"HAC" (space) message & send to 7575

کراچی کو کس نے برباد کیا؟

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (سابق مہاجر قومی موومنٹ ) یعنی ایم کیو ایم کی حکومت کا آغاز شہر کی بلدیہ سے ہوا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں الطاف حسین کی قیادت میں نوجوانوں کے ہاتھ جو شہر چڑھا تو اس کا انجام وہی ہوا جو لڑکوں بالوں کے ہاتھ لگنے والی چیزوں کا ہوتا ہے۔ فاروق ستار میئر بنے اور ان کی نگرانی میں اگر نہیں تو نظروں کے سامنے ہی بلدیہ کے ملازمین کی بھرتی کے لیے صرف ایک معیار طے ہوا اور وہ تھا ایم کیو ایم سے تعلق۔ شاید کچھ لوگ میرٹ پر بھی رکھے گئے ہوں لیکن بیشتر بھرتی ایسے ہی ہوئی۔ ایم کیو ایم سے تعلق اتنا کارگر تھا کہ تعلیم، متعلقہ شعبے میں تجربہ اور کام کرنے کی لگن جیسی خصوصیات بے معنی سی ہوکر رہ گئیں۔ تنظیم سے اگر تعلق مضبوط تھا تو سب کچھ ہو سکتا تھا۔ اس طریقے سے بھرتی ہونے والوں کے ذمے کام صرف یہ تھا کہ اپنی تنخواہ سرکاری خزانے سے وصول کریں لیکن صلاحیتیں ایم کیو ایم کے لیے وقف کردیں۔ اس سب کے باوجود ایسی اندھی نہیں مچی تھی کہ بلدیہ کچھ کرتی ہی نہیں تھی۔ پرانے ملازمین یا اکا دکا وہ لوگ جو کسی طرح میرٹ پر بھرتی ہوگئے تھے کام کرتے رہے۔ شہر میں جہاں بہت برا ہونے لگا تھا، وہاں اچھا بھی ہو رہا تھا۔ جیسے جیسے پرانے لوگ اٹھتے گئے، شہر میں گندگی کے پہاڑ کھڑے ہونے لگے اور وہ شہر جس کی سڑکیں بھی دھلا کرتی تھیں، آج غلاظت کا نمونہ بنا ہمارے سامنے ہے۔ 
محترمہ بے نظیر بھٹو 1986 میں جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئیں تو یہ سمجھ ہی نہ پائیں کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ انہیں شہر پر ایم کیو ایم کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ نئے سیاسی حقائق سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بنانے کے بجائے انہوں نے ایم کیو ایم کو غیرسنجیدہ قوت سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو ٹھوکر کھائی۔ انہوں نے مجبوراً ایم کیو ایم سے اتحاد بھی کیا مگر اس کا وجود انہیں برداشت نہ تھا۔ ان کے اس رویے نے پیپلزپارٹی کی جڑوں میں ایم کیو ایم کی نفرت بٹھا دی جو سندھ کے مخصوص حالات میں غیر سندھیوں سے نفرت میں بدل گئی۔ دلوں کے اندر گہرائی میں اتری اس نفرت و کدورت کے ساتھ یہ دونوں جماعتیں بظاہر اتحادی بھی رہیں اور کئی بار رہیں، لیکن ایک دوسرے کی تباہی کے لیے انہوں نے کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ کراچی کی بلدیہ میں کارکنوں کی بھرتی کا جو کام ایم کیو ایم نے شروع کیا تھا، سندھ اور وفاق کی حکومت ملتے ہی پیپلزپارٹی نے اسے آگے بڑھایا۔ کراچی میں اندرون سندھ سے لوگوں کو لاکر بغیر کسی میرٹ کے سرکاری نوکریاں دی گئیں، شہر پر اپنا تسلط قائم کرنے کے اس طریقے نے اتنا زور پکڑاکہ کوئی ادارہ نہ بچ سکا۔ جب یہ دونوں جماعتیں اتحاد بناکر حکومت میں ہوتیں تو اہم ترین مفاد جو ایک دوسرے کودیا جاتا وہ نوکریوں کاتھا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ آج کراچی سے لے کر کشمور تک کے صوبائی محکموں میں سرکاری ملازم صرف دو طرح کے ملیں گے، ایک پیپلزپارٹی کے کارکن اور دوسرے ایم کیو ایم کے کارکن۔ یہ لوگ کام کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں؛ البتہ سرکاری مال ٹھکانے لگانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور اس معاملے میں بھی اتنے پھسڈی ہیں کہ ذرا سی کرید کوئی کرے تو پکڑے جائیں چونکہ پکڑنے والے بھی ''سیاسی میرٹ‘‘ پر آئے ہیں، اس لیے ان بے چاروں کو بھی اپنا کام نہیں آتا۔ اس مشترکہ نااہلی کا غیرسرکاری حل یہ ہے کہ سندھ کی سرزمین پر آپ کو چور اور سپاہی ایک ساتھ کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ اتنے شیرو شکر ہیں کہ دیکھنے والے اکثر اوقات چور کو سپاہی یا سپاہی کو چور سمجھ لیتے ہیں۔ 
کراچی میں ایک اہم ادارہ واٹراینڈ سیوریج بورڈ ہے۔ شہر میں پانی کی فراہمی اور نکاسی اسی کی ذمے داری ہے۔ اس ادارے کا عالم یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہو جو میرٹ پر بھرتی ہوا ہو۔ ایم کیو ایم کا دائو چلا تو اس نے ہزاروں بھرتی کیے۔ آج کل پیپلزپارٹی ہے تو اپنے لوگوں کو دھڑادھڑ رکھا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ 2008 میں آغا سراج درانی (موجودہ سپیکر سندھ اسمبلی) وزیر بلدیات بنے تو انہوں نے باقاعدہ حکم جاری کیا کہ ان چھ ہزار لوگوں کونکال دیا جائے جنہیں نگران حکومت نے بھرتی کیا تھا۔ یہ چھ ہزار وہ تھے جنہیں ایک ہلے میں ایم کیو ایم نے بھرتی کرایا تھا۔ اس وقت ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی اتحادی تھے‘ اس لیے لین دین ہوا اور چند گھنٹے بعد یہ حکم واپس ہوگیا۔ واٹر ہائیڈرینٹ کھولنے یا بند کرنے میں، پانی کی فراہمی کے منصوبوں اور نکاسی کے لیے ہونے والے کاموں میں سیاسی بھرتیاں کیا فائدہ دیتی ہوں گی، یہ سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگوں کے ہوتے، شہر ڈوبے گا نہیں تواور کیا ہوگا؟
کراچی کے اندھیروں میں اترنے کی کہانی بھی یہی ہے۔ کراچی الیکٹرک نجی شعبے میں جانے سے پہلے سرکاری کمپنی ہوا کرتی تھی۔ 1990 کی دہائی میں بھی یہ کمپنی فائدے میں چلا کرتی تھی۔ پھر اس کمپنی میں جو ہوا سب نے دیکھا۔ ایم کیو ایم نے اپنی طاقت استعمال کرکے اس میں بندے بھرتی کرائے اور اتنے کہ یہ کمپنی اس کی ذیلی تنظیم بن کر رہ گئی۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے بجلی چوری کرانے کی حد تک تو اتفاق رائے پیدا کرلیا لیکن دیگر معاملات میں لڑائی اتنی بڑھی کہ کئی لوگ مارے گئے جن میں سے کے الیکٹرک کے ایک منیجنگ ڈائریکٹر بھی تھے۔ اس کمپنی کے لوگ سیاست اور جرائم میں اتنے دھنس چکے تھے کہ اسے ان کے نرغے سے نکالنے کیلئے فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کراچی میں دیکھا کہ سابق کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی گاڑیاں ایم کیو ایم کے جلسوں میں حاضری پوری کرنے کیلئے استعمال ہواکرتی تھیں۔ کراچی پریس کلب کے اردگرد جھنڈے اور بینر لگانے کیلئے بھی اس کمپنی کی وہ گاڑیاں بروئے کار آیا کرتی تھیں جن پر سیڑھی لگی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی سب خاموش رہتے جیسے آج کل بھی سب کچھ دیکھ کر خاموش ہی رہنا پڑتا ہے۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شہر میں کبھی صاف ستھری سیاست نہیں ہوئی بلکہ ان دونوں کے درمیان قبضے کی جنگ ہے جس میں کسی قاعدے قانون کا دھیان نہیں رکھا جاتا۔ یہ جنگ اتنی پھیل چکی ہے کہ دوہزار آٹھ سے تیرہ تک کے اپنے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی نے شہر میں اس تناسب کو بدلنے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا۔ کبھی دوہزار دس کے سیلاب کی آڑ میں اندرون سندھ سے لوگ لاکر شہر میں بسائے تو کبھی جعلی ڈومیسائل دے کر شہر میں نوکریوں پر لگا دیا۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ایم کیو ایم شہرکی آبادی کم دکھائے جانے کا شکوہ کرتی ہے مگر اس کی تہہ میں چھپا مطالبہ یہ ہے کہ شہر کے مخصوص علاقوںمیں آبادی کا تناسب وہ دکھایا جائے جو وہ چاہتی ہے۔ حقیقت اس پورے معاملے میں بس اتنی ہے کہ دونوں جماعتیں شہر کو ٹھگنے کا حق بس اپنے لیے محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ 
کراچی کی سیاست صوبائی حکومت، بلدیہ اور وفاق کے گرد گھومتی ہے۔ شہر میں کچھ بھی کرنے کے لیے ان تینوں یعنی پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا ساتھ بیٹھنا لازمی ہے۔ کراچی نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی لڑائی سے نکلنے کیلئے عمران خان سے امید لگائی لیکن انجام یہ کہ ایسے لوگ ان کے سروں پر سوار ہوگئے جنہیں ائیرپورٹ سے لے کراپنے گھر تک کا راستہ بھی معلوم نہیں۔ اس پر قیامت یہ کہ عمران خان صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے تحریک انصاف سے تو کوئی امید باقی نہیں۔ ہاں، اگر کوئی کچھ کرسکتا ہے تو وہ بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کو سندھی عصبیت سے نکالنا ہوگا۔ وہ یہ کرپائیں تو کراچی بھی ان کا ہو جائے گا اور شاید پاکستان بھی۔ ورنہ ڈوبتا ہوا کراچی سب کو لے ڈوبے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں