چار برس ہوتے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم تھے اور انہیں گلگت بلتستان کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت کے لیے گلگت جانا تھا۔ اس وقت ڈان لیکس کے شور میں پاناما کا غل بھی شامل ہوچکا تھا۔ سیاسی اعتبار سے ان کی مشکلات کا آغاز ہو رہا تھا‘ لیکن وہ پُراعتماد نظر آنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ شاید اسی لیے انہوں نے بشمول میرے چند صحافیوں کو اپنے ساتھ سفر کی دعوت دی۔ متعین وقت پر راولپنڈی کے نورخان بیس پر پہنچے تو پتا چلا کہ ہم سب وزیراعظم کے ساتھ پی آئی اے کے ایک چھوٹے طیارے میں جائیں گے۔ جہاز پر سوار ہوتے ہوئے میں نے ایک صحافی دوست سے کہا ''ہم اس وقت پاکستان میں دستیاب محفوظ ترین پرواز کے مسافر ہیں‘‘، میری بات سن کر سب مسکرادیے اور سر ہلا کر تائید کی۔ جب ہم گلگت پہنچے تو بلندی سے وادی میں بنا ائیرپورٹ سورج کی روشنی میں نہایا ہوا دکھائی دیا۔ باہر کے موسم کا جہاز کے اندر سے اندازہ تو نہیں ہو رہا تھا لیکن ہموار پرواز بتا رہی تھی کہ گلگت کا موسم ہوا بازی کیلئے موزوں ہے۔ یہ خیال بھی تھا کہ جب ملک کا وزیراعظم یہاں اترنے والا ہے تو یقیناً موسم کا ٹھیک ٹھیک حال بھی معلوم کر لیا گیا ہوگا۔ فضا میں تو جہاز کی رفتار کا اندازہ نہیں ہوتا۔ جہاز آہستہ آہستہ نیچے آیا۔ میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا سیاہ رن وے کو قریب آتے دیکھ رہا تھا۔ لگ رہا تھا‘ جہاز بادل کی طرح زمین کو چھوئے گا‘ مگر وہ ایک ہتھوڑے کی طرح زمین پر پڑا‘ پھر ایک بھونچال آگیا۔ جہاز پہلے دائیں جھکا، پھر لہرا کر بائیں طرف کو جھک گیا۔ ہم اندر بیٹھے مسافروں کو ایک لحظے کے لیے لگا‘ حادثہ ہونے والا ہے۔ ایک دو یا تین سیکنڈ کیلئے برپا ہونے والے اس واقعے نے جہاز میں بیٹھے ہر شخص کو پریشان کردیا تھا۔ صرف نواز شریف پرسکون انداز میں بیٹھے رہے۔ ان کے چہرے پر کسی قسم کا خوف نظر نہیں آیا۔ جیسے ہی جہاز دوبارہ نارمل انداز میں چلنے لگا‘ وزیراعظم کا اے ڈی سی‘ جو پاک فضائیہ کا افسر تھا، بجلی کی سی تیزی سے کاک پٹ کی طرف گیا۔ جہاز ابھی رکا بھی نہیں تھا کہ وہ برہم چہرے کے ساتھ واپس آگیا۔ میں واقعے کی تفصیلات جاننے کے لیے بے چین تھا، اس لیے جیسے ہی میری نشست کے پاس سے گزرا تو میں نے اسے روک لیا۔ اس نے بتایا کہ لینڈنگ کے لیے جہاز کی رفتار اور بلندی کا تناسب درست نہیں تھا۔ جب جہاز زمین پر اترا تو اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اسے روکنے کیلئے پہیوں میں لگے بریک کی شدت بڑھانی پڑی اس لیے جہاز ڈگمگا گیا۔ میں نے پوچھا: جس پائلٹ کو جہاز اتارنے کے لوازمات کا اندازہ نہیں‘ اس نالائق کو وزیراعظم کے جہاز پر کون لے آیا؟ اس کا جواب دینے کی بجائے اے ڈی سی بولا ''مجھے باس (ملٹری سیکرٹری) کو رپورٹ کرنی ہے‘‘۔ وہ چلا گیا۔ ہم گلگت سے واپس آئے اور پھر یہ واقعہ بھی یادداشت کے صحافیانہ ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد کئی باردنیا کی مختلف ائیرلائنز پر سفر کیا، ہمیشہ یہی دیکھا کہ اچھی ائیرلائنز میں جہاز فضا سے زمین پر یوں آتا ہے کہ فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔ قومی ائیرلائن میں جب بھی سفر کیا یہی لگا‘ لینڈنگ کے وقت جہاز رن وے سے باقاعدہ ٹکراتا ہے اور پھر اس کو روکنے کیلئے نجانے کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں۔
اعجاز ہارون پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کے سربراہ رہے ہیں اور پائلٹ بھی۔ جس دن کراچی میں پی آئی اے کا طیارہ گرا‘ ان سے اس تباہی کی وجوہ پوچھیں۔ انہوں نے بہت سی تکنیکی نوعیت کی غلطیوں کی نشاندھی کرتے ہوئے بتایا: بنیادی غلطی پائلٹ کی یہ تھی کہ جب اس نے ایئرپورٹ پر اترنے کی تیاری کی توجہاز کی رفتار اوربلندی میں تناسب نہیں تھا۔ اس لیے جہاز ایک باراترنے کی کوشش میں رن وے سے اپنے انجن ٹکرا چکا تھا۔ جب پائلٹ کو یقین ہوگیا کہ وہ اس رفتار سے چلتے جہاز کو روک نہیں پائے گا تو اس نے دوبارہ فضا میں بلند ہونے کا فیصلہ کرلیا‘ چونکہ اس کے انجن زمین سے ٹکراکر خراب ہو چکے تھے اس لیے اسے فضا میں دوبارہ بلندی حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ طاقت نہیں مل سکی اور یہ المناک حادثہ ہو گیا۔ میں نے اپنا تجربہ بتایا تو انہوں نے کہا ''آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بلوچستان کے مستونگ ائیرپورٹ پر بھی ایسا ہو چکا ہے۔ اس وقت بھی جہاز اتنی رفتار سے اترا کہ رن وے پرروکا ہی نہ جاسکا اور ریت میں جا پھنسا‘‘ انہوں نے کچھ مزید واقعات بھی بتائے جن میں پی آئی اے کے پائلٹ اسی مہلک انداز میں جہاز اتارتے ہیں اور بریک کے غیرمعمولی استعمال سے رفتار کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے پائلٹس کی تربیت کے بارے میں پوچھا تو کہا، ''تربیت میں عدم دلچسپی اور مسلسل سیاست کی وجہ سے ہمارے پائلٹس کی پیشہ ورانہ صلاحیت ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے‘‘ ان کا خیال تھا کہ درست انداز میں تفتیش ہوگی تو آخر کاربات عملے کی ٹریننگ پر آئے گی۔
یہ زمانہ وہ نہیں رہاکہ مسافر جہازکے حادثے کی تحقیقات پر مہینے گزرجائیں اور ہزاروں صفحات کی ایک ناقابل مطالعہ رپورٹ جاری کر دی جائے۔ آج دنیا بھر کے تجربہ کار لوگ پلک جھپکتے حقائق کا تجزیہ کرکے اسباب متعین کرلیتے ہیں اور عوام کو بتا بھی دیتے ہیں۔ مملکت خداداد میں چونکہ ہمارے سربلند لوگ کسی بھی صورت عہدے سے چمٹے رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں لہٰذا یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس دلخراش حادثے کی تحقیقات جیسی معمولی چیز کیلئے کوئی اپنی کرسی چھوڑے گا لیکن ہر اونچی کرسی والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس حادثے کی رپورٹ میں کوئی رورعایت ہوئی تو عوام کی آنکھوں سے زیادہ دیرتک اوجھل نہیں رہے گی۔ پی آئی اے کی بحیثیت کمپنی تباہی تو دیوار پر لکھی حقیقت ہے، لیکن یہ گوارا نہیں کہ مسافروں کی جانیں ضائع ہونے لگیں۔ اس لیے حادثے کے اسباب کا تعین اور ذمہ داروں کی نشاندہی ہر پاکستانی کا حق ہے۔
اس حادثے نے سربلند لوگوں کی قابلیت سمیت ہماری ہوا بازی کے شعبے کی عمومی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ انتظامیہ کی لیاقت تو یکے بعد دیگرے حادثات میں کھل ہی رہی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عین حادثے کی شام قوم کو بتایا جا رہا تھا کہ ''پی آئی اے دنیا کی محفوظ ترین ایئر لائن ہے‘‘ اس دعوے کی دلیل غالباً نوے سے زائد لاشیں تھیں‘ جو پریس کانفرنس کے مقام سے چند کلومیٹر دور گرے ہوئے جہاز میں سے نکالی گئی تھیں۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ فرمان بھی جاری کردیا کہ ''طیارہ مکمل طور پر درست حالت میں تھا‘‘۔ گویا ادارے کے سربراہ کے حکم کے مطابق اب تفتیش کار طیارے کو اڑان کے قابل رکھنے والے تمام لوگوں کو کچھ پوچھے بغیر ہی کسی بھی قصور سے بری کر ڈالیں۔ اہم پس منظر کی وجہ سے آں جناب کی شہری ہوا بازی کی صلاحیت پر زیادہ سوال نہیں اٹھائے جا سکتے لیکن سوشل میڈیا پر ''کرنل کی بیوی‘‘کی ویڈیو اور اس پر رد عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کوئی پس منظر یا رشتہ کسی کو دیر تک جواب دہی سے بالاتر نہیں رکھ سکتا۔
پی آئی اے انتظامی طور پر شہری ہوا بازی کے وزیر کے ماتحت ہے یعنی پاکستان میں ائیرلائنز کو ضابطوں کا پابند رکھنے والا ادارہ اور پی آئی اے دونوں وفاقی وزیر برائے شہری ہوا بازی کے نیچے کام کرتے ہیں۔ اس بندوبست کے تحت یہ ادارے کچھ کر سکتے تو پی آئی اے یوں تباہی ہوتی نہ ہمارے ہوائی اڈے دنیا کے دوسرے ملکوں کے بس اڈوں سے بدتر ہوتے۔ اب اس حادثے کے حوالے سے صورت یہ ہے کہ اس وزارت کے ایک بازو نے جہاز گرایا ہے اور دوسرا بازو جہاز گرنے کی وجوہ کا سراغ لگائے گا۔ ایک ہی وزارت کے نیچے ان دونوں محکموں کا ہونا حکومت کی ضرورت کے تابع تو ہو سکتا ہے لیکن انصاف کے تقاضوں سے قطعی متصادم ہے۔ ایسی تفتیش ہو تو کیا، نہ ہو تو کیا۔ کسی کو یہ بتانے کا بھی کیا فائدہ کہ پی آئی اے کا جہاز نہیں گرا، پاکستان کی قومی ائیرلائن اور سول ایوی ایشن گرے ہیں، پچانوے انسان نہیں مرے‘ یہ نالائقی کے بھینٹ چڑھے ہیں۔ لیکن یہاں کوئی سنتا ہے بھلا!