"HAC" (space) message & send to 7575

مرثیہ

سال بھر پہلے کی بات ہے کہ جنرل ضیاالحق کے 'مرشد‘ جنرل فیض علی چشتی لاہور تشریف لائے تو سابق میجر آفتاب احمد نے کچھ دوستوں کو ان سے ملاقات کے لیے بلایا۔ جنرل فیض علی چشتی کے تاریخی کردار کی وجہ سے ملاقات میں موجودہ سبھی لوگ انہیں سننے کے مشتاق تھے۔ جنرل صاحب نے بہت سے واقعات سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے تجربے اور معلومات کی روشنی میں حال اور مستقبل کا تجزیہ بھی فرمایا۔ ان کا اخذ کردہ نتیجہ یہ تھاکہ پاکستان ایسے لوگوں سے محروم ہے جو واقعی کچھ کرسکتے ہیں۔ اپنی بات ختم کرکے انہوں نے مجھ سے پوچھا، 'ہاں بھئی جوان تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟‘۔ عرض کیا، ''میں آپ کے تجزیے سے سو فیصد متفق ہوں‘ لیکن آپ کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوں، میرے خوف کی وجہ یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں عمومی قابلیت رکھنے والے افراد بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ عرصے بعد ہمارے پاس اچھے پلمبر اور الیکٹریشن بھی نہ رہیں اور ان کیلئے بھی ہمیں باہر دیکھنا پڑے‘‘۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے اسے اچک لیا۔ کہنے لگے، آ پ صحافی ہوتے ہی مایوسی کے پیامبر ہیں، ہماری نئی نسل کمال دکھا رہی ہے، میرے اپنے دو بچوں نے فلاں فلاں ڈگریاں امتیازی پوزیشن لے کر حاصل کی ہیں‘‘۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی جنرل چشتی نے میری بات کی تائید کردی اور گفتگو کسی اور طرف چل نکلی۔ 
مجھے ایک سال پہلے کی یہ گفتگو برطانوی صحافی اوون بینیٹ جونز کا ایک مضمون پڑھ کر یاد آگئی۔ چند روز پہلے چھپنے والے اس مضمون میں اس نے پاکستانی اور بھارتی نژاد برطانوی شہریوں کا فرق بیان کیا۔ وہ بتاتا ہے کہ اس وقت برطانیہ کی حکومت میں تین وزرا ایسے ہیں جو خود یا ان کے والدین بھارت سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے میئر لندن کے سوا صرف ایک جونیئر وزیر برطانوی کابینہ میں شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے برطانوی شہریوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اس تفاوت کی وجہ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بیان کی گئی ہے۔ اس کے مطابق بھارتی نژاد برطانوی شہریوں میں سے پندرہ اعشاریہ پانچ فیصد لوگ اعلیٰ درجے کی ملازمتیں کررہے ہیں جبکہ پاکستان سے برطانیہ منتقل ہونے والوں کا صرف چھ اعشاریہ چھ فیصد اعلیٰ درجے کی ملازمتوں پر فائز ہوتا ہے۔ اسی طرح ان دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا موازنہ کیا جائے تو پندرہ سال کی عمر تک پاکستانی اور بھارتی بچے برطانوی سکولوں میں تقریباً ایک جیسی کارکردگی دکھاتے ہیں‘ لیکن سولہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستانی بچوں کے تعلیمی نتائج خراب ہونے لگتے ہیں اور بالآخر یہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسی تحقیق کے مطابق برطانیہ میں رہنے والے بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کے درمیان بھی یہی فرق رہتا ہے، یعنی مسلمان پاکستانی تارکینِ وطن کے بچے بھارتی مسلمانوں کے بچوں سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس برطانوی تحقیق نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ وہ پاکستانی بچے جو برطانیہ میں بھی پاکستانیوں کے علاقوں میں رہتے ہیں، تعلیم کے میدان میں ان پاکستانی بچوں کی نسبت زیادہ پیچھے رہ جاتے ہیں جو ان محلوں میں رہتے ہیں جہاں پاکستانی کم ہیں۔ گویا کسی علاقے میں پاکستانیوں کی اکثریت کا مطلب ہے کہ یہاں کے بچے ایسی روایات میں پلیں بڑھیں گے جوانہیں ترقی کی دوڑ میں رفتار ہی نہیں پکڑنے دیں گی۔ 
یہ مضمون اور یہ تحقیق‘ دونوں بتا رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں سستی، کاہلی، نالائقی اور کم کوشی کی بیماری جغرافیائی طور پر پاکستان تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ہر اس جگہ تک پہنچ چکی ہے جہاں جاکر پاکستانیوں نے مل کرکوئی سماج ترتیب دیا ہے۔ برطانیہ پرہی موقوف نہیں‘ آپ مشرق وسطیٰ کو دیکھ لیں، پاکستانیوں کی اکثریت ایسے کام کرتی نظر آئے گی جس کیلئے کسی ذہنی صلاحیت کی نہیں محض دو ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ عمومی طور پرکسی قابلیت سے محرومی اور دھیان سے کام نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے پاکستانی مزدور بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ خلیج کے ملکوں میں اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کام نہ کرکے یا بہت کم کام کرکے زیادہ پیسہ کمانے کی روش نے صورتحال اتنی خراب کردی ہے کہ چینی سرمایہ کار‘ جو یہاں کارخانے لگانا چاہتے ہیں، پاکستانی مزدوروں کی پیداواری صلاحیت کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ یہ حالت صرف مزدوروں کی ہوتی تو بات بھی تھی، معاملہ اس حد تک خراب ہے کہ جن چند منصوبوں پر پاکستانی انجینئرز کو لگایا گیا وہ پورے نہ ہو سکے اور انہیں چین سے تربیت دلانا پڑی۔ 
پاکستان کی افرادی قوت کا یہ خراب حال ایک دن میں نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کی وجہ سے جب کارخانے سرکاری شعبے میں آگئے تو روزگار کا موقع بھی سیاست سے منسلک ہوگیا۔ پھر نجی کاروبار نے بھی ایسی شکل اختیار کرلی کہ منڈی کے اصولوں کے مطابق نہیں سرکار دربار سے تعلق کی وجہ سے چلنے لگا۔ سرکاری ٹھیکیداری، ٹیکسٹائل، ہاؤسنگ سوسائٹیز، شوگر ملیں، کھاد کے کارخانے، بجلی گھر، سی این جی سٹیشن دراصل کاروبار کی تعریف پر پورے ہی نہیں اترتے، یہ پیسے کمانے کی وارداتیں ہیں جن میں کامیابی کیلئے بس حکومت اور بیوروکریسی کی اشیرباد کی ضرورت ہے۔ انسانی محنت اور سرمائے کا فطری تعلق توڑکر جب روزگار اور سیاسی وابستگی کوآپس میں جوڑدیا گیا تو نالائقی اور نااہلی کا وہ طوفان آیا جس کے سامنے بند باندھنا مشکل ہوچکا ہے۔ سرکاری اداروں میں بھرتی کی مثال لے لیجیے۔ پی آئی اے میں وہ لوگ پائلٹ بھرتی ہوگئے جو جہاز چلانے کا لائسنس بھی نہیں لے سکتے۔ ریلوے میں سیاسی بھرتیاں اتنی ہوئیں کہ اب اس کی پنشن کے اخراجات ماہانہ تنخواہوں سے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز میں انہیں بھرتی کرلیا گیا جو لوہے کی بھٹی کے سامنے کھڑے ہونا اپنی ہتک سمجھتے رہے۔ 1990 کی دہائی میں بے نظیربھٹو اور نوازشریف نے مقابلے میں اپنے اپنے کارکن سندھ اور پنجاب کے محکموں میں بھرتی کیے، جو آج اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر پورے ملکی نظام کو تباہ کیے دے رہے ہیں۔ سندھ میں چونکہ نوکری اور تبادلہ‘ دونوں کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں‘ اس لیے وہاں کشمور سے کراچی تک سبھی کچھ برباد ہوتا جارہا ہے۔ جو معاشرہ روزگار‘ تعلیم یا ہنر پر منحصر ہونے کے بجائے کسی بڑے کی نظرِکرم کا محتاج ہو جائے، وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے جو ہورہا ہے۔
پاکستان کے پاس ریاستی نظام کے نام پر جو کچھ بچا ہے وہ صرف ایک ادارہ ہے، فوج۔ اس ادارے نے مسلسل اپنی تربیت اور تعلیم پر توجہ دی نتیجہ یہ کہ آج ٹڈی دل ہو یا کورونا، کراچی کا سیلاب ہو یا کچھ اور، اسی ادارے کے لوگ ہیں جو متعلقہ مہارت نہ رکھنے کے باوجود کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں۔ فوج کے علاوہ کوئی ایسا ادارہ نہیں بچا جہاں اہداف حاصل کرنے یا محض اپنا کام ایمانداری سے کرنے کا رواج ہو۔ حکومت سے باہر صرف چھوٹا سا نجی شعبہ ہے جہاں لوگ کچھ کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ یہاں کام کے بغیر نوکری قائم ہی نہیں رکھی جاسکتی۔ ان دو شعبوں کے علاوہ بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا نہیں ملتا جو کام کرنے پر آمادہ ہو۔ ہاں، بڑی بڑی باتیں بنانے والے ہزاروں لاکھوں مل جائیں گے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ملکی ترقی عام آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے ترقی یافتہ ملکوں میں حکومتیں نوجوانوں کی ان کے من پسند پیشوں میں رہنمائی اور تربیت کیلئے بہت کچھ کرتی نظر آتی ہیں۔ سرکاری کاغذوں کے مطابق پاکستان میں بھی نوجوانوں کی تربیت کے لیے بہت کچھ ہورہا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اتنا اہم کام بھی وہی لوگ کررہے ہیں جن کے فہم و فراست پر کوئی بھروسہ نہیں۔ اس بے اعتمادی کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ اگر ایک آدمی نالائق ہو تو اسے خود پر اعتماد نہیں رہتا اور اگر قوم ہی نالائق ہوجائے تو کوئی کسی پربھی اعتماد نہیں کرپاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں