دیکھا تو دنیا بدل چکی تھی۔ پیپلزپارٹی کے وہ کارکن جو کوڑے کھا کراور پھانسی کے تختے پر کھڑے ہوکر' بھٹو بھٹو‘ پکارتے تھے‘ نظر انداز کر دیے گئے تھے اور پیراشوٹ کے ذریعے پارٹی میں اترے ہوئے حکمرانی کررہے تھے ۔ ان حالات میں کسی کو تو کھڑے ہونا تھا۔ اب اس کے سامنے کارکنوں کے حقوق تھے۔ اپنے لیے حکومت کے بے شمار مواقع گنوا کر کارکنوں کی بات شروع کی تو نواز شریف کا پیغام آگیا۔ پیغام یہ تھا کہ جو مانگو گے ملے گا‘ بس ہمارے ساتھ مل جاؤ۔ اب اگر کوئی یہ پیشکش بھی قبول نہ کرے تو اس کے پاگل پن میں کوئی شک؟ مگراس نے گھر کی لڑائی گھر کے اندر رہ کر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب پارٹی کے بازو مروڑ کر اس نے کارکنوں کی تھوڑی بہت مدد کروا لی تو اس کے لیے پارٹی کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ محترمہ دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو مرتضیٰ بھٹو وطن واپس آگئے اور اس پاگل کو دوبارہ میدان میں آنے کو کہا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوالاڑکانہ کی تاریخ ہے۔ اس کا انجام یہ تھا کہ اسے اس کی منہ بولی بہن کے دورِ اقتدار میں نجانے کتنی دفعات کے تحت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیل چلے جانا تھا۔
حکومت کسی کی بھی ہو ہمیشہ نہیں رہتی۔ یہی ہوا ۔ بے نظیر رخصت ہوئیں تو جیل کے دروازے بھی کھل گئے۔ پاگل کے لیے زندگی بدل چکی تھی۔ کمر خمیدہ ہورہی تھی‘ بچے بڑے ہورہے تھے‘ ذمہ داریاں بڑھ رہی تھیں اور ہاتھ خالی ۔اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے زندگی گزر رہی تھی کہ وہ شہباز شریف سے آ ٹکرایا۔ بڑے لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ ان کے گرد منفرد قسم کے کردار موجود ہوں۔ شاید اسی شوق کے تحت انہوں نے اس کو اپنے شکایات سیل میں بٹھا دیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک پاگل کو ایسی جگہ بٹھانے سے کیا ہوتا ہے۔ اس نے پوری ایمانداری سے آنے والی ہر شکایت کو تحقیق کے بعد نمٹانے کی کوشش شروع کی تو پنجاب کے دفتروں میں ہا ہا کار مچ گئی۔ پاگلوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بڑھیا کی جائیداد پر قبضے‘ کسی بے گنا ہ کے خلاف مقدمے‘ پولیس کی زیادتی یا پٹوار کے ظلم جیسی چھوٹی چھوٹی باتیں انہیں بہت تنگ کرتی ہیں۔ انہیں نوکری کے تقاضے پورے کرنے آتے ہیں نہ وہ دفتری مصلحتوں کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ان کی ایمانداری بے وقوفی کی حدوں کو چھوتی ہے۔ شکایات سیل میں بھی یہی ہوا۔ اسے فوری طور پر نکالا تو نہیں گیا لیکن بے وقعت کردیا گیا۔ اس پر بھی یہ نچلا نہیں بیٹھا ‘ کاغذ کالے کرکر کے اس نظام کے منہ پر مارتا رہا۔ اس طرح تو نہیں چلتا ناں۔ سو اسے یہاں سے بھی جانا پڑا۔ اب بیٹھا ہے لاہور کے نواح میں ایک چھوٹے سے کرائے کے فلیٹ میں۔ عقلمند ہوتا تو سیکرٹری ہوجاتا‘ ترقی کرتا‘ وزیر بنتا مگر پاگل تو پاگل ہی ہوتا ہے ناں۔ اب کتابیں لکھتا ہے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی۔ پہلے 'اٹک قلعے سے ‘ لکھی جسے پڑھ کر میں اپنی نوجوانی میں تھوڑا سا پاگل ہوا تھا‘ مگر جلد ہی سدھر گیا۔ اب اس نے اپنی آپ بیتی لکھ ماری ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے میں سابق میجر آفتاب احمد کی بات کررہا ہوں‘ جس نے 'ہار ن کھیڈ فقیرا‘ کے عنوان سے اپنی خود نوشت لکھ ماری ہے۔ خود نوشت کیا ہے‘ پاگل پن کی داستان ہے۔ کوئی پڑھ لے تو رو پڑتا ہے کہ اپنے زوال کی سمجھ آجاتی ہے‘نہ پڑھے تو خوش رہتا ہے کہ جہالت بھی تو ایک نعمت ہے۔
میجر آفتاب پاگل ہے‘ پورا پاگل۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے روز حشر اگر ملکوں اور قوموں کا حساب ہوا تو پاکستانی قوم آنسو بہا تے ہوئے اتنا ہی کہے گی‘اے دو جہانوں کے رب‘ ہم بہت برے تھے‘ مگر یہ پاگل سابق میجر آفتاب بھی توہم میں سے تھا۔ اس پاگل کے صدقے ہمیں معاف کردے‘‘۔